پاکستان کو غزہ کے شہریوں کی مصر منتقلی کے اسرائیلی منصوبے پر تشویش
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان، سعودی عرب، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، ترکی اور قطر نے جمعے کو اپنے مشترکہ بیان میں ان اسرائیلی بیانات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، جن میں رفح کراسنگ کو یکطرفہ طور پر کھولنے اور غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کو مصر منتقل کرنے کا ذکر ہے۔پاکستان، سعودی عرب، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، ترکی اور قطر نے جمعے کو اپنے مشترکہ بیان میں ان اسرائیلی بیانات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، جن میں رفح کراسنگ کو یکطرفہ طور پر کھولنے اور غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کو مصر منتقل کرنے کا ذکر ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جمعے کو جاری کیے گئے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ان ممالک کے وزرائے خارجہ ’’فلسطینی عوام کو ان سرزمین سے بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں‘‘۔
بیان میں کہا گیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے کی مکمل پابندی ضروری ہے، جس میں رفح کراسنگ کو دونوں سمتوں میں کھلا رکھنے، آبادی کی آزادانہ نقل و حرکت یقینی بنانے اور غزہ کی پٹی کے کسی بھی رہائشی کو روانہ ہونے پر مجبور نہ کرنے کی شقیں شامل ہیں۔مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا کہ ’’ایسے حالات پیدا کرنے کی ضرورت ہے جن کے تحت غزہ کے شہری اپنی سرزمین پر رہ سکیں اور اپنے وطن کی تعمیر میں حصہ لے سکیں، ایک جامع حکمتِ عملی کے تحت، جس کا مقصد استحکام کی بحالی اور ان کی انسانی صورت حال کو بہتر بنانا ہے۔وزرائے خارجہ نے خطے میں امن قائم کرنے کے لیے صدر ٹرمپ کے عزم کو سراہا اور زور دیا کہ سلامتی اور امن کے حصول اور علاقائی استحکام کی بنیادو کو مضبوط کرنے کے لیے ’ٹرمپ پلان‘ پر بلا تاخیر اور بغیر کسی رکاوٹ کے مکمل عمل درآمد میں پیش رفت ضروری ہے‘‘۔
اس سلسلے میں انہوں نے زور دیا کہ فائر بندی کو مکمل طور پر برقرار رکھا جائے، عام شہریوں کی تکلیف کم کی جائے، غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی بلا روک ٹوک رسائی یقینی بنائی جائے، ابتدائی بحالی اور تعمیرِ نو کی کوششوں کا آغاز کیا جائے اور ایسے حالات پیدا کیے جائیں جن کے تحت فلسطینی اتھارٹی غزہ کی پٹی میں اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال سکے اور خطے میں سیکورٹی اور استحکام کے نئے مرحلے کی بنیاد رکھی جا سکے۔
وزرائے خارجہ نے اس بات کی بھی توثیق کہ ان کے ممالک امریکا اور تمام متعلقہ علاقائی و بین الاقوامی فریقوں کے ساتھ تعاون اور ہم آہنگی جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں، تاکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2803 اور دیگر متعلقہ قراردادوں پر مکمل عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔اور ایسے مناسب حالات پیدا کیے جائیں جن کے ذریعے بین الاقوامی قوانین اور دو ریاستی حل کے مطابق ایک منصفانہ، جامع اور دیرپا امن حاصل ہو سکے، جس کا نتیجہ 4 جون 1967 کی سرحدوں پر مشتمل ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں نکلے، جس میں غزہ اور مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقے شامل ہوں اور جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مشترکہ بیان میں غزہ کی پٹی
پڑھیں:
ترکیے پاکستان میں جنگی ڈرون تیارکرنےکیساتھ اپنےلڑاکا طیاروں کے پروگرام میں بھی شامل کرنا چاہتا ہے، بلوم برگ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی جریدے بلوم برگ کے مطابق ترکیہ پاکستان میں جنگی ڈرون تیار کرنے کی فیکٹری قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ساتھ ہی پاکستان کو اپنے ففتھ جنریشن لڑاکا طیاروں کے منصوبے میں شامل کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی ہے۔
بلوم برگ کا کہنا ہے کہ ترکیہ بین الاقوامی منڈیوں میں اپنی دفاعی صنعت کو فروغ دینے کے ہدف کے تحت پاکستان میں جنگی ڈرون کی اسمبلنگ کے لیے ایک فیکٹری قائم کرنا چاہتا ہے۔
معاملے سے واقف ترک حکام کے مطابق اکتوبر کے بعد سے اس منصوبے پر ہونے والی بات چیت میں قابلِ ذکر پیش رفت ہوئی ہے۔
حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ منصوبے کے تحت اسٹیلتھ اور طویل فاصلے تک پرواز کرنے والے ڈرون کے پرزے ترکیہ سے پاکستان بھیجے جائیں گے، جہاں ان کی اسمبلنگ کی جائے گی۔
بلوم برگ کے مطابق ترکیہ اور پاکستان دونوں نے اس رپورٹ پر تاحال کوئی ردِعمل نہیں دیا۔
جریدے کا مزید کہنا ہے کہ ترکیہ مشترکہ پیداواری معاہدے کے تحت پاکستانی بحریہ کے لیے جنگی جہازوں کی تیاری پر بھی کام کر رہا ہے، جب کہ وہ پاکستان کے متعدد ایف-16 طیاروں کو اپ گریڈ بھی کر چکا ہے۔ اب ترکیہ چاہتا ہے کہ پاکستان اس کے ففتھ جنریشن لڑاکا طیارہ پروگرام کا بھی حصہ بنے۔
رپورٹ کے مطابق ترکیہ نے رواں سال متعدد ممالک کے ساتھ دفاعی تعاون کے معاہدوں کا اعلان کیا ہے، جن میں انڈونیشیا کی جانب سے لڑاکا طیاروں کا آرڈر بھی شامل ہے۔ اسی طرح ترکیہ سعودی عرب اور شام کو مزید اسلحہ فراہم کرنے کے منصوبے بھی رکھتا ہے۔