صف اول کے عالمی مالیاتی جریدے نے اقتصادی میدان میں پاکستان کی کارکردگی کو ’ کرشمہ‘ قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
صف اول کے عالمی مالیاتی جریدے نے اقتصادی میدان میں پاکستان کی کارکردگی کو ’معاشی کرشمہ‘ قرار دے دیا۔
رپورٹ کے مطابق معروف اخبار وال اسٹریٹ جنرل کی سسٹر آرگنائزیشن بیرن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پاکستان کی طرف توجہ نہ دی تو شاید سرمایہ کار بعد میں پھچتائیں، 25 کروڑ 50 لاکھ آبادی والا یہ ملک گزشتہ دو سال میں معاشی کرشمہ کر چکا ہے۔
بیرن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ سالانہ 40 فیصد مہنگائی، اب تقریباً صفر ہو چکی ہے، 2031 میں میچور ہونے والے پاکستانی یوروبانڈز کی قیمت 40 سینٹ فی ڈالر سے بڑھ کر 80 سینٹ ہو گئی ہے، کراچی اسٹاک ایکسچینج انڈیکس تین گنا ہو چکا ہے۔
بیرن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ شہباز شریف حکومت نے ستمبر میں آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کے استحکام کے معاہدے پر دستخط کیے، 2 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم پاکستان کو جاری کی جا چکی ہے۔
سینڈ گلاس کیپیٹل مینجمنٹ کے سرمایہ کاری کے شعبے کے سربراہ جینا لوزوسکی نے تبصرہ کیا کہ ”Pakistan is a good story“۔
معاشی ماہر خالد سلامی نے کہا کہ بھارت سے تنازع پاکستان کی معاشی بحالی متاثر نہیں کرے گا، ملک کی اپنی کمزور بنیادیں معاشی بحالی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔
بیرن رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کا حالیہ استحکام 2022-23 کے قریب دیوالیہ ہونے کے تجربے سے شروع ہوا۔
والٹن کیپیٹل مینجمنٹ کی چیف انویسٹمنٹ آفیسر ایلسن گراہم نے تجزیہ کیا کہ سب کا خیال تھا کہ سری لنکا کی طرح پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سود کی شرح 10 فیصد سے بڑھا کر 22 فیصد کر دی، جس سے ملک کساد بازاری میں تو چلا گیا، لیکن مہنگائی پر قابو پا لیا گیا۔
ایلسن گراہم نے کہا کہ مجموعی قومی پیداوار کی شرح گزشتہ سال 2.
انہوں نے کہا کہ حکومت کو ٹیکس کی آمدنی میں پچاس فیصد اضافہ کرنا ہے، بجلی کی سبسڈی کم کرنی ہے، اور دیگر مشکل فیصلے لینے ہیں۔
بیرن نے کہا کہ حالات نے شہباز شریف اور ان کے فوجی اتحادیوں کو معاشیات اور زندگی کا بہترین محرک فراہم کیا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رپورٹ میں کہا پاکستان کی نے کہا کہ
پڑھیں:
عالمی ادارہ صحت، پاکستان میں غذائی قلت کے شکار 80 ہزار بچوں کو علاج میں مدد دیگا
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اعلان کیا ہے کہ وہ رواں سال پاکستان میں 5 سال سے کم عمر کے انتہائی شدید غذائی قلت کے شکار 80 ہزار بچوں کے علاج میں مدد فراہم کرے گا، جبکہ ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد ماؤں اور آیاؤں کو بچوں کی صحت سے متعلق مشاورت فراہم کی جائے گی۔
یہ اقدامات بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے اشتراک سے کیے جا رہے ہیں۔ ادارے کے تعاون سے 2 سال سے کم عمر کے 43 ہزار بچوں کو ملک بھر میں قائم 169 غذائیت مراکز میں علاج کی سہولت مہیا کی جا رہی ہے۔ دونوں اداروں نے حالیہ ملاقات میں ان خدمات کو مزید وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
بی آئی ایس پی کی چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد اور پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کے نمائندہ ڈاکٹر ڈاپنگ لو کی ملاقات اسلام آباد کے گورنمنٹ پولی کلینک میں ہوئی، جہاں انہوں نے مستقبل کے لائحہ عمل پر بات کی۔
مزید پڑھیں: بلوچستان دوران زچگی خواتین کے انتقال کی شرح سب زیادہ، 30 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار
سینیٹر روبینہ خالد کا کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے غذائیت کی فراہمی کے پروگرام کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے عوامی آگاہی کی مہمات چلائی جائیں گی اور بچوں کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے مشاورتی نظام کو بہتر بنایا جائے گا۔
98 فیصد بچوں کا کامیاب علاج، عالمی معیار سے بہترڈبلیو ایچ او کے مطابق، 2022 سے اب تک 46 ہزار بچوں کا کامیاب علاج کیا گیا، جبکہ 64 ہزار ماؤں اور آیاؤں کو تربیت اور مشاورت فراہم کی گئی۔ غذائیت کے مراکز پر 98 فیصد بچوں کا علاج کامیاب رہا، جو عالمی معیار یعنی 75 فیصد سے کہیں بہتر شرح ہے۔
ڈاکٹر ڈا پنگ لو کے مطابق یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں غذائی مداخلتیں مؤثر ثابت ہو رہی ہیں، لیکن ایک بھی زندگی غذائی قلت کی وجہ سے ضائع نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ڈبلیو ایچ او، بی آئی ایس پی کے ساتھ شراکت داری کو مزید وسعت دینے کا خواہاں ہے تاکہ ہر متاثرہ بچے تک رسائی حاصل کی جا سکے، خاص طور پر ایسے حالات میں جب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے غذائی مسائل مزید گمبھیر ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: گوادر میں حالات کشیدہ، کاروباری مراکز بند ہونے سے غذائی قلت کا سامنا
غذائیت کی کمی: قومی معیشت کو سالانہ 17 ارب ڈالر کا نقصانڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان 10 بدترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں 5 سال سے کم عمر نصف سے زائد بچے یا تو بڑھوتری میں رکاوٹ کا شکار ہیں یا کم وزن رکھتے ہیں۔ اس وقت ملک میں اس عمر کے بچوں میں عدم بڑھوتری کی شرح 40 فیصد جبکہ کم وزنی یا کمزوری کی شرح 17.7 فیصد ہے۔
ادارے نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس مسئلے پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو پاکستان کو نہ صرف 2030 کے پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول میں مشکلات پیش آئیں گی بلکہ ہر سال 17 ارب ڈالر کا معاشی نقصان بھی ہوگا، جو مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 6.4 فیصد بنتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او، یونیسف اور عالمی ادارہ خوراک (WFP) کے ساتھ مل کر بچوں میں غذائی کمی کی بروقت نشاندہی، روک تھام اور علاج پر کام کر رہا ہے، تاکہ مستقبل کی نسل کو محفوظ اور صحتمند بنایا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں