Jasarat News:
2025-12-12@11:40:25 GMT

’’کھلے آسمان کے نیچے قید خانہ‘‘

اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

الْحَمْدُللہ غزہ کی سرزمین نے ایک طویل، صبرآزما خونیں اور طویل جنگ، بے مثال صبر اور عظیم عزم کے بعد، وہ ثابت کر دیا جو کسی نے شاید تصور بھی نہ کیا تھا: اہل ِ غزہ کے حوصلے اور ایمان کی قوت کسی بھی عسکری یا سیاسی دباؤ سے مغلوب نہیں ہو سکی وہی قوت جو عالمی سطح پر خوف و دہشت کی علامت سمجھی جاتی تھی ایک ایسا ملک جس کے پیچھے عالمی قوتیں، جدید ہتھیار اور غیر مشروط حمایت میں کھڑی تھیں اور جو حماس کو صفحہ ہستی مٹانا چاہتی تھی اس طاقت کو اسی حماس سے بالواسطہ مذاکرات کر کے معاملات طے کرنے پڑے جو قوت سب کے لیے ناقابل تسخیر تھے حماس نے اسے اپنی قوت ایمانی جذبہ جہاد سے قابل تسخیر ثابت کیا اسرائیل ان بے سروسامان مجاہدین کا مقابلہ تو نہ کرسکا البتہ اس نے اہل غزہ پر ظلم وستم کے پہاڑ گرا دیے وہ غزہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے مختلف شکلوں میں ناکہ بندی، محاصرے اور اقتصادی بائکاٹ کا سامنا کر رہا تھا۔ جون 2007 کے بعد، جب حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھالا، تو اس علاقے پر زمینی، بحری اور فضائی سطح پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔ ایک ایسا محاصرہ جس نے لوگوں کی آمد ورفت، تجارت، طبی امداد اور تعمیراتی سامان تک رسائی کو شدید حد تک محدود کر دیا۔ اس محاصرے نے غزہ کو ایک ’’کھلے آسمان کے نیچے قید خانہ‘‘ کی کیفیت میں ڈال دیا، جس کے سنگین معاشی، طبی اور سماجی نتیجے سامنے آئے۔

 

جون 2007 میں جب حماس نے غزہ پر انتظامی کنٹرول حاصل کیا تو اسرائیل نے اس پٹی پر زمینی، فضائی اور بحری محاصرہ مسلط کر دیا۔ جو آج 18 سال سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ اقوامِ متحدہ نے کئی بار کہا کہ یہ محاصرہ غزہ کو ایک ’’کھلے آسمان کے نیچے قید خانہ‘‘ میں بدل چکا ہے۔ 2008، 2012، 2014، 2021 اور پھر 2023 میں اسرائیل نے غزہ پر شدید حملے کیے جن میں ہزاروں شہری شہید اور زخمی ہوئے محاصرہ اس حد تک تھا کہ: خوراک، ایندھن، اور طبی سامان کی فراہمی تقریباً مکمل بند رہی۔ مریضوں کو علاج کے لیے غزہ سے باہر جانے کی اجازت شاذ و نادر ہی ملی۔ ماہی گیری اور زراعت تباہ، روزگار ختم، اور شرحِ غربت 70 فی صد سے تجاوز کر گئی۔ تعلیمی ادارے مسلسل خطرے میں رہے، اور نئی نسل مایوسی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ یہ تمام عوامل ایک ’’خاموش نسل کشی‘‘ (Slow Genocide) کی شکل میں جاری رہے۔ جس نے 7 اکتوبر کے دھماکا خیز مرحلے کی بنیاد رکھی۔

 

