WE News:
2025-11-12@05:38:50 GMT

تبدیل ہوتا سیکیورٹی ڈومین آئینی ترمیم کی وجہ؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT

27ویں آئینی ترمیم پر اپوزیشن کوئی ’خاص ات‘ چکنے میں ناکام رہی ہے۔ اس سے یہ وہم کرنا بنتا نہیں ہے کہ اپوزیشن کی سیاپا اور احتجاج کرنے کی صلاحیت میں کمی آ گئی ہے۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب جے یو آئی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اپوزیشن میں داد شجاعت دینے کو تیار بیٹھے ہوں۔ اک ٹوکن سے احتجاج کے ساتھ ترمیم سینیٹ سے پاس ہوگئی۔

حکومت کو دو ووٹ کی کمی تھی جو اپوزیشن سے فراہم ہو گئے، کسی ستم ظریف کا تبصرہ ہے کہ جنہوں نے پیسے دے کر ووٹ خریدا تھا ان پر پارٹیاں اب ووٹ بیچنے کا الزام لگا رہی ہیں۔ ادھر رک کر ہم سب گول مال ہے گا سکتے ہیں۔ 27 ویں ترمیم پی ٹی آئی کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھی۔ اس پارٹی کو رگڑنے چمکانے پچکارنے کو جتنے آئینی جگاڑ درکار تھے وہ پہلے ہی حوالدار بشیر نے اپنا دماغ لڑا کر لگا لیے تھے۔ اس لیے پی ٹی آئی کا رویہ بھی کرو جو کرنا ہے، ہمیں کیا قسم کا ہی رہا۔

آرٹیکل 243 کی شق 4 اور 7 میں ترمیم کے تحت چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے کا نام تبدیل کرکے کمانڈر آف ڈیفنس فورسزکردیا گیا ہے۔ اس ترمیم کے مطابق صدر مملکت وزیراعظم کی تجویز پر ایئرچیف اور نیول چیف کی طرح کمانڈرآف ڈیفنس فورسز کا تقرر کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ 27 نومبر 2025 سے ختم ہو جائےگا۔

آئینی ترمیم کے تحت فیلڈ مارشل کو آرٹیکل 248 کے تحت قانونی استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت جس افسر کو فیلڈ مارشل، ایئر مارشل یا ایڈمرل چیف کے رینک پر ترقی دے گی، اس کی مراعات اور وردی تاحیات رہیں گی۔ ان عہدوں پر ترقی پانے والوں کو قومی ہیرو تصور کیا جائے گا۔ ان کو آرٹیکل 47 کے تحت 2 تہائی اکثریت سے ہی اپنے عہدوں سے ہٹایا جا سکے گا۔

ان ترامیم کے ذریعے کمانڈر آف ڈیفنس فورس کا جو عہدہ تشکیل دیا گیا ہے، اس پر تقرری بری فوج سے ہی ہوگی یعنی آرمی چیف ہی تینوں فورسز کا کمانڈر ہوگا۔ کوآرڈینیشن، تکنیکی مسائل اور سینٹرل کمانڈ کے اسٹرکچر کو نئے تقاضوں کے مطابق آئندہ کے لیے طے کر دیا گیا ہے۔

اس آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے اختیارات پر اصل روک لگائی گئی ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، سپریم کورٹ کو حاصل از خود نوٹس لینے کا اختیار ختم کردیا گیا ہے۔ ججوں کے شوق سیاست اور اعلیٰ عدلیہ کی پارلمیانی امور میں مداخلت کا راستہ روک دیا گیا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سیاستدانوں نے اپنے سارے بدلے اس ایک ترمیم کے ذریعے سیاسی ججوں اور عدالت سے لے لیے ہیں۔

آئینی ترمیم پر شریکوں کے ہاں ہونے والی بحث دلچسپ ہے۔ انڈیا اور افغانستان میں فوج کے سیاست، حکومت اور ریاست پر کنٹرول بڑھنے کا سیاپا کیا گیا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ جو کرنا ہوتا ہے اور جو نیت ارادہ ہوتا ہے وہ کبھی تحریری معاہدوں میں لکھ کر ظاہر نہیں کیا جاتا۔ معاہدوں کی تحریر (یہاں آپ آئین پڑھ لیں) وہ راستہ بتاتی ہے جس پر چل کر آئندہ فیصلے اور لائحہ عمل تشکیل پاتے ہیں۔

