سرینگر(ڈیلی پاکستان آن لائن )مقبوضہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھانے میں کامیاب ہوگیا۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق بھارتی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمر عبد اللہ کا کہنا تھاکہ پاک بھارت جنگ کی وجہ سے بہت سی چیزیں بدل چکی ہیں لیکن اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ پاکستان کا مسئلہ کشمیرکوعالمی سطح پر اٹھانے کا منصوبہ ہے۔عمرعبداللہ کا کہنا تھاکہ بھارت کے پاکستان پر حملے سے پہلگام واقعے کے متاثرین کو انصاف نہیں ملا تاہم پاکستان کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھانے میں کامیاب ہوگیا۔ٍ
انہوں نے کہا کہ جنگ کی وجہ سے اس مقام پر آکھڑے ہیں جس کی بعد میں ہمیں توقع نہیں تھی، امریکہ مسئلہ کشمیر میں دلچسپی لے رہا ہے کہ وہ نگران یا ثالثی کا کردار کرے۔یاد رہے کہ 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام کے سیاحتی مرکز پر فائرنگ کر کے 26 افراد کو قتل کر دیا گیا، پاکستان نے پہلگام واقعے کی نہ صرف فوری طور پر مذمت کی بلکہ بھارت کو معاملے کی شفاف تحقیقات میں ہر قسم کے تعاون کی پیشکش بھی کی۔
تاہم ہندوتوا پالیسی پر گامزن بھارت کی ہندو انتہا پسند حکمران جماعت بی جے پی نے واقعے کے چند منٹ بعد ہی بغیر شواہد کے پاکستان پر الزام لگا دیا اور سیاسی مقاصد کے لیے پہگام فالس فلیگ آپریشن کو جواز بنا کر پاکستان نے عالمی بینک کی ثالثی میں ہونے والا دریاو¿ں کے پانی کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا۔پاکستان کی جانب سے دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہد ختم نہیں کر سکتا، اگر بھارت نے پاکستانی دریاو¿ں کے پانی کا بہاوروکا یا اس کا رخ موڑا تو اسے جنگ تصور کیا جائے گا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھاکہ پانی ہماری لائف لائن ہے، اگر بھارت نے پاکستان کے پانی پر ڈیم بنائے تو اس سٹرکچر کو تباہ کر دیں گے۔
پاکستان کے واضح پیغامات کے باوجود بھارت باز نہ آیا اور 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب آزاد کشمیر اور پاکستان کے 5 مقامات پر بمباری کی جس کا پاکستانی افواج نے بھرپور جواب دیتے ہوئے دشمن کے 3 رافیل سمیت 5 طیارے تباہ کر دیے۔بھارت نے 8 مئی کو پھر پاکستان کے متعدد شہروں میں اسرائیلی ساختہ ہیروپ ڈرون بھیجے، ان ڈرونز کی مدد سے راولپنڈی میں جاری پی ایس ایل کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، 9 اور 10 مئی کی رات بھارت نے ایک مرتبہ پھر پاکستانی فورسز کی طاقت کا امتحان لینے کی کوشش کی جس پر پاکستان نے بھارت کو ایسا منہ توڑ جواب دیا جسے بھارت طویل عرصے تک یاد رکھے گا۔پاکستانی شاہینوں نے جے ایف 17 تھنڈر اور جے 10 سی طیاروں کی مدد سے بھارت کے فضائی دفاعی نظام ایس 400 سمیت کئی ائیر فیلڈز اور چیک پوسٹوں کو تباہ کر دیا۔
پاکستانی فورسز کے تابڑ توڑ حملوں کے سامنے بے بس ہو کر بھارت نے امریکہ سے سیز فائر کی درخواست کی جس کے بعد مختلف ممالک کی کوششوں سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا جس کی تصدیق امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر کی۔بعد ازاں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اور ٹوئٹ کی جس میں انہوں نے لکھا کہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ ملکر کام کروں گا اور دیکھوں گا کہ دونوں ممالک کے درمیان طویل عرصے سے جاری مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے۔

ساری قوم ایک اور نیک ہو کر وطن کے دفاع میں کھڑی ہے: شیخ رشید

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: عالمی سطح پر اٹھانے مسئلہ کشمیر پاکستان کے بھارت نے کا کہنا

پڑھیں:

ٹرمپ کا ثالثی کا دعویٰ: بھارت امریکہ کے درمیان تناؤ کا باعث

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جون 2025ء) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ مئی کے تنازعہ کے دوران انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان فائر بندی کے لیے ذاتی طور پر ثالثی کی تھی، اب نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان نئے سفارتی تنازعے کا سبب بن گیا ہے۔

بھارتی خارجہ سکریٹری وکرم مصری نے حال ہی میں کہا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹرمپ کو ایک ٹیلی فون کال میں بتایا کہ فائر بندی بھارت اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے حاصل کی گئی تھی نہ کہ امریکی ثالثی کے ذریعے۔

مصری نے کہا، "وزیر اعظم مودی نے صدر ٹرمپ سے واضح طور پر کہا کہ اس دوران بھارت امریکہ تجارتی معاہدے یا بھارت اور پاکستان کے درمیان امریکی ثالثی جیسے موضوعات پر کسی بھی مرحلے پر کوئی بات نہیں ہوئی۔

(جاری ہے)

"

مصری نے مزید کہا، "وزیر اعظم مودی نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت نے ماضی میں ثالثی کو قبول نہیں کیا ہے اور نہ کبھی کرے گا۔

"

وائٹ ہاؤس نے اس فون کال کے بارے میں الگ سے کوئی بیان جاری نہیں کیا تھا، تاہم صدر ٹرمپ نے اس کے بعد بھی اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان کی کوشش کے سبب ہی فائر بندی عمل میں آئی۔

مودی اور ٹرمپ کے درمیان کینیڈا میں گروپ آف سیون (جی سیون) کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات ہونی تھی، لیکن مشرق وسطیٰ کی صورتحال کی وجہ سے امریکی صدر وہاں سے روانہ ہو گئے اور دونوں رہنماؤں کی ملاقات نہیں ہو پائی۔

اگرچہ مودی اور ٹرمپ کے درمیان ذاتی تعلقات ہیں، لیکن ایک خیال یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملات میں ٹرمپ کی غیر متوقع اور لین دین کی روش تعلقات کو کشیدہ کر سکتی ہے۔

صدر ٹرمپ اور پاکستانی فیلڈ مارشل عاصم منیر میں کیا باتیں ہوئیں؟

بھارت فی الحال امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے، لیکن بات چیت میں رکاوٹوں کا سامنا ہے کیونکہ اضافی محصولات کے لیے امریکی تجارتی شراکت داروں کو جو نوے دن کی مہلت دی گئی تھی، وہ نو جولائی کو خاتمے کے قریب آ رہی ہے۔

پاکستان میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر اجے بساریہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارت نے اب تک ٹرمپ کو اسٹریٹجک کمپوزیشن کے ساتھ ہینڈل کیا ہے۔

بساریہ نے کہا، "لیکن، جب امریکی صدر بار بار اور عوامی طور پر پاکستان اور بھارت کے حالیہ تنازعہ میں ثالثی کے لیے ایک بڑے کردار کا دعویٰ کرتے ہیں، تو بھارت سے عوامی دباؤ کی توقع رکھیں۔

"

بساریہ نے مزید کہا، "بھارت میں رائے عامہ اب امریکہ کو ایک ناقابل اعتماد پارٹنر کے طور پر دیکھتی ہے۔"

نئے معمول کا چلن

اگرچہ دہلی سمجھتا ہے کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات وائٹ ہاؤس کے اعلانات سے زیادہ گہرے ہیں، بساریہ نے کہا، بھارتی حکام عوامی سفارت کاری کے چیلنجوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔

بساریہ نے کہا، "جب بھی واشنگٹن پاکستان کی فوج کو شامل کرتا ہے، جیسا کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ حالیہ لنچ کیا، تو یہ غلط اشارہ دیتا ہے۔

"

پاکستانی آرمی چیف سے متعلق کانگریس کے بیان پر بی جے پی برہم

نئی دہلی نے 22 اپریل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں شہریوں پر حملے کے بعد پاکستان پر سرحد پار سے "دہشت گردی کی حمایت" کا الزام لگایا، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اس حملے کی ذمہ داری کشمیر ریزسٹنس کہنے والے ایک گروپ نے قبول کی تھی، جسے بھارت کا کہنا ہے کہ مزاحمتی محاذ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور اس کا تعلق اقوام متحدہ کی طرف سے نامزد دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) سے ہے۔

نئی دہلی نے اسلام آباد پر حملے کی پشت پناہی کا الزام لگایا، جبکہ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے۔

مسئلہ کشمیر دو ملکوں کا نہیں بلکہ عالمی تنازع ہے، بلاول بھٹو

امریکی ثالثی پر متضاد خیالات

ٹرمپ اور منیر کے درمیان لنچ پر ملاقات، جو گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس میں ہوئی، ایک انوکھا واقعہ تھا کیونکہ یہ پہلا موقع تھا جب کسی موجودہ امریکی صدر نے باضابطہ طور پر پاکستانی آرمی چیف کی میزبانی کی ہو، جو کہ سربراہ مملکت کے طور پر بھی خدمات انجام نہیں دے رہے تھے۔

بہت سے لوگوں نے حالیہ کشیدگی کو دیکھتے ہوئے اسے اشتعال انگیز قرار دیا۔ بساریہ نے کہا، "امریکہ کے لیے بھارت کا سفارتی پیغام واضح رہے گا: ان پر پابندی لگائیں، پاکستان کے جرنیلوں کو گلے نہ لگائیں۔"

البتہ میرا شنکر جو امریکہ میں سابق بھارتی سفیر رہ چکی ہیں، کا موقف مختلف ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹرمپ کے حالیہ پاک بھارت تنازعے کو ختم کرانے کے دعووں کی تردید کرنا شاید کسی حد تک بے ڈھنگی بات ہے، کیونکہ بھارت مکمل طور پر تنازعہ چاہتا ہی نہیں تھا۔

"

انہوں نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو پیچھے ہٹنے پر آمادہ کرنے میں مدد کی ہو۔

کینیڈا میں جی سیون سمٹ میں بھارت چھ برسوں میں پہلی بار مدعو نہیں

میرا شنکر کا کہنا تھا، "بھارتی حکومت کو غیر ملکی مداخلت کی اجازت دینے پر گھریلو سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اور مجھے لگتا ہے کہ یہ تردید اسی کا جواب دینے کے لیے ہو رہی ہے۔

"

انہوں نے کہا، "امریکہ میں عاصم منیر کی دعوت کو ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی فوجی حملوں کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ امکان ہے کہ امریکہ اس تناظر میں پاکستان سے کچھ سہولیات مانگ رہا تھا۔"

بھارت امریکہ تعلقات کا سفارتی امتحان

میرا شنکر نے کہا کہ اس بات پر تشویش پائی جاتی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی غلطیوں کی وجہ سے بھارت امریکہ اسٹریٹجک پارٹنرشپ دباؤ میں آ سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا، "ایک دوسرے کے خدشات کے بارے میں حساسیت ظاہر کرنے اور مواصلات کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔"

امریکہ ہند بحرالکاہل کے علاقے میں چین کے عروج کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کو تنہا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بھارت رواں برس ستمبر میں ہی کواڈ سمٹ کی میزبانی کرنے والا ہے، جس میں ٹرمپ کی شرکت بھی متوقع ہے۔

پاک، بھارت کشیدگی: پاکستانی اعلیٰ اختیاراتی وفد غیرملکی دورے پر

کواڈ گروپ امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت پر مشتمل ہے اور دعویٰ ہے کہ یہ ہند-بحرالکاہل کے خطے میں استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے، خاص طور پر چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کے جواب میں۔

آخری بار بھارتی اور امریکی رہنماؤں کی ملاقات فروری میں ٹرمپ کے دوسری صدارتی مدت کے لیے حلف لینے کے بعد ہوئی تھی، جس میں دونوں افراد نے اپنے تعلقات کو اہمیت دی تھی۔

نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ڈین امیتابھ مٹو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حالیہ پیش رفت نے تعلقات میں تناؤ اور بداعتمادی کو متعارف کرایا ہے۔

مٹو نے کہا، "امریکہ نے قلیل مدتی اور معاہدوں پر مبنی ڈپلومیسی کی پیروی کی ہے، اور اس لین دین کے طریقہ کار نے باہمی اعتماد کو مجروح کیا ہے اور غیر متوقع کے احساس کو فروغ دیا ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "اس سے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بھارت کے تعلقات کے بارے میں تشویش پیدا ہوتی ہے ۔۔۔۔ لیکن شراکت داری چیلنجوں پر قابو پا سکتی ہے اور ایک بہتر، پائیدار مستقبل کی تشکیل کر سکتی ہے - اور تجدید کا ایک موقع بھی پیش کر سکتی ہے۔"

ص ز/ ج ا (مرلی کرشنن)

متعلقہ مضامین

  • کشمیر اورجعفر ایکسپریس حملوں کے پس پشت عناصر کو عالمی سطح پر جوابدہ بنایا جائے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • نیشنز کپ والی بال ٹورنامنٹ: سلور میڈل جیتنے والی پاکستانی ٹیم جمعے کو وطن پہنچے گی
  • ہنزہ کی عطا آباد جھیل میں طغیانی، پانی نجی ہوٹل کے احاطے میں داخل، راستہ کٹ گیا
  • جموں و کشمیر کا وجود ختم کرنے کی سازشیں آج بھی جاری ہیں، فاروق عبداللہ
  • جموں و کشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی عوام کا حق ہے، عمر عبداللہ
  • مسئلہ کشمیر پر صدر ٹرمپ کی ثالثی!
  • رتلے اور کشن گنگا منصوبوں پر پاکستان نے کارروائی روکنے کی بھارتی درخواست مسترد کردی
  • عالمی امن انڈیکس 2025: بھارت کی کشمیر میں عسکری جارحیت ایٹمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے
  • ٹرمپ کا ثالثی کا دعویٰ: بھارت امریکہ کے درمیان تناؤ کا باعث
  • ایران کے بعد امریکہ اور اسرائیل کا اگلا ہدف عرب ممالک ہیں، فاروق عبداللہ