اس طویل محاصرے کی وجہ سے نہ صرف بنیادی ضروریات کی فراہمی متاثر ہوئی بلکہ طبی نظام بھی مستقل دباؤ کا شکار رہا۔ اقوامِ متحدہ اور امدادی اداروں نے بارہا انتباہ دیا کہ اس نوعیت کی پابندیوں کے نتیجے میں بچوں، ماؤں اور ضعیف طبقات کی زندگیاں شدید خطرے میں ہیں۔ مثال کے طور پر، سردیوں میں متعدد تازہ رپورٹس میں بتایا گیا کہ رہائش، حرارت یا طبی سہولتوں کی کمی سے نومولود بھی قار و برف یا سردی کے باعث جان سے گئے۔ پھر 7 اکتوبر 2023 کا واقعہ آیا 7 اکتوبر 2023 کو طوفانِ اقصیٰ کے نام سے فلسطینی مزاحمت نے ایک فیصلہ کن قدم اٹھایا۔ ایک ایسا قدم جو اس طویل ذلت اور محاصرے کے خلاف صدیوں کی چیخ بن گیا۔ اس کے بعد جو اسرائیلی ردِ عمل آیا، وہ انسانی تاریخ کی بدترین تباہیوں میں شمار ہوتا ہے۔ دو سالہ جنگی دورانیے (اکتوبر 2023 تا اکتوبر 2025) میں غزہ مکمل طور پر ملبے میں بدل دیا گیا جس نے خطے کی جغرافیائی و سیاسی ترتیب کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد جو شدت اور دورانیہ کے ساتھ حملے، محاصرہ، اور انسانی المیے دیکھنے میں آئے، ان کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔ عینی شاہد اور ادارہ جاتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 7 اکتوبر 2023 سے لے کر 7 اکتوبر 2025 تک، غزہ میں ہلاک شدگان کی تعداد 67,173 کے قریب ہے اور زخمیوں کی تعداد 169,780 کے آس پاس رجسٹرڈ کی گئی۔ یہ اعداد مقامی وزارتِ صحت کی رپورٹس پر مبنی ہیں جنہیں انسانی ایجنسیوں نے بھی نوٹ کیا ہے۔  ایک دلخراش اور باعث ِ شرم حقیقت یہ ہے کہ بچوں پر ہونے والے حملوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی اموات ایک سنگین انسانی بحران کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے بچوں کے ادارے (UNICEF) سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے رپورٹ کیا ہے کہ ہزاروں سے زائد بچے اس جنگ میں مارے یا شدید زخمی ہوئے۔

 

غزہ کی شہداء، زخمی اور انسانی نقصان (تفصیلی اعداد): غزہ کی وزارتِ صحت اور اقوامِ متحدہ کے مطابق: 67,173 فلسطینی شہید ہوئے (7 اکتوبر 2023 سے 7 اکتوبر 2025 تک) 169,780 زخمی ہوئے۔ ان شہداء میں: 17,921 بچے (31 فی صد)۔ 9,497 خواتین (16  فی صد)۔ 26,655 مرد (46 فی صد)۔ 4,307 بزرگ (7 فی صد) شامل ہیں۔ کم از کم 28,000 خواتین و لڑکیاں شہید ہوئیں (UN Women، مئی 2025)• 15,613 بچے تصدیق شدہ طور پر قتل کیے گئے (UN Commission of Inquiry)۔ 227 صحافی شہید ہوئے، جن میں 30 خواتین شامل ہیں۔ 62,000 سے زائد افراد قحط، بھوک، طبی کمی یا ثانوی اسباب سے جان بحق ہوئے (Brown University – Costs of War Project)۔ ’’Nature‘‘ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق بالواسطہ و بلاواسطہ اموات 84,000 سے تجاوز کر چکی ہیں وزارت صحت نے بتایا کہ: اسی رپورٹ میں کہا گیا کہ 851 افراد وہ ہیں جو خوراک یا امداد لینے جاتے ہوئے شہید ہوئے اور 5,634 زخمی ہوئے ہیں۔

 

شہداء بچوں کی تعداد اور تعلیم کا نقصان: کمیشن ِ تحقیق ِ بین الاقوامی نے اپنی رپورٹ میں درج کیا ہے کہ 15,613 بچے کا تصدیق شدہ شمار 7 اکتوبر کے بعد سے قتل کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بتایا گیا ہے کہ غزہ میں 658,000 طلبہ ایسے ہیں جنہیں تعلیم تک رسائی سے محروم ہونا پڑا۔ انسانی بحران اور تباہ شدہ انفرا اسٹرکچر۔ 2.

