مقدار کی بجائے معیار، اسرائیل کیخلاف ایران کی میزائل پالیسی میں تبدیلی
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
ایرانی سینئر اہلکار نے سی این این کو بتایا کہ بڑی تعداد میں میزائل داغنے کے بجائے، ایران حساس فوجی اور سیکیورٹی مراکز کے خلاف زیادہ جدید اور درست نشانہ لگانے والے میزائل استعمال کر رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایران نے اسرائیل کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ میزائلوں کے کم ہوتے ہوئے ذخائر نے اسے فائرنگ میں کمی پر مجبور کر دیا ہے، ایرانی سینئر اہلکار نے سی این این کو بتایا کہ ایران نے اپنی میزائل پالیسی تبدیل کر دی ہے، جس میں مقدار کے بجائے معیار پر توجہ دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑی تعداد میں میزائل داغنے کے بجائے، ایران حساس فوجی اور سیکیورٹی مراکز کے خلاف زیادہ جدید اور درست نشانہ لگانے والے میزائل استعمال کر رہا ہے۔ اہلکار نے کہا کہ یہ مشاہدہ کیا گیا کہ ایران نے صرف ایک میزائل فائر کیا اور وہ میزائل آسانی سے امریکی تھاڈ، پیٹریاٹ، ایرو 3، ایرو 2، ڈیوڈ سلنگ اور آئرن ڈوم کے نظاموں کے جال کو چیرتا ہوا پہلے سے طے شدہ ہدف پر جا لگا۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
امریکا ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرتا تب تک مذاکرات نہیں کریں گے: ایران
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل کی مسلسل حمایت اور مشرق وسطیٰ میں فوجی اڈے برقرار رکھنے پر امریکا کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ امریکی کبھی کبھار یہ کہتے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں لیکن جب تک وہ ملعون صیہونی ریاست (اسرائیل) کی حمایت جاری رکھیں گے اور مشرق وسطیٰ میں اپنے فوجی اڈے اور مداخلت ختم نہیں کریں گے اس وقت تک کسی تعاون کی گنجائش نہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی پیشکش کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایران اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا اور ایسے ملک سے تعلقات قائم نہیں کرسکتا جو خطے میں بدامنی اور اسرائیل کی حمایت کا ذمہ دار ہو۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایران پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔
گزشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ جب ایران تیار ہوگا تو امریکا بات چیت اور تعاون کے لیے تیار ہے، ہمارے لیے دوستی اور تعاون کے دروازے کھلے ہیں۔
خیال رہے کہ ایران اور امریکا کے تعلقات 2018 میں ٹرمپ کے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے کے بعد سے مسلسل کشیدہ ہیں۔