WE News:
2025-12-09@04:14:19 GMT

تہذیبی کشمکش اور ہمارا لوکل لبرل

اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT

برٹش انڈیا کے بعد سے ہمیں اس سنگین بحران کا سامنا ہے کہ ہم بطور معاشرہ پروپیگنڈوں کے اسیر ہوگئے ہیں۔ ان پروپیگنڈوں کا ایک بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہم تعمیری گفتگو یا کام کی بجائے لغویات میں مبتلا ہیں۔

پروپیگنڈے حقائق جھٹلانے کا بھی کام کرتے ہیں سو ہم حقائق کا بھی انکار کر ڈالتے ہیں۔ اپنے حریف گروہ کی خوبیوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے اس کی خامیاں ڈھونڈتے ہیں۔ اگر معمولی سی خامی ہاتھ آجائے تو اس کا وزن مبالغے کے تڑکے سے بڑھا دیتے ہیں اور اگر مطلوبہ نوعیت کی خامی نہ ملے تو یہ سوچ کر جھوٹ کا تکا آزما لیتے ہیں کہ مخالف شاید اس پہلو سے مکمل لاعلم  ہو۔

مثلا آپ ہمارے مذہبی طبقے کو ہی لے لیجیے۔ آپ ان سے یہ سادہ سا سوال کیجیے کہ آپ کی مغرب کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ وہ جواب کا آغاز یا تو ان جنگوں سے کریں گے جو مغرب نے مسلط کیں۔ یا پھر ان کے معاشرتی مسائل کو زیر بحث لائیں گے۔ آپ اس گفتگو کا دائرہ گھنٹوں پر محیط کر لیجیے اور خود سے ’علمی خدمات‘ کا اشارہ مت دیجیے۔ وہ کسی صورت اس کی طرف نہیں آئیں گے۔ اس کے بعد آپ اٹھ کر لبرل طبقے کی کسی مجلس میں پہنچ جایئے۔ اور ان سے یہ سمپل سا سوال کیجیے کہ مسلم تہذیب کے دور عروج سے متعلق ان کی کیا رائے ہے ؟

وہ آپ کو بتائیں گے تلوار کے زور پر ممالک فتح کیے گئے اور اس دوران بڑے مظالم کیے گئے۔ داخلی انتشار تھا، مسلم سلاطین ایک دوسرے سے بھی لڑے۔ ایک دوسرے پر فتوے لگائے گئے۔ سائنس کو حرام قرار دیا گیا۔ اسلامی وحدت تو تھی ہی نہیں فرقہ واریت زوروں پر تھی۔ اخوان الصفاء کی کتابیں جلائی گئیں۔ ماڈرن علوم کا فروغ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جو سب پروپیگنڈہ ہے حقیقت میں تو ملا سائنس کے خلاف فتوے دے رہے تھے وغیر وغیرہ۔

یہ بھی پڑھیں: مغربی لٹریچر اور ہمارے نوجوان علما

جب یہ خوب بول چکیں تو پھر آپ ان سے یہی سوال مغرب سے متعلق بھی کر لیجیے۔ لائیے اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دیدیں کہ مغرب سے متعلق یہ گفتگو کا آغاز ہی رینسانس کے بعد والے مغرب سے کریں گے۔ مغرب کے پہلے دور کی جانب یہ جائیں گے ہی نہیں۔ اور اگر گئے تو پھر 2 ہی چیزوں کا توصیفی تذکرہ کریں گے۔ ایک گریک متھالوجی اور دوسرا یونانی فلسفہ۔ گویا یہ مغرب کی تعریف ہی مسخ کر ڈالیں گے جو یہ ہے

’مغرب نام ہے یونی فلسفے، رومن نظم و نسق اور عیسائی تعلیمات کا‘

اس تعریف میں رومن حوالہ ان کے لیے جان لیوا ہے۔ کیونکہ رومن وہ ہیں جنہوں نے یونانی فلاسفہ پر ان کے فلسفے سمیت کفر کے فتوے لگا کر انہیں واجب القتل قرار دیا۔ اور رومن ہی ہیں جنہوں نے اسکندریہ والی لائبریری کو ایک نہیں 3 بار نذر آتش کیا۔ اور تب تک اس کی جان نہ چھوڑی جب تک اسے خاکستر نہ کرچکے۔