1 ملین افراد (غزہ کی 95 فی صد آبادی) بے گھر ہو چکے ہیں۔ 193,000 عمارتیں تباہ یا شدید نقصان کا شکار ہیں۔ 90 فی صد تعلیمی ادارے ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں۔ 14 اسپتال جزوی طور پر فعال ہیں۔ باقی مکمل طور پر بند یا تباہ ہو چکے ہیں۔ 658,000 طلبہ تعلیم سے محروم ہیں۔ بجلی، پانی، دوا، خوراک سب بند۔ 18 مارچ 2025 کو ایک ہی روز میں 413 افراد شہید ہوئے جن میں 174 بچے شامل تھے۔ جون 2025 میں خوراک لینے والوں پر ٹینک حملے میں 70 افراد مارے گئے۔ یہ وہ اعداد نہیں جو محض خبر ہیں، یہ انسانیت کی مجموعی ناکامی کا اعلان ہیں۔

 

اخلاقی و قانونی پہلو: بین الاقوامی قانون کی رو سے اجتماعی سزا (Collective Punishment)، شہری آبادی پر بمباری، اور ناکہ بندی جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ (A/HRC/59/26) کے مطابق، اسرائیل کے اقدامات ’’نسلی تطہیر‘‘ (Ethnic Cleansing) کے قریب تر ہیں۔ مزید یہ کہ عالمی عدالت ِ انصاف (ICJ) نے مئی 2024 میں ایک عبوری حکم میں کہ ’’There is a plausible risk of genocide being committed in Gaza.‘‘ یہ جملہ دنیا کے انصاف کے نظام کے لیے آئینہ ہے۔ یہاں اہم فرق کو اجاگر کرنا ضروری ہے: 7 اکتوبر کے پیچھے پہلے سے جاری محاصرہ، اور غیر انسانی رویہ جس کا سامنا اہل غزہ پچھلی دو دہائیوں سے کر رہے تھے کا فطری نتیجہ تھا۔ یعنی غزہ میں انسانی ستم صرف ایک واقعے کا نتیجہ نہیں، بلکہ برسوں کے شکنجہ بند نظام کا نتیجہ بھی ہے۔ اہل غزہ ظلم اور جبر کے سامنے سر بسجود ہونے کے بجائے انتہائی بے سروسامانی میں اپنے حق کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طری نبردازما ہونے کا فیصلہ کیا اور اسی عزم نے 7 اکتوبر کے بعد جو تاریخی ردِ عمل پیدا کیا اس کی بنیاد رکھی۔ اور پوری دنیا کے انصاف پسند لوگ بلا تمیز مذہب ودین اہل غزہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔

 

جنگ بندی کا اعلان، چاہے وقتی ہو، مگر اس کے معانی عمیق ہیں: اس نے دنیا کے سامنے یہ واضح کر دیا کہ طاقت کے ظاہری وسائل، ہتھیار، اور سفارتی پشت پناہی کسی قوم کے ضمیر اور نصب العین کو مکمل طور پر مٹانے کے لیے کافی نہیں۔ اسی دوران ان بین الاقوامی اداروں، حکومتوں اور تنظیموں کی اخلاقی ذمے داری بھی نمایاں ہوئی جنہوں نے انسانی حقوق کے دعووں کے باوجود خاموشی اختیار رکھی یا دوہرے معیار اپنائے اور یہ تضاد عوامی توجہ کا مرکز بنا۔ آج جب جنگ بندی کا اعلان ہوا ہے، تو یہ محض عسکری وقفہ نہیں بلکہ ضمیر کی فتح ہے۔ اہل ِ غزہ نے دنیا کو دکھا دیا کہ ایمان کی طاقت، قربانی، اور عزمِ استقامت سے وہ کچھ ممکن ہے جو جدید اسلحہ سے ممکن نہیں۔ ان کے لہو نے ان تمام اداروں کے چہرے سے نقاب نوچ دیا جو ’’انسانی حقوق‘‘ کے نام پر خاموش تماشائی بنے رہے۔

 

آخر میں، اہل غزہ کے ساتھ یکجہتی کا تقاضا ہے کہ ہم انصاف، انسانی امداد، اور مستقل سیاسی حل کے لیے آواز اٹھائیں اور غزہ کی تعمیر نو میں اپنا حصہ ڈالیں غزہ انسانی حقوق اور عالمی انصاف کے تساؤلات کا سنگم ہے؛ 7 اکتوبر کے بعد جو منظرنامہ سامنے آیا، وہ محض فوجی میدان تک محدود نہیں بلکہ معاشی، سماجی اور اخلاقی اندازِ جنگ کا نتیجہ ہے اور آج جو جنگ بندی ہے، وہ ایک وقتی سانس بھی ہے اور آئندہ کے لیے فیصلہ کن لمحہ بھی۔

جاوید الرحمن ترابی

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی اکتوبر کے زخمی ہوئے شہید ہوئے اکتوبر 2023 کے بعد جو اہل غزہ غزہ کی کو ایک کر دیا کے لیے

پڑھیں:

بنگلہ دیش سی آئی ڈی کی کارروائی، انسانی اسمگلنگ کا خطرناک ملزم گرفتار

بنگلہ دیش بنگلہ دیش کی کرمنل انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) نے ایک مبینہ رکن کو گرفتار کیا ہے جو ایک بین الاقوامی انسانی اسمگلنگ رِنگ سے منسلک ہے۔ اس گروہ پر الزام ہے کہ یہ بنگلہ دیشی نوجوانوں کو یونان میں اعلیٰ تنخواہ والی ملازمت کے وعدوں کے ذریعے بہلا کر لیبیا منتقل کرتا تھا، جہاں انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور ان کے اہل خانہ سے تاوان وصول کیا جاتا۔

یہ بھی پڑھیں: انسانی اسمگلروں کے جھانسے میں آنے والے 170 افراد کی لیبیا سے بنگلہ دیش واپسی

گرفتار ملزم محمد نذیر حسین، 55، ضلع سنامگنج سے، 10 دسمبر کو ڈھاکہ کے حضرت شاہ جلال انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب حراست میں لیا گیا۔ سی آئی ڈی کے مطابق نذیر انسانی اسمگلنگ کے 2 کیسز میں ملوث ہے اور کئی سالوں سے اس نیٹ ورک میں سرگرم رہا ہے۔

اسمگلنگ کا منصوبہ

سی آئی ڈی کے تفتیش کاروں کے مطابق گروہ کا یونان میں مقیم رکن 36 سالہ شریف الدین، نے 2024 میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور 2 نوجوانوں کو یونان میں پرکشش ملازمت کی پیشکش کی۔ ہر متاثرہ شخص نے 2 لاکھ بنگلہ دیشی ٹکا پیشگی ادا کیے اور اپنے پاسپورٹ گروہ کے حوالے کیے، کل معاہدے کے تحت ہر شخص پر 1.5 ملین بی ڈی ٹی لاگت آ گئی۔

جولائی 2025 میں دونوں متاثرین بنگلہ دیش سے دبئی، پھر مصر، اور آخر کار لیبیا پہنچائے گئے، جہاں گروہ کے ساتھیوں نے انہیں مجرمانہ گروہوں کے حوالے کردیا۔ ان کا سامان ضبط کیا گیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جبکہ نذیر کی نگرانی میں بنگلہ دیش سے اہلخانہ سے تاوان وصول کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی کرنسی کی اسمگلنگ روکنے کے لیے بارڈر گارڈ بنگلہ دیش کی سرحدی کارروائیاں تیز

سی آئی ڈی کے مطابق ایک متاثرہ خاندان نے 2.18 ملین بی ڈی ٹی جبکہ دوسرے نے 1.6 ملین بی ڈی ٹی ادا کیے، پھر بھی متاثرین کو رہا نہیں کیا گیا۔ انہیں لیبیا کی پولیس کے حوالے کیا گیا اور 45 دن قید میں رکھا گیا، بعد میں انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کی مدد سے 29 اگست 2025 کو واپس بنگلہ دیش لایا گیا۔

مزید کیسز اور متاثرین

تفتیش کے دوران ملزم نذیر نے اعتراف کیا کہ اس رِنگ نے کم از کم 19 افراد کو اسمگل کیا اور تقریباً 35 ملین بی ڈی ٹی فراڈ کے ذریعے وصول کیے۔ ان میں سے 9 متاثرین آئی او ایم کی مدد سے بنگلہ دیش واپس آئے جبکہ دیگر اب بھی لیبیا میں ملیشیاؤں کے قبضے میں ہیں۔

نذیر ایک اور سی آئی ڈی کیس سے بھی منسلک ہے جو دیمرا ماڈل پولیس اسٹیشن میں درج ہے، جہاں ایک متاثرہ شخص نے 8 لاکھ بی ڈی ٹی ادا کی اور بعد میں 1.1 ملین بی ڈی ٹی مزید وصول کیے گئے، متاثرہ شخص کو صحرا میں چھوڑ دیا گیا اور بعد میں اسے لیبیا کی حکام نے حراست میں لیا۔ گرفاری کے بعد اسے 25 اگست 2025 کو واپس بنگلہ دیش پہنچایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے کی بڑی کارروائی: غیر قانونی بارڈر کراسنگ کی کوشش ناکام، 20 بنگلہ دیشی باشندے گرفتار

سی آئی ڈی کے مطابق نذیر 2021 میں ایک فراڈ کیس میں بھی چارج شیٹڈ ملزم ہے جو پینل کوڈ کی متعدد دفعات کے تحت درج ہے۔

تفتیش جاری

سی آئی ڈی کی ٹریفکنگ ان ہیومن بیئنگز (ٹی ایچ بی) یونٹ باقی بین الاقوامی گروہ کے ارکان کی شناخت اور گرفتاری کے لیے کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ نذیر نے دونوں فعال کیسز میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا اور اسے عدالت میں پیش کیا گیا جس میں ریمانڈ کی درخواست کی گئی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news انسانی اسمگلنگ بنگلہ دیش سی آئی ڈی لیبیا ملازمت ملزم گرفتار یورپ یونان

متعلقہ مضامین

  • کھلے مین ہول، ٹوٹی سڑکیں، گرین بیلٹس، گندگی، خراب پینٹ پر ذمہ داروں کیخلاف کارروائی ہو گی: مریم نواز
  • آٹو بھان روڈ پر شراب خانہ کھلنے کیخلاف اہل علاقہ سڑکوں پر نکل آئے
  • قلم فروشی کا نوحہ
  • بنگلہ دیش سی آئی ڈی کی کارروائی، انسانی اسمگلنگ کا خطرناک ملزم گرفتار
  • سرسید یونیورسٹی میں خانہ کعبہ کے چیف انجینئر کا دورہ
  • مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں، ایاز صادق کا اپوزیشن کو پیغام
  • سیلفی کے دوران 130 فٹ چٹان سے گرنے والا سیاح معجزانہ طور پر زندہ بچ گیا
  • اکتوبر کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ مد میں بجلی 88 پیسے فی یونٹ سستی
  • چوری کا شبہ ؛ 8 افراد کو دہکتے انگاروں پر چلایا گیا
  • سیلفی لیتے ہوئے 130 فٹ اونچی چٹان سے گرنے والا سیاح معجزاتی طور پر محفوظ