اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جون 2025ء) ایران نے اپنی جوہری تنصیبات پر امریکی بمباری کے جواب میں پیر کو رات گئے قطر اور عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے کیے۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق، ایک بیان میں ایران کے اعلیٰ سکیورٹی ادارے نے کہا کہ اس کی مسلح افواج نے اتنے ہی بم استعمال کیے جو امریکہ نے اس کی جوہری تنصیبات پر حملے میں استعمال کیے تھے۔

کیا اردن اور سعودی عرب اسرائیل کا دفاع کر رہے ہیں؟

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران نے عراق اور قطر میں امریکی اڈوں کے خلاف اپنے میزائل آپریشن