ذرا بددیانتی دیکھئے کہ یہ مسلمانوں کے پہلے دور کا مغرب کے پہلے دور سے نہیں بلکہ رینسانس کے بعد والے دور سے موازنہ کرتے ہیں۔ حالانکہ بچ یہ یہاں بھی نہیں پاتے۔ مثلاً ایک حالیہ مثال دیکھیے۔ کیا عیسائیت میں 5 فرقے نہیں؟ اور یوکرین کی جنگ کے دوران عیسائیت کے روسی آرتھوڈوکس فرقے کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ زلنسکی کے ہاتھوں نشانہ نہیں بنویا گیا ؟  اس کے چرچ تباہ اور پادری گرفتار و ہراساں نہیں کیے گئے؟ اس فرقے پر باقاعدہ سرکاری پابندی نہیں لگوائی گئی؟ اور یہ سب کروایا کس نے؟ اسی امریکا اور یورپ نے جس کی مدح سرائی کرتے ہمارے لبرل تھکتے نہیں۔

مسلمانوں نے تلوار کے ذریعے ممالک فتح کیے اور بڑا ظلم کیا؟ چلیں پہلے ظلم والے حصے کو دیکھ لیتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ کے چند بڑے قتل عام ہسٹری میں باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں۔ ایسے ایسے قتل عام جن میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ ان سب کی مجموعی تعداد کروڑوں میں ہے۔ کیا ان میں سے ایک بھی مسلمانوں سے منسوب ہے؟ کوئی ایک بھی شہر ایسا ہے جسے فتح کرنے کے بعد مسلمانوں نے آگ لگا کر خاکستر کردیا ہو؟  کوئی ایک لائبریری ہے جسے مسلمانوں نے نذر آتش کیا ہو؟  دینے کو مغرب کے ہاتھوں ہونے والے بہت بڑے قتل عاموں کی مثالیں موجود ہیں اور وہ بھی رینسانس کے بعد کی۔ مگر آپ جاپان والے 2 ایٹم بم ہی دیکھ لیجیے۔ جو ابھی کل ہی کی بات ہے۔ وہ سویلین آبادی کا قتل عام نہ تھا تو کیا تھا؟ عین ماڈرن دور کا قتل عام۔

رہی تلوار کے ذریعے ممالک فتح کرنے کی بات تو یہ نری جہالت کے سوا کچھ ہے بھی نہیں۔ لگتا ہے ہمارے لبرلز نے کبھی بیلنس آف پاور، جیو پالیٹکس، جیو اکنامک اور جیو اسٹریٹجی نامی چڑیوں کے نام نہیں سنے۔ کیا پرشین ایمپائر پاگل تھی جو یونانیوں پر حملے کے لیے بار بار گئی؟ کیا سکندراعظم کو پاگل کتنے نے کاٹ لیا تھا جو دنیا فتح کرنے نکلا ؟ کیا رومنز نے بس دیوانگی کے زیر اثر گریک سویلائزیشن کو فنا کے گھاٹ اتار دیا؟  کیا مسلم زوال کے بعد سپین محض نشے میں لاطینی امریکا تک پہنچ گیا تھا؟ کیا ایک صبح برطانوی جاگے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کی سلطنت میں تو اب سورج ہی غروب نہیں ہوتا؟ کیا پرتگالی، فرانسیسی اور ڈچ فوجیں مطالعاتی دورے پر دنیا کے مختلف کونوں میں پہنچ گئی تھیں؟ کیا ہٹلر نے محض اس لیے یورپ کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی کہ ڈیگال نے اس سے کہہ دیا تھا ’منے تھاری مچھا اچھی نا لگیں؟‘  اور یہ امریکا جو عین اس لمحہ موجود میں وینزویلا کو بحری بیڑوں سے گھیر کر کھڑا ہے، وہاں کیا کرنے گیا ہے؟ کرسمس کے تحائف بانٹنے گیا ہے؟

