اسرائیل کا اصفہان میں جوہری تنصیب پر حملہ، قدس فورس کے سربراہ سعید یزد کو نشانہ بنانے کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسرائیل نے اصفہان میں واقع ایک حساس جوہری تنصیب کو اپنے حالیہ فضائی حملوں میں نشانہ بنایا ہے، تاہم ایرانی حکام نے اس حملے کے نتیجے میں کسی قسم کے تابکار مواد کے اخراج یا جانی نقصان کی تردید کی ہے۔
اصفہان کے نائب گورنر نے میڈیا کو بتایا کہ اسرائیلی حملوں میں صوبے کے مختلف شہرلنجان، مبارکہ، شہریزہ اور مرکزی شہر اصفہان نشانہ بنے، جن میں جوہری تنصیبات کے گرد و نواح بھی شامل ہیں۔
سرکاری خبر رساں ادارے فارس کے مطابق نائب گورنر نے کہا کہ اگرچہ جوہری مقام کو نشانہ بنایا گیا، لیکن خوش قسمتی سے کوئی خطرناک اخراج نہیں ہوا، اور نہ ہی کوئی جانی نقصان رپورٹ ہوا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران پر حالیہ اسرائیلی حملے میں پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ سعید یزد مارے گئے ہیں۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ اسرائیلی افواج نے ایران میں ایک مخصوص رہائشی اپارٹمنٹ کو نشانہ بنایا، جس میں سعید یزد موجود تھے اور اسی حملے میں ہلاک ہوئے۔ یسرائیل کاٹز کے مطابق یہ کارروائی ایران کے خلاف جاری فوجی مہم کا اہم حصہ ہے۔
دوسری جانب ایرانی حکام کی طرف سے اس دعوے کی نہ تو تصدیق کی گئی ہے اور نہ ہی تردید سامنے آئی ہے۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق تہران نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا۔
ایرانی حکام کے مطابق اسرائیل سے تعلقات کے شبہے میں 12 جون سے اب تک 22 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی کے تناظر میں دونوں ممالک ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کر رہے ہیں اور اطلاعات کی جنگ نے بھی شدت اختیار کر لی ہے۔ اس تمام صورتحال میں عالمی مبصرین کی نظریں ایران کے آئندہ ردعمل پر مرکوز ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے مطابق
پڑھیں:
مودی کیلیے نئی مشکل؛ ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چُھوٹ واپس لے لی
امریکا نے ایرانی چابہار بندرگاہ پر عائد پابندیوں سے بھارت کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا جس سے براہِ راست بھارت کے منصوبوں اور سرمایہ کاری پر اثر پڑ سکتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی بندرگاہ چابہار، جسے خطے میں تجارتی روابط اور جغرافیائی حکمتِ عملی کے اعتبار سے کلیدی حیثیت حاصل ہے، ایک بار پھر غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہو گئی۔
بھارت نے 2016 میں ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے چابہار بندرگاہ کی ترقی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کی تھی۔
چابہار کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک بھارت کی رسائی کے لیے ٹریڈ کوریڈور کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاکہ پاکستان کے راستے پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
بھارت نے اب تک بندرگاہ اور ریل لنک کے منصوبے پر اربوں ڈالر لگائے ہیں جو پابندیوں پر استثنیٰ ختم ہونے کے باعث متاثر ہوسکتے ہیں۔
چابہار کو بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کے لیے متبادل راستہ سمجھا جاتا تھا۔ پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر چابہار میں پیش رفت رک گئی تو بھارت کو وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے دوبارہ پاکستان کے راستے یا دیگر مہنگے ذرائع اختیار کرنا پڑ سکتے ہیں۔
ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ پابندیوں کے بعد بھارتی کمپنیاں مالیاتی لین دین اور سامان کی ترسیل کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہوں گی۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت ممکنہ طور پر یورپی یونین یا روس کے ساتھ سہ فریقی تعاون کے ذریعے اس منصوبے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔
امریکا نے ماضی میں اس منصوبے کو افغانستان کی تعمیرِ نو اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری قرار دے کر ایران پر عائد بعض پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا تھا۔
تاہم اب امریکا نے اعلان کیا ہے کہ ایران پر سخت اقتصادی دباؤ برقرار رکھنے کے لیے چابہار منصوبے کا استثنیٰ ختم کیا جا رہا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی موجودہ پالیسیوں، خاص طور پر روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے کردار کے باعث نرمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
ایرانی وزارتِ خارجہ نے امریکی اقدام کو "غیر قانونی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ چابہار ایک علاقائی ترقیاتی منصوبہ ہے جسے سیاسی دباؤ کی نذر کرنا خطے کے استحکام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
ایران نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے متبادل حکمتِ عملی اپنائے گا۔
تاحال بھارت کی جانب سے امریکی اقدام پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