افغانستان کا میڈیا اگر پاکستانی آئینی ترمیم پر تبصرے کرتے ہوئے فوج کا کردار بڑھنے کی بات کر رہا ہے تو اس لطیفے پر ہنسنا بنتا ہے۔ جن کا اپنا کوئی آئین نہیں نہ جمہوریت کا ان کے جاری نظام سے کوئی واسطہ ہے، ان کو پاکستانی جمہوریت کا بخار چڑھ رہا ہے۔ چکر یہ ہے کہ جب امریکا منرل کو سیکیورٹی ڈومین میں لے آئے تو سوچنا بنتا ہے۔ پاکستان بھی منرل کو سیکیورٹی ڈومین میں ہی لائے گا۔ ہمیں انویسٹمنٹ، کنیکٹیوٹی اور انرجی کو بھی اسی ڈومین میں رکھنا ہوگا۔ سی پیک شروع کرنے کے بعد جتنے چیلنج آئے ان میں نمایاں کیا سیکیورٹی چیلنجز نہیں تھے؟۔

موجودہ قوانین اور اس عدالتی مزاج کے ساتھ دہشتگردی کے خلاف لڑائی جیتی تو چھوڑیں لڑی بھی جا سکتی ہے۔ بلوچستان یا خیبر پختونخوا میں عدالتوں نے دہشتگردی کے مقدمات کے حوالے سے کیا کارکردگی دکھائی؟۔ اگر آئنی ترمیم میں اعلیٰ عدلیہ کام آگئی ہے تو اس کی وجہ خود سیاسی ججوں کی اپنی محنت اور کرامتیں ہیں۔

سرمایہ کاری منصوبوں پر جس طرح اعلیٰ عدلیہ انصاف کا ہتھوڑا چلاتی رہی ہے، اس کے بعد کون سی سرمایہ کاری ان عدالتوں اور اس مزاج کے ساتھ ہونی ممکن تھی۔ ہمارے شریک اب اگر رو پیٹ رہے ہیں تو ان کو اندازہ ہورہا ہے کہ جب سیکیورٹی چیلنج درپیش ہوں گے تو ان کا جواب بھی پھر فوجی انداز سے دیا جائے گا۔ ایسا کرنے کے لیے آئین سے درکار مدد حاصل کرلی گئی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

wenews آئینی ترمیم افغانستان پاک فوج جمہوریت سرمایہ کاری سیاست سیکیورٹی ڈومین عدلیہ وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان پاک فوج جمہوریت سرمایہ کاری سیاست سیکیورٹی ڈومین عدلیہ وی نیوز سیکیورٹی ڈومین دیا گیا ہے ترمیم کے کے ساتھ کے تحت کے لیے

پڑھیں:

27ویں ترمیم اور افواہیں

حمیداللہ بھٹی

27ویںترمیم کاجوبنیادی مسودہ منظوری کے مراحل میںہے، اِس میں عدلیہ اور فوج سے متعلق ترامیم شامل ہونے کی وجہ سے اپوزیشن اِس کے خلاف ہے۔ اُس کااستدلال ہے کہ یہ ترامیم عوام کی بجائے ذاتی مفاد کے لیے کی جارہی ہیں مگرحیران کُن بات یہ ہے کہ ایوانوں میں اِس ترمیم کی منظوری روکنے سے گریزاں ہے اور بائیکاٹ کے ذریعے منظوری کی راہ ہموار کررہی ہے۔ اِس لیے کہہ سکتے ہیں کہ ممکن ہے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے بظاہر اپوزیشن ایوانوں میں ہنگامہ آرائی اور احتجاج کی کوشش کرے مگر اُس کے اطوار سے لگتا ہے کہ رکاوٹ بننے میں سنجیدہ نہیں اور محض افواہیں پھیلا نے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ نیز تعمیری کردار ادا کرنے کی بجائے حکومت کی مخالفت کرناہی فرضِ اولیں تصورکربیٹھی ہے ۔ایسے ہی دُہرے کردار سے عیاںہے شایدحکومت کو زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے اورمذکورہ بالا ترمیم رواں ہفتے ہی منظور ہوجائے اگر اپوزیشن سنجیدگی کامظاہرہ کرتی تو بحث میں حصہ لیکرمثبت تجاویز لاتی مگر اُس کے رویے سے حکومت یہ ترمیم جلد منظور کراتی دکھائی دیتی ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ وزیرِ اعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی نے استثنیٰ لینے کی تجاویز مستردکردی ہیں اورمنتخب وزیرِا عظم کوقانون اور عوام کی عدالت میں جوابدہ رکھا ہے البتہ صدارتی استثنیٰ کے مقابلے میں فیلڈ مارشل کوحاصل استثنیٰ تاحیات ہوگا عدلیہ کوبھی ایگزیکٹو کے تابع کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ سب وقت کی ضرورت ہے ماضی میں ایسی صورتحال نہیں تھی اسی لیے سیاسی عدمِ استحکام کاموجب عدلیہ بنتی رہی ماضی قریب کی ملکی تاریخ پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو عدلیہ کا کردار ایگزیکٹو سے متصادم رہا عدلیہ نے نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کیا یوسف رضاگیلانی بھی عدالتی فیصلے سے معزول ہوئے عمران خان بھی آجکل عدلیہ کاتختہ مشق ہے سوموٹو نے اِداروں کے اختیارات کا توازن درہم برہم کیا اگر اِداروں کو اختیار کی جنگ میں الجھانے کی بجائے فرائض کی ادائیگی تک محدود رکھنا ہے تو منتخب حکومت کو بے اختیار بنانے سے گریز کرنا ہوگا سب کے اختیارات واضح کرتے ہوئے حدودوقیودکاپابندکرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں منتخب وزیرِ اعظم کو چلتا کرنے کی کوئی جرأت نہ کر سکے 27 ویں ترمیم لانے کامقصد بھی یہی ہے جہاں تک فیلڈ مارشل کے عہدہ کی بات ہے تو قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ ایسے عہدوں کو بعداز سبکدوشی بھی تذلیل سے محفوظ رکھاجائے ۔
مئی کی پاک بھارت جنگ نے واضح کردی ہے کہ دفاع کے تقاضے بدل چکے اب جنگ میں بری،بحری اور فضائی افواج کو الگ رکھنا ممکن نہیں رہابلکہ اِن میں قریبی تعاون ناگزیر ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ کمان ایسی ہوجوبروقت فیصلے کر سکے ۔اگر مخالفت برائے مخالفت کاراگ چھوڑ کرچیف آف ڈیفنس فورسز کے عہدہ کی بات کی جائے تو یہ درپیش حالات کے تقاضوں اور ضروریات کے عین مطابق ہے۔ ملک کی مشرقی اور شمال مغربی سرحدیں بھی متقاضی ہیں کہ دفاعی تبدیلیوں پر نظر رکھ کر اِس کے مطابق کمان دینے کے فیصلے کیے جائیں اب اِس حوالے سے اپوزیشن کی تنقیدکاجہاں تک تعلق ہے تو وہ غیر ضروری اور محض بغض وکینہ ہی معلوم ہوتی ہے ویسے بھی ملکی تایخ سے واضح ہے کہ اپوزیشن نے حکومت کے کسی اقدام کی کبھی تائید نہیں کی بلکہ مخالفت کوہی فرض تصور کیاہے اب بھی ایسا ہی کچھ ہورہاہے یہ سوچ اور ایسا کردارہی سیاسی عدمِ استحکام کوجنم دیتا ہے پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اِس کے دفاع سے غفلت جیسے سنگین جرم کاملک متحمل نہیں ہو سکتا فیلڈ مارشل اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوا چکے بھارت اور اسرائیل اُن سے خوفزدہ ہیں افغانستان اور ایران پر بھی دفاعی بالادستی واضح کر چکے آج دنیا کی تینوں سُپرطاقتیں روس ،چین اور امریکہ ہم سے تعلقات کو فروغ دینے پر آمادہ وتیار ہیں ایسی صورتحال لانے میں فیلڈ مارشل کا کلیدی کردار ہے اسی بناپر محب الوطنوں میں اُن کی عزت و تکریم بڑھی ہے تو کیا کسی چھچھورے کو حق دیا جا سکتا ہے کہ ملک و قوم کے لیے شب و روز وقف کرنے والے پر بے سروپا دشنام طرازی کرے ؟ہر گز نہیں۔توبتائیے ستائیسویں ترمیم میں پھر غلط کیاہے؟