مسلم سلاطین آپسی جنگوں میں مبتلا ہوئے؟ کیا ان کی باہمی جنگیں یورپین جنگوں سے زیادہ ہیں؟ وہ تو شکر کیجیے دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے مارشل پلان کا لولی پاپ دے کر انہیں غلام بنا کر کنٹرول کرلیا ورنہ انسانی تاریخ کو پہلی اور دوسری جنگ عظیم دینے والے باز رہتے؟ برطانویوں اور فرانسیسیوں کی باہمی نفرت، پھر فرانس اور اٹلی کی آپسی نفرت اور ان سب کی جرمنز سے نفرت، یہ کوئی سربستہ راز ہیں؟

 اندلس میں سائنس کے خلاف چند علما کے فتوے  تو نظر آجاتے ہیں، وہ گورے دانشور کیوں نظر نہیں آتے جو ڈاکومنٹریز بنا بنا کر کہہ رہے ہیں کہ مون لینڈنگ ایک سائنسی فراڈ اور جھوٹ تھا؟ وہ کروڑوں امریکی کیوں نظر نہیں آتے جن کا ماننا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹھیک کیا کہ امریکا کو ’پیرس ایگریمنٹ‘ سے نکالا کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی کا دعوی ایک بکواس اور فراڈ ہے؟ اگر اندلس کے چند علما کے فتوے کوئی سنجیدہ معاملہ ہوتے تو وہ سائنسی پیش رفت ہوپاتی جو وہاں ہوئی؟ وہ اس لیے ہوپائی کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اندلس کی مساجد کے مینار تک خلائی سائنس کی رصدگاہ کے طور پر زیر استعمال تھے۔  یقین نہ آئے تو ذرا قرطبہ کی مسجد میں جاکر مشاہدہ کر لیجیے جو اس وقت بھی موجود ہے۔

ہمارے لوکل لبرلز نے اخوان الصفاء تو بڑی یاد رکھی ہوئی ہے مگر امریکا میں کمیونسٹوں کے ساتھ  ہونے والا اخوان الصفاء سے بھی بدتر سلوک نظر نہیں آتا؟ کیا اس کی تفصیل بھی ہم ہی کو بتانی پڑے گی؟ کبھی آپریشن گلاڈیو کا نام سنا ہے؟ کچھ معلوم ہے کہ اس کے ذریعے فرانس اور اٹلی سمیت کئی یورپین ممالک  میں کتنے کمیونسٹوں کو بال بچوں سمیت قتل کیا گیا؟ مغربی یورپ کے تمام ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز سالوں چلنے والے اس آپریشن میں شامل تھیں۔ اور یہ سب لبرل ازم کے دور عروج میں ہوا۔اس آپریشن کو موضوع بنا کر کئی مغربی اسکالر پی ایچ ڈی کرچکے۔ ہمارا اپنے لوکل لبرلز کا مشورہ ہے کہ دھندہ تو اب ویسے بھی وڑ چکا۔ اور کوئی بھی فنڈنگ نہیں آنی، اس لیے بہتر یہ ہے کہ پروپیگنڈوں سے حقائق کی دنیا میں آجائیں۔

مثلاً یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ میں جسے مظم اور باقاعدہ علمی آغاز کہا جاسکے وہ یونانیوں کا  ہی بے مثال کارنامہ ہے۔ جس میں ان کی برتری یہ ہے کہ وہ گویا موجد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کام وہ ایک لیول پر ہی پہنچا پائے تھے کہ رومنز کا نشانہ بن گئے۔ مگر عقلمندی یہ کردی تھی کہ اپنا کتب خانہ بحفاظت ایران منتقل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ وہی ایران جس کے خلاف کشمکش کے دور میں ’مغرب و مشرق‘ کی تاریخی سیاسی و فکری اصطلاح یونانیوں نے ہی تخلیق کی تھی۔ ایک ایسی اصطلاح جس کی کھینچی ہوئی لکیر اس لمحہ موجود میں بھی پوری طرح موجود ہے۔  اور جس کے نتیجے میں رینسانس کے بعد والے دور میں استشراق کی پوری واردات وجود میں آئی تھی۔

