Express News:
2025-12-03@07:45:00 GMT

کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT

شرم الشیخ میں گزشتہ پیر کو اٹھائیس مغربی و مشرقی سربراہانِ مملکت و حکومت کی مبارک سلامت خوشامد کے شور میں فلسطین کی ایک اور جبری منگنی تو کروا دی مگر یہ بھی گزشتہ کی طرح بہت دیر چلنے والی نہیں۔تقریب میں اسرائیلی اور حماسی نمایندوں کے سوا سب تھے۔ میزبانی تو مصری صدر السیسی کے سپرد تھی مگر سب مہمان سات سمندر پار امریکا کے نیوتے پر یہاں جمع ہوئے تھے۔یہ شاید پہلی ایسی بین الاقوامی تقریب تھی جس میں میزبان ( مصر ) مہمان اور مہمان ( ٹرمپ ) میزبان تھا۔

 مہمان خود ہی گواہ اور دستخط کنندہ بنے ، خود ہی ایک دوسرے کی مبارکی قبول کی۔انیس سو ترانوے کے اوسلو سمجھوتے میں کم ازکم ایک فلسطینی ریاست کے قیام کا سراب تو تھا۔شرم الشیخ میں تو سوائے دھمکیانہ ریت اور خیالی پانی کے کچھ بھی نہیں دکھائی دے رہا۔

صدر ٹرمپ واشنگٹن سے اڑ کے سیدھے مصر آنے کے بجائے تل ابیب کے بن گوریان ایرپورٹ پر اترے۔یروشلم میں اسرائیلی پارلیمنٹ ( کنیسٹ ) سے خطاب کیا۔اسرائیلی صدر نے ان کے لیے اعلیٰ ترین سویلین صدارتی تمغے اسرائیل میڈل کا اعلان کیا۔ٹرمپ نے اپنے خطاب میں نیتن یاہو کی بہادری ، ثابت قدمی اور جواں مردی کی تعریف کی۔

ٹرمپ نے کہا کہ نیتن یاہو ایک مشکل پسند شخص ہیں اور یہی خوبی انھیں ایک عظیم رہنما بناتی ہے۔امریکا دنیا کے بہترین ہتھیار بناتا ہے اور ہم نے یہ ہتھیار اسرائیل کو دیے۔نیتن یاہو نے اکثر کہا مجھے وہ ہتھیار بھی چاہیں مجھے یہ بھی چاہئیں۔ کچھ تو ایسے ہتھیاروں کے نام لیے جن کے بارے میں مجھے بھی علم نہیں تھا کہ یہ ہم نے بنائے ہیں۔( امریکا نے دو برس کے دوران غزہ کو ملیا میٹ کرنے کے لیے اکیس ارب ڈالر کے ہتھیار فراہم کیے )۔

ٹرمپ نے کہا کہ جنگ مسلسل جاری رکھنے کے بجائے اس جنگ میں فتح پر نیتن یاہو کو مبارک باد دیتا ہوں۔تاریخ انھیں اس وجہ سے یاد رکھے گی۔مگر عالمی رائے عامہ کا بھی اسرائیل کو خیال کرنا ہے۔جنگ بندی کے نتیجے میں دنیا اسرائیل کی زیادہ قدر کرے گی۔

اسرائیلی پارلینٹ سے خطاب میں ٹرمپ نے غزہ کی بربادی کا ہرگز زکر نہیں کیا الٹا فلسطینیوں کو نصیحت کی کہ وہ اب استحکام ، سلامتی اور معاشی پیش رفت پر توجہ مرکوز کریں۔ تشدد اور دھشت گردی کے راستے سے ہٹنے کا یہ سنہری موقع ہے۔وہ اپنے درمیان موجود نفرت پھیلانے والوں سے چھٹکارا پائیں۔ فلسطینیوں کی اسرائیل سے شکایات کی وجہ اسرائیل کا ان پر مادی کنٹرول ( قبضہ ) نہیں بلکہ اصل سبب ان کے اندر پلنے والی نفرت ہے۔اتنی ہلاکتوں اور سختیوں کے بعد اب وہ اسرائیل کو چیرنے پھاڑنے کا خیال چھوڑ کر اپنی تعمیرِ نو پر توجہ دی۔

پوری تقریر میں دو ریاستی حل کے لیے ایک جملہ تک نہیں تھا۔ غالباً امن سمجھوتے کے مسودے کی طرح ٹرمپ کی تقریر کا مسودہ بھی نیتن یاہو کے دفتر میں تیار ہوا تھا۔

ٹرمپ نے اسرائیلی صدر سے اپیل کی کہ نیتن یاہو اتنا عظیم آدمی ہے کہ آپ اس پر قائم بدعنوانی کے مقدمات داخلِ دفتر کر کے صدارتی معافی دے دیں۔اس پر کنیسٹ میں نیتن یاہو کے حامیوں نے ڈیسک بجا بجا کے ہتھیلیاں لال کر لیں۔

 تاریخ میں شاید یہ پہلی بار ہوا کہ ایک ملک کے صدر نے کسی دوسرے ملک میں جا کر اس ملک کے وزیرِ اعظم کو ان مقدمات میں معاف کرنے کی درخواست کی ہو کہ جو ابھی زیرِ سماعت اور فیصلے کے منتظر ہیں۔

نیتن یاہو نے استقبالی کلمات میں ٹرمپ کو اسرائیل امریکا تعلقات کی تاریخ میں سب سے بڑا محسنِ اسرائیل قرار دیا۔

 اس واہ واہی سے لدے پھندے ٹرمپ اس سمجھوتے پر دستخط کی تقریبی صدارت کے لیے شرم الشیخ پہنچے جس کا حتمی مسودہ نیتن یاہو ، ٹرمپ کے داماد جیرارڈ کشنر اور صدارتی مشیر سٹیو وٹکوف نے الٹی میٹم کے پانی سے گوندھ کر فلسطینیوں اور ’’ امتِ مسلمہ ‘‘ کے آگے یہ کہہ کے رکھ دیا کہ ’’ اٹھالو یا نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہو ‘‘۔

 غزہ کے امن بورڈ کے سربراہ خود ٹرمپ ہوں گے۔غزہ کے وائسرائے ٹونی بلئیر ہوں گے۔ چار پانچ مسلمان ملکوں کے دستے اس بورڈ کے تحت غزہ میں امن و شانتی بنا کے رکھیں گے تاوقتیکہ فلسطینی اتھارٹی اس قابل نہیں ہو جاتی کہ وہ اپنے طور پر حماس سے پاک غزہ کا انتظام سنبھال سکے۔یعنی نو من تیل جمع ہونے تک رادھا ناچتی رہے گی۔

 برطانیہ کو ایک سو پندرہ برس پہلے بھی لیگ آف نیشنز نے فلسطین کا امانت دار بنایا تھا۔تب برطانیہ کے ہاتھوں اسرائیل کی پیدائش ہوئی۔آج بھی ایک سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلئیر کو ’’ امن و ثالثی ‘‘ برقرار رکھنے کے لیے چننے کی سن گن ہے۔

یہ وہی ٹونی بلئیر ہیں جنھوں نے دو دہائی پہلے صدام حسین کے اسلحہ خانے سے وسیع تر تباہی والے خیالی ہتھیار صدر بش جونئیر کے ساتھ مل کے نکالے تھے ۔ان خیالی ہتھیاروں کو تلف کرنے کے بہانے پانچ لاکھ عراقی ضرور تلف ہو گئے مگر کسی نے جرائم کی بین الاقوامی عدالتِ کی زنجیر ہلانے کے بارے میں سوچا تک نہیں۔

جیرلڈ فورڈ ، جمی کارٹر ، رونالڈ ریگن ، جارج بش ، بل کلنٹن ، بش جونئیر اور بارک اوباما سمیت گذرے پچاس برس میں کون سا امریکی صدر گذرا جس نے ہر بار ایک نیا سمجھوتہ کرواتے ہوئے ’’ آج ‘‘ ایک نئے مشرقِ وسطی کے طلوع ہونے کی بات نہ کی ہو۔

ٹرمپ نے بھی یروشلم اور شرم الشیخ میں ایک نئے پرامن اور خوشحال مشرقِ وسطی کی بنیاد رکھنے کا دعوی کیا۔اس کا آسان ترجمہ یہ ہے کہ ایک ایسا مشرقِ وسطی جو اسرائیل اور امریکا کے ہر منصوبے کو بلا چون و چراں آمنا و صدقنا کہے اور جتنا بھی میسر آ جائے اس پر صبر شکر کرے۔ نیز علاقے کا کوئی ملک اس قابل نہ رہے جو اسرائیل کی عسکری برتری کو کسی بھی شکل میں چیلنج کر سکے۔

ٹرمپ کے بقول اب جو سمجھوتہ ہوا ہے وہ مشرقِ وسطی کے لیے ایک جامع امن کی بنیاد ہے۔مگر شرم الشیخ میں موجود شرق و غرب کے ہر اعلیٰ و ادنی کے دل میں یہ سوال تھا کہ کسی بھی سمجھوتے میں ایک آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست کے امکان تک کا ذکر نہ ہو تو وہ پائیدار کیسے ہو سکتا ہے اور کب تک ؟ اسے جمائے رکھنے کے لیے تو اسرائیل کو کم از کم جنوبی لبنان اور شام کے تازہ زیرِ قبضہ علاقوں سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی مزید تعمیر کون رکوائے گا ؟ سمجھوتے میں یہ تک واضح نہیں کہ اسرائیل جو اس وقت تریپن فیصد غزہ پر قابض ہے وہ کب تک وہاں سے اپنا انخلا مکمل کر لے گا۔اس سمجھوتے کے بعد سے اب تک اسرائیل غزہ میں روزانہ اوسطاً آٹھ سے دس لاشیں گرا رہا ہے۔

 شرم الشیخ شاید اس لیے یاد رہے کہ بقول رحمان فارس

کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی

کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شرم الشیخ میں اسرائیل کو نیتن یاہو کے لیے

پڑھیں:

اسرائیلی وزیراعظم نے کرپشن مقدمات میں معافی کی درخواست کردی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے صدر اساق ہرزوگ سے اپنے خلاف درج کرپشن مقدمات میں معافی دینے کی درخواست کی ہے۔ نیتن یاہو نے موقف اختیار کیا کہ فوجداری کارروائیاں ان کی حکومت کرنے کی صلاحیت میں رکاوٹ بن رہی ہیں اور معافی اسرائیل کے مفاد میں ہوگی۔

وزیراعظم نے کہا کہ جو بھی ملک کے لیے اچھا چاہتا ہے وہ اس اقدام کی حمایت کرے گا، اور فوجداری سماعت کی وجہ سے ملک میں تقسیم پیدا ہو گئی ہے۔ نیتن یاہو نے مؤقف اپنایا کہ قومی اتفاق رائے کے لیے کیس کا خاتمہ ضروری ہے اور ان کی انتظامی صلاحیت متاثر ہونے کی وجہ سے معافی اسرائیل کے لیے فائدہ مند ہوگی۔

اس سے قبل امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اسرائیلی صدر سے نیتن یاہو کو معافی دینے کی درخواست کی تھی۔ دوسری جانب اپوزیشن لیڈر یایر لیپڈ نے کہا کہ بغیر جرم تسلیم کیے نیتن یاہو کو معافی نہیں ملنی چاہیے اور اگر معافی دی جاتی ہے تو انہیں سیاسی زندگی ترک کرنی ہوگی۔

اسرائیلی صدر کی رہائش گاہ کے باہر بڑی تعداد میں شہریوں نے احتجاج کیا، معافی نہ دینے اور نیتن یاہو سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ عوامی سطح پر اس اقدام پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور سیاسی ماحول کافی کشیدہ ہو گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نیتن یاہو، ٹرمپ ٹیلیفونک رابطہ، حماس کو غیر مسلح کرنے پر تبادلہ خیال
  • نیتن یاہو کی معافی اور عالمی انصاف کا بحران
  • نیتن یاہو نے کرپشن مقدمات پر صدر سے معافی کی اپیل کی، فیصلہ ریاست کے مفاد میں کرنے کا عندیہ
  • اسرائیلی وزیراعظم کی کرپشن مقدمات پر معافی کی اپیل؛ صدر کا اہم بیان سامنے آگیا
  • اسرائیلی وزیراعظم نے کرپشن مقدمات میں معافی کی درخواست کردی
  • نیتن یاہو کی صدارتی معافی کے خلاف تل ابیب میں شدید احتجاج
  • نیتن یاہو نے اسرائیلی صدر سے کرپشن کے مقدمے میں4 معافی کی درخواست کردی
  • اسرائیلی وزیراعظم نے صدر سےکرپشن کیس میں معافی کی درخواست کردی
  • اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی صدر سے کرپشن کیس میں معافی کی درخواست
  • بدعنوانی کیس: نیتن یاہو کی اسرائیلی صدر سے معافی کی درخواست