مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستیں سماعت کیلئے منظور
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
توہین عدالت کی درخواست بھی اس کیس کے ساتھ ہی سنی جائے گی ، عدالت عظمیٰ کا فیصلہ
جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلاف ،نظر ثانی درخواستیں ناقابل سماعت قرار
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کردئیے جبکہ بینچ کے ارکان جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اختلاف کرتے ہوئے نظر ثانی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیدیا ، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے ہیں کہ فیصلے پر عملدرآمد کیے بغیر آپ نظر ثانی کیسے فائل کر سکتے ہیں؟ جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے ہیں کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست بھی ہے ۔منگل کو سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 13 رکنی آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی، آئینی بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس عقیل عباسی، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے ۔سماعت کے آغاز پر مسلم لیگ (ن) کے وکیل حارث عظمت روسٹرم پر آئے اور مؤقف اختیار کیا کہ مخصوص نشستیں ایک ایسی جماعت کو دی گئیں جو کیس میں فریق نہیں تھی۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اس نکتے کا جواب فیصلے میں دیا جا چکا ہے ، آپ کی نظرثانی کی بنیاد کیا ہے ؟جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کا پورے فیصلے سے اختلاف ہے یا پھر اکثریتی فیصلے سے ؟وکیل حارث عظمت نے کہا کہ ہمارا اختلاف اکثریتی ججز سے ہے ، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی نشستیں دینے کی استدعا ٹیکنیکلی مسترد کی تھی۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے نظرثانی کا اسکوپ محدود ہے ، اس پر دوبارہ دلائل نہیں دے سکتے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے ریٹرننگ افسر (آر او) کا آرڈر اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود تھا۔حارث عظمت نے کہا کہ پی ٹی آئی وکلا کی فوج تھی، پھر بھی ان آرڈرز کو چیلنج نہیں کیا گیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ہم ایک پارٹی کی غلطی کی سزا قوم کو دیں؟ کیا سپریم کورٹ کے نوٹس میں ایک چیز آئی تو اسے جانے دیتے ؟ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ سارے نکات تفصیل سے سن کر فیصلہ دیا تھا۔جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ بار بار ایک سیاسی جماعت کا نام لے رہے ہیں، اسے چھوڑ دیں، سپریم کورٹ نے آئین کے مطابق فیصلہ دیا، آپ ہمیں بتائیں کہ فیصلے میں کیا غلطی ہے ، جو باتیں آپ بتا رہے ہیں، ہمیں وہ زمانہ طالب علمی سے معلوم ہیں، کیا اب آپ سپریم کورٹ کو سمجھائیں گے ؟انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 181 کے تحت نظرثانی کے دائرہ اختیار پر دلائل دیں، آپ نظر ثانی میں اپنے کیس پر دوبارہ دلائل دے رہے ہیں، نظر ثانی کے گراونڈز نہیں بتا رہے ۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد ہوا تھا؟وکیل حارث عظمت نے کہا مجھے کنفرم نہیں ہے ۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ عدالت کے سامنے کھڑے ہیں، یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کو کنفرم نہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ نے یہ بھی بتانا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن باؤنڈ نہیں ہے کہ ہمارے فیصلے پر عمل درآمد کرے ؟جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد کیے بغیر آپ نظر ثانی کیسے فائل کر سکتے ہیں؟جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست بھی ہے ۔دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند روسٹرم پر آئے ۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کیا آپ نے فیصلے پر عملدرآمد کیا ہے ؟ آپ ہاں یا نہ میں اس سوال کا جواب دیں۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم نے ایک پیرا اگراف کی حد تک عمل کیا ہے ۔جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کیا یہ آپ کی منشا یا مرضی کی بات ہے کہ کس پیراگراف پر عمل کریں گے ؟جسٹس عائشہ ملک نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ اس فیصلے سے کیسے متاثر ہیں؟ آپ کو مرکزی کیس میں بھی کہا گیا تھا کہ آپ کا رویہ ایک پارٹی کا ہے ، آپ نے جس فیصلے پر عمل نہیں کیا، اس پر نظرثانی مانگ رہے ہیں؟ آپ کا کام الیکشن کروانا ہے ، آپ اس کیس میں پارٹی کیسے بن سکتے ہیں؟الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ مجھے پشاور ہائی کورٹ میں فریق بنایا گیا تھا، اس لیے میں سپریم کورٹ آیا۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے آئین کی تشریح کی، آپ کو تشریح پسند نہیں آئی اور دوبارہ سپریم کورٹ آگئے ۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کیا ہے ؟ اگر الیکشن کمیشن نے فیصلے پر عمل کیا ہے تو ٹھیک، ورنہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہمارے فیصلے پر عمل ہوگا؟وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ ہم فیصلے پر جزوی طور پر عمل کر چکے ہیں۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ فیصلے پر عملدرآمد میں پک اینڈ چوز نہیں کر سکتے ، جو حصہ آپ کو پسند آیا آپ نے اس پر عمل کیا، جو پسند نہیں آیا اس پر عمل نہیں کیا۔جسٹس عقیل عباسی نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست نہ سن لیں؟ آپ نے فیصلے پر عمل نہیں کیا، آپ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست زیر التوا ہے ، اگر آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی چلائی جائے تو آپ نظرثانی مانگیں گے ؟وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر نے کہا کہ ہم نے عدالتی فیصلے پر عمل کر دیا ہے ۔جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ نے فیصلے پر عمل نہیں کیا، ایسی بات نہ کریں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیس کو چھوڑیں، یہ آپ سپریم کورٹ کو کہاں لے جا رہے ہیں؟ کل کسی کو پھانسی کی سزا دیں، تو کیا وہ کہے گا بس سر تک پھندا ڈال کر چھوڑ دیا؟جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ کی پٹیشن پڑھی، اس کے قابل سماعت ہونے پر میرا سوال ہے ۔جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست اٹھالیں تو کیا آپ اس کیس میں دلائل دے سکیں گے ؟بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے نظر ثانی درخواستیں سماعت کے لیے باضابطہ منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے ۔جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے منظوری کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیا۔11 ججز نے اکثریت سے فریقین کو نوٹس جاری کیے ۔ عدالت نے کیس کی سماعت (آج) بدھ تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کی درخواست بھی اس کیس کے ساتھ ہی سنی جائے گی۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 3 ججز کا تبادلہ درست قرار،ججوں کی درخواستیں مسترد،جسٹس نعیم اور جسٹس شکیل کا اختلافی نوٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا، عدالت نے ریمارکس دیے کہ ججز کا تبادلہ غیر آئینی نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ججز سنیارٹی اور تبادلوں سے متعلق کیس کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی جانب سے دائر کردہ درخواستیں مسترد کر دیں، عدالت نے 2-3 کی اکثریت سے کیس کا فیصلہ سنایا۔ جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس صلاح الدین نے اکثریتی فیصلے سے اتفاق کیا جبکہ جسٹس نعیم اختر اور جسٹس شکیل احمد نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ ججز کا
تبادلہ غیر آئینی نہیں، تبادلے کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار نہیں دے رہے، صدر مملکت سنیارٹی کے معاملے کو جتنی جلد ممکن ہو طے کریں، جب تک صدر مملکت سنیارٹی طے نہیں کرتے، قائم مقام چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر ہی امور سرانجام دیتے رہیں گے، عدالت نے ججز کی سنیارٹی کا معاملہ صدر پاکستان کو واپس ریمانڈ کر دیا۔ قبل ازیں جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ ججز ٹرانسفر کیس سے متعلق عدالت عظمیٰ کے اکثریتی فیصلے پر 2 ججز نے اختلافی نوٹ جاری کر دیا۔ جسٹس نعیم اختر اور جسٹس شکیل احمد کی جانب سے اختلافی نوٹ دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کا تبادلہ بدنیتی پر مبنی تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے، ٹرانسفر کے معاملے پر صدر مملکت نے آئینی خلاف ورزی کی۔ انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان تبادلہ ہو کر آئے ججز کو مستقل طور ہائیکورٹ کا جج بنانے کی اجازت نہیں دیتا، تبادلہ ہو کر آئے ججز کے لئے کوئی وقت مقرر کرنا ہوتا ہے۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ ججز کا تبادلہ جلد بازی میں کیا گیا اور وجوہات بھی نہیں دی گئیں، اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کا تبادلہ بدنیتی پر مبنی تھا۔ واضح رہے کہ جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس محمد آصف اور جسٹس خادم حسین سومرو کا اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر ہوا تھا، 3 ججز کے ٹرانسفر کیخلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججوں نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی تھی۔ ٹرانسفر اور سنیارٹی کیخلاف جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا، عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے والے 5 ہائی کورٹ ججز میں جسٹس سردار اعجاز اسحاق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیخلاف بانی پی ٹی آئی عمران خان اور کراچی بار نے بھی درخواستیں دائر کی تھیں۔