مزید پڑھیے: دہشت گردی: اسباب اور سہ رخی حل

سو جب مسلم فتوحات کے دور میں وہ لائبریری مسلمانوں کے ہاتھ لگی تو انہوں نے 3 علمی کارنامے انجام دیے۔ پہلا یہ کہ کچھ لٹریچر عبرانی زبان میں تھا مگر عبرانی بولنے والا کورہ ارض پر کوئی نہ بچا تھا۔ چنانچہ اس مری ہوئی زبان کو مسلمانوں نے پھر سے زندہ کیا جو آج نیتن یاہو سمیت ہر اسرائیلی فرفر بول رہا ہے۔ دوسرا کام یہ کہ یونانی لٹریچر کے تراجم کیے۔ اور تیسرا یہ کہ فلسفے اور ریاضی سمیت جو بھی علوم ان کے ہاتھ لگے تھے، انہیں  اس لیول سے اگلی ارتقائی منازل پر پہنچانا شروع کیا جس لیول پر یونانیوں نے چھوڑا تھا۔

ہمارا مقامی لبرل نہیں مانتا تو سو بار نہ مانے۔ مگر خود مغرب تو مانتا ہے۔ یعنی جس طرح مسلم تہذیب نے برملا اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ عقلی و انسانی علوم کے ہم موجد نہیں بلکہ یہ ہمارے پاس یونانی ورثے کے طور پر آئے تھے، اور ہم نے انہیں آگے کی ارتقائی منازل تک پہنچایا ہے۔ بعینہ مغربی تہذیب بھی اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کرتی ہے کہ یہ جو ہماری علمی ترقی ہے یہ ہمارے پاس یونانیوں اور مسلمانوں کے ورثے کے طور پر پہنچنے والے علمی کام کی ایکسٹینشن ہے۔

پنڈولم ایک بار پھر حرکت میں ہے۔ اب چائنا کا دور شروع ہو رہا ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے چائنیز اس بات کا اعتراف نہیں رکھتے کہ علم کو مغرب نے جہاں پہنچایا ہے، اس سے آگے کا ارتقائی عمل اب وہ انجام دینا شروع کرچکے؟

سو یہ بات اچھی طرح ذہن میں بٹھا لینی چاہیے کہ سائنس پر کسی بھی تہذیب کی تنہا اجارہ داری نہیں۔ یونانی تہذیب نے اس کی بنیاد رکھی تھی، مسلم تہذیب نے اس پر کئی منازل تعمیر کیں، مغربی تہذیب نے اسے مزید بلندیوں تک پہنچایا اور اب چائنیز تہذیب کی باری ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری سپیڈ یونانیوں سے زیادہ تھی کیونکہ مراحل ہی نہیں وسائل بھی ترقی پا رہے تھے۔ اسی طرح مغرب کی اسپیڈ ہم سے زیادہ تھی اور اب چین کی اسپیڈ مغرب سے بھی تیز تر ہوگی۔ یہ ترقی ہے جس کی خاصیت ہی یہ ہے کہ اس کی اسپیڈ زمانے کے ساتھ تیز سے تیز تر رہوتی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: جیو پالیٹکس اور مذہبی عینک

ہمیں ڈر ہے اس اسپیڈ میں لوکل لبرل کہیں گورے کے پلیٹ فارم پر ہی نہ رہ جائے کیونکہ اسے اپنے زوال کے ان مراحل میں اب بائبل اور خاندان یاد آنے لگے ہیں، سو وہ انہی کی طرف لوٹ رہا ہے، مگر آپ؟ آپ کہاں جائیں گے؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

پروپیگنڈا تہذیبی کشمکش سکندر اعظم لبرل طبقہ لوکل لبرل.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پروپیگنڈا تہذیبی کشمکش لوکل لبرل رینسانس کے بعد لوکل لبرل تہذیب نے یہ ہے کہ قتل عام کے ساتھ مغرب کے کے دور سے بھی

پڑھیں:

اب کوئی بات نئی بات نہیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251209-03-4
ڈی جی آئی ایس پی آر بہت غصے میں تھے۔ ممکن ہے ان کا غصہ بجا ہو۔ سنا تھا کہ جوش میں ہوش کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے لیکن اب آنکھوں نے جو کچھ دیکھا اسے دیکھ کر ایسا ہی لگا۔ اللہ کرے کہ دامن ہوش دوبارہ تھام لیا جائے کیونکہ اب اگر ملک سنور جانے کی کوئی آخری امید نظر آتی ہے تو وہ اسی ادارے کی ہوشمندی میں ہی مضمر ہے کیونکہ اب حالات اتنی گمبھیر صورت اختیار کر چکے ہیں کہ ان کو قابو میں رکھنا اور اچھی صورت حالات کی جانب لوٹانا سیاسی قائدین اور پارٹیوں کے بس میں بھی نہیں رہا۔ میں اپنی اصل بات کی جانب جانے سے پہلے یہ بات بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ ریاست پاکستان میں رہتے ہوئے بھی آج تک میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب ڈی جی آئی ایس پی آر لفظ ’’ریاست‘‘ استعمال کرتے ہیں تو وہ ریاست کس کو کہہ رہے ہوتے ہیں۔ میں سیاست کا ایک ادنیٰ سا طالب ِ علم ہوں اور میں نے ریاست کی تعریف میں جو پڑھا ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر کی بیان کردہ ’’ریاست‘‘ کی شکل اس میں مجھے کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ مختصراً ریا ست کے لیے جن تین بنیادی باتوں کو لازمی قرار دیا گیا ہے اس کی اول شرط خطہ زمین کا ہونا ہے، دوسری شرط معقول آبادی ہے اور تیسری شرط خود مختار حکومت کا ہونا۔ یہ تین چیزیں اگر مربوط نہیں تو اسے ریاست کہا ہی نہیں جا سکتا۔

ہم حالیہ دور کو بھی سامنے رکھیں تو فلسطین ایک خطہ زمین کا نام ہے اور وہاں انسانوں کی ایک بڑی آبادی بھی موجود ہے لیکن کیونکہ وہاں خود مختار حکومت نام کی کوئی چیز نہیں اس لیے اسے آج تک ایک آزاد و خود مختار ریاست کا درجہ حاصل نہیں ہو سکا۔ ایک اور مثال بنگلا دیش کی ہے کہ وہ جب پاکستان کے ساتھ تو اس وقت بھی وہ ایک خطہ زمین رکھتا تھا، آبادی کے لحاظ سے بھی اس وقت اس کی آبادی کروڑوں میں تھی لیکن وہ ریاست اس لیے نہیں تھا کہ اس کی اپنی کوئی خود مختار حکومت نہیں تھی۔ جب بنگال میں ایک خود مختار حکومت کا وجود عمل میں آگیا تو وہ ایک ریاست کی شکل اختیار کر گیا۔ باقی کسی ملک میں فوج کا ہونا، پولیس کا ہونا، مقننہ کا ہونا، عدالتوں کا ہونا وغیرہ جو کچھ بھی ہے، وہ تو سب کی سب ریاست بن جانے کے بعد کی باتیں ہیں اور ہر نو زائدہ ملک اپنے باقی ادارے اور محکمے ریاست بن جانے کے بعد ہی قائم کرتا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے جب بھی لفظ ’’ریاست‘‘ کا ذکر آتا ہے تو صاف ایسا دکھائی دے رہا ہوتا ہے کہ ہماری فوج خود ایک ’’ریاست‘‘ ہے اور جب بھی کوئی ایسی تحریک چلتی ہے یا ملک کے کسی گوشے سے اس پر کوئی تنقید کر رہا ہوتا ہے، ریاست (فوج) اپنے آپ کو حرکت میں لانا فرض تصور کرنے لگتی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس اس لیے سمجھ سے باہر ہے کہ اس قسم کی کانفرنس ان کی جانب سے کیے جانے کے بجائے حکومت کی جانب سے ہونی چاہیے تھی۔ اگر کوئی فرد یا جماعت ملک کے خلاف بات کر رہی ہو تو حکومت ِ وقت کا فرض ہوتا ہے کہ فرد یا جماعت کے خلاف قانونی کارروائی کرے اور ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے پی ٹی آئی یا اس کے سر براہ کے خلاف لگائے گئے الزامات کوئی نئے نہیں۔ پاکستان کا ماضی ایسی ہی الزام تراشیوں سے بھرا پڑا ہے۔ ایوب خان کے دور میں قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف بھی ایسے ہی الزامات لگائے گئے تھے۔ یہی نہیں، ان کا ساتھ دینے والے ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھارتی ایجنٹ بنانے کی منصوبہ بندی کر دی گئی تھی جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔

پاچا خان اور ان کی جماعت بھی اس کی لپیٹ میں آئی۔ جماعت اسلامی پر بھی امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی نہ صرف پاکستان کے لیے خطرہ قرار دیا گیا بلکہ اسے پھانسی تک دیدی گئی۔ اسٹیبلشمنٹ نے نہ نواز شریف کو چھوڑا اور نہ بینظیر بھٹو کو۔ آصف زرداری کو آٹھ سال قید کاٹنا پڑی اور الطاف حسین اور ان کی پارٹی کو بھی ’’اسی ریاست‘‘ نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ گویا یہ ادارہ، بزعم ِ خود ایک ایسی سانس لیتی ریاست بن چکا ہے جو جب اور جس کو چاہے غدارِ اعظم بنادے اور پھر جب چاہے اسے سب سے زیادہ وفادارِ ریاست قرار دے کر اقتدار کی کرسی پر براجمان کر دے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر صاحب! اگر آپ کی ساری پریس کانفرنس کا نچوڑ نکالا جائے تو پھر پاکستان میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو ’’پاکستانی‘‘ قرار دیا جا سکے۔ کے پی کے، سندھ اور بلوچستان پہلے ہی سیکورٹی رسک تھے اور ان کے خلاف طاقت کا استعمال روا تھا کہ اب پنجاب کو بھی آپ اپنے خلاف کرتے جا رہے ہیں۔ آزاد و جمہوری ممالک جس میں برطانیہ سر ِ فہرست ہے، وہاں اپنے اور بیگانے کا فرق معلوم کرنے کا طریقۂ کار الیکشن کے ساتھ ساتھ ’’ریفرنڈم‘‘ کا بھی ہے۔ کچھ ہی عرصے قبل برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ کی علٰیحدگی پسند تحریک کی آواز پر وہاں ریفرنڈم کرایا گیا تھا۔ اگر آپ جمہوریت کو اپنا دین و ایمان سمجھتے ہیں تو کیوں نہ آپ عوام اور اپنے درمیان ایک ریفرنڈم کرالیں کہ کون پاکستان کا ہمدرد ہے اور کس کے تجربے اور پالیسیاں پاکستان کو مسلسل نقصان پہنچا رہی ہیں۔ پاکستان کو اگر واقعی پاکستان بنانا ہے تو اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستانی عوام اور آپ کے درمیان اس ریفرنڈم کا انعقاد ہو جانا چاہیے۔ رہی بات آپ کے الزامات کی تو میں صرف اتنا ہی عرض کر سکتا ہوں کہ

اب کوئی بات نئی بات نہیں
اب کسی بات پہ چونکا نہ کرو

سیف اللہ حبیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • اب کوئی بات نئی بات نہیں
  • ہمارا ہمیشہ سے موقف ہے مضبوط فوج پاکستان کی ضامن ہے، بیرسٹر گوہر
  • چین اور پاکستان کا دوستانہ تعلق ہمارا اثاثہ ہے: وفاقی وزیر عطاء تارڑ
  • یوم ثقافت سندھ کی پہچان‘ تہذیبی تسلسل اور اجتماعی یکجہتی کا دن ہے،ناصر شاہ
  • کہتے ہیں خیبرپختونخوا  سیکیورٹی  معاملات  پر  سنجیدہ نہیں ، ہمارا  قصور نہیں،  آپ  اپنی  پالیسیاں تبدیل کریں، سہیل آفریدی
  • کام ہمارا ہوتا ہے اور تختی منعم ظفر کی لگا دیتے ہیں: مرتضیٰ وہاب
  • خاقان شاہنواز کی منگنی پر کہا گیا جملہ—’ہمارا تو ہوگیا، آپ لوگ اپنا دیکھ لو‘ وائرل!
  • نیشنل گیمز کا افتتاح، نوجوان ہمارا مستقبل، عالمی سطح پر میڈلز جیت کر لائیں گے: بلاول
  • 20 برسوں میں یورپ کی تہذیبی تباہی کی امریکی پیشین گوئی