شادی کی ’ایکسپائری ڈیٹ‘ سے ’عامیانہ محبت‘ تک کاجول اور اجے دیوگن کا اختلاف
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
حال ہی میں اداکارہ کاجول نے کہا تھا کہ شادیوں کی بھی میعاد یعنی ایکسپائری ڈیٹ ہونی چاہیے اور انہیں وقتاً فوقتاً تجدید کے قابل ہونا چاہیے۔
اس بیان پر بحث ابھی جاری ہی تھی کہ اجے دیوگن نے بھی شادی اور محبت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرکے معاملے میں تھوڑا دوطرفہ بنادیا ہے۔
اپنی نئی فلم ڈی دے پیار دے 2 کی تشہیر کے سلسلے میں ’بک مائی شو‘ کے یوٹیوب چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اجے دیوگن نے محبت کے تصور میں رونما تبدیلیوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئی نسل نے محبت کے اصل مفہوم کو بے حد معمولی بنا دیا ہے۔
’میری نظر میں محبت پہلے کے مقابلے میں بہت عام سی ہو گئی ہے، لفظ ‘محبت’ کا اتنا بے دریغ استعمال ہوا ہے کہ اس کی قدر ہی ختم ہو گئی ہے۔‘
اجے دیوگن کے مطابق، ہماری نسل میں ’آئی لو یو‘ کہنا بہت بڑی بات تھی، آج لوگ اس لفظ کی گہرائی نہیں سمجھتے، اور اسے ضرورت سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ لفظ اب اتنی بے احتیاطی سے استعمال ہوتا ہے کہ اس کا اصل وزن ختم ہو رہا ہے۔
’پہلے زمانے میں محبت کا لفظ سن کر دل کی دھڑکن تک تیز ہو جاتی تھی، جبکہ اب یہ عام گفتگو میں بھی بلا جھجھک استعمال ہو جاتا ہے۔‘
اسی گفتگو میں آر مادھون نے بھی اجے دیوگن کی بات کی تائید کی، مادھون نے بتایا کہ ان کے دور میں محبت کا لفظ بولنا یا لکھنا بھی ایک اعترافِ محبت کے برابر سمجھا جاتا تھا۔
مادھون نے کہا کہ ہم جب کسی کارڈ پر ‘’لو‘ لکھتے تھے تو اسے بہت سنجیدگی سے لکھتے تھے، اجے دیوگن نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اب تو ہر میسج کے آخر میں دل والا ایموجی لگا ہوتا ہے یا ’لو‘ لکھ دیا جاتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اجے دیوگن ٹوئنکل کھنہ ردعمل شادی کاجول.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اجے دیوگن ٹوئنکل کھنہ کاجول اجے دیوگن محبت کے کہا کہ
پڑھیں:
ایرانی ماہرین نے 15 سیکنڈ میں سرطان کی شناخت کرنے والا جدید آلہ تیار کر لیا
نانا حسگرسازان سلامت آریا نامی کمپنی میں تحقیق و ترقی کی سینئر ماہر زہرا حاتمی نے خبر رساں ادارے تسنیم سے گفتگو میں بتایا کہ یہ آلہ سرطانِ پستان (Breast Cancer) کی جراحی کے دوران استعمال کے لیے تیار کیا گیا ہے اور معاونِ جراح کے طور پر کام کرتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی نالج بیسڈ کمپنی کی تحقیق و ترقی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران میں تیار کردہ آلہ "CDP Cancer Diagnostic Pro" محض 15 سیکنڈ میں سرطانی یا سرطان کا پیش خیمہ بننے والے خلیوں (Cells) کی موجودگی کا پتا لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے، خصوصاً جراحی کے دوران، جہاں درست اور فوری تشخیص مریض کی جان بچانے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے۔
نانا حسگرسازان سلامت آریا نامی کمپنی میں تحقیق و ترقی کی سینئر ماہر زہرا حاتمی نے خبر رساں ادارے تسنیم سے گفتگو میں بتایا کہ یہ آلہ سرطانِ پستان (Breast Cancer) کی جراحی کے دوران استعمال کے لیے تیار کیا گیا ہے اور معاونِ جراح کے طور پر کام کرتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جب دورانِ عملِ جراحی ٹیومر جسم سے نکالا جاتا ہے تو متاثرہ بافت میں ایک حاشیہ (Margin) باقی رہ جاتا ہے، جہاں ممکنہ طور پر سرطانی یا پیش سرطانی خلیے موجود رہ سکتے ہیں۔
جراح کو اس پورے حصے کو نقطہ بہ نقطہ معائنہ کرنا پڑتا ہے تاکہ یقین ہو سکے کہ کوئی خلیہ باقی نہیں رہا، کیونکہ اگر ایسا ہو تو مرض کی واپسی یا متاستاسس (Metastasis) کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ زہرا حاتمی کے مطابق یہ آلہ جراح کو اسی وقت اور اسی مقام پر سرطانی خلیوں کی موجودگی کا فوری پتا دیتا ہے، جس کے نتیجے میں متاثرہ بافت کا مکمل طور پر اخراج ممکن ہوتا ہے اور سرطان کی واپسی کا امکان نمایاں طور پر کم ہو جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس آلے کی بنیاد ایک الیکٹروکیمیکل سینسر پر ہے جو سرطانی خلیوں کے میٹابولک عمل کے ضمنی ذرات، بالخصوص ہائیڈروجن (H₂) کے سالمات، کو اپنے الیکٹروڈز پر شناخت کرتا ہے۔ اس کی بدولت نتیجہ صرف ۱۵ سیکنڈ میں آلے کی اسکرین پر ظاہر ہو جاتا ہے، اور جراح فوری طور پر فیصلہ کر سکتا ہے کہ آیا متعلقہ حصہ جسم سے نکالا جائے یا نہیں۔ حاتمی نے مزید کہا کہ اس آلے کا عملیاتی نظام اپنی نوعیت میں منفرد ہے۔
ان کے مطابق دنیا میں اب تک ایسا کوئی نمونہ تیار نہیں ہوا جو سرطانی خلیوں کے میٹابولک محصولات کو براہِ راست اس انداز سے شناخت کر سکے۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف ایران بلکہ عالمی سطح پر پہلی بار تیار کی گئی ہے، اور اس کے تمام مراحل یعنی ڈیزائن سے لے کر تیاری تک مکمل طور پر ایران کے اندر انجام پائے ہیں۔ مزید یہ کہ امریکہ میں اس اختراع کے آٹھ پیٹنٹس (US Patents) بھی رجسٹر کیے جا چکے ہیں، جو اس کی سائنسی جدت اور عملی قابلیت کا ثبوت ہیں۔