آئینی ترمیم کی منظوری میں مشکلات یا سیاسی مزاحمت کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اپوزیشن کا سارا زور بیانیہ بنانے پر ہے وہ ایوانوں کی بجائے سوشل میڈیا پر زیادہ متحرک ہے اُس کی موجودہ قیادت کا سیاسی کردار حب الوطنی کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں اُس کی توجہ قانونی یا پارلیمانی امور کی پیچیدگیاں نمایاں کرنے پر نہیں لہذا قرائن اِس امرکی غمازی کرتے ہیں کہ منظوری میں دوتہائی اکثریت کے حصول میں حکومت کو کسی خاص دقت کا سامنا نہیں ہو گا کیونکہ اپوزیشن لاکھ تنقید کرے اور افواہیں پھیلائے سچ یہ ہے کہ وہ تو لائحہ عمل تک نہیں بنا سکی لیکن حکومت مکمل طورپر یکسو ہے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے آزربائیجان کے دارلحکومت باکو میں مصروفیات کے باوجود آئینی ترمیم کے مسودے پر مشاورت کے لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس کیا اورویڈیولنک پر اجلاس کی صدارت کی اور منظوری کے عمل میں حصہ لیاجس کے پیشِ نظر کہا جا سکتا ہے کہ شاید منظوری کا عمل رواں ہفتے ہی مکمل ہوجائے حکومتی حلقوں میں بحث وتمحیص کے بعد اندیشوں پر خوش گمانی حاوی ہے اور وہ
اعلانیہ طورپر خوشگوار توقعات و مثبت امکانات کی طرف اِشارہ کرتے ہیں ویسے تو آئینی ترمیم کا مسودہ پارلیمان کے ساتھ عوامی حلقوں میں
بھی زیرِ بحث ہے جبکہ سوشل میڈیا پر تنقید زورو شور سے جاری ہے لیکن حکومت اور سنجیدہ طبقات ترمیم کے حوالے سے پھیلائی گئی افواہوں
کوبے بنیاقراردیتے ہیں اسی وجہ سے سیاسی ،جمہوری اور انتظامی اقدامات سے دلچسپی رکھنے والے سنجیدہ لوگ اندیشہ ہائے دوردراز کو اہمیت
نہیں دیتے بلکہ ترمیم کو موجودہ حالات میں ناگزیر قرار دیتے ہیں۔
آئینی ترمیم کی منظوری اور اِس پر عملدرآمد سے نہ صرف ملک کا عدالتی اور آئینی ڈھانچہ تبدیل ہوگا بلکہ عسکری عہدوں اور اختیارات میں بھی تبدیلیاں آئیں گی جس سے اِداروں کے درمیان مستقبل میں اختیارات کی ہر قسم کی رسہ کشی کاخاتمہ ہوگا آئینی ماہرین کے خیال میں موجودہ ترمیم سے بڑی حد تک اِداروں کی سمت درست ہوگی اورعوامی حقوق یاآزادی اظہار پر قدغن کے تاثر میں کوئی صداقت نہیں سنجیدہ حلقوں کی اکثریت کا اِس نُکتے پر اتفاق ہے کہ ستائیسویں ترمیم کی منظوری سے آئینی ابہام دورہوں گے اور اختیارات وفراض کے حوالے سے زیادہ بہتر وضاحت ہوگی ظاہرہے ایسی صورتحال جس سے ملک مستحکم ہو اور سیاسی استحکام آئے محمود اچکزئی جیسے لوگوں کو پسند نہیں آسکتی مگر وقت آگیا ہے کہ ایسے لوگوں کو سیاسی کچراسمجھ کر نظر انداز کردیا جائے کیونکہ پاکستان کے بارے فیصلے کرنا پاکستانیوں کاحق ہے خود کو افغانی کہنے والوں کویہ حق تفوض نہیں کیا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • 27ویں ترمیم اور افواہیں
  • سینیٹ اجلاس کا وقت تبدیل، چیئرمین نے منظوری دے دی
  • مونگ پھلی کے دانوں پر موجود چھلکوں کو کھانے سے کوئی فائدہ ہوتا ہے یا نہیں؟
  • 27 ویں آئینی ترمیم منظور ، کیا کچھ تبدیل کیا گیا؟ تمام تفصیلات سامنے آگئیں
  • فیلڈ مارشل کو استثنیٰ دینے سے آرٹیکل 6 ختم نہیں ہوتا: رانا ثنا اللّٰہ
  • فیلڈمارشل کو استثنیٰ دینے سے آرٹیکل 6ختم نہیں ہوتا،رانا ثنا اللہ
  • اے این پی کی خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کرنیکی ترمیم مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں پیش
  • پارلیمنٹ کی قانون و انصاف کمیٹی کا مشترکہ اجلاس،خیبرپختونخوا کا نام تبدیل کرنے سمیت مزید3ترامیم پیش
  • عدلیہ اور آئینی ترمیم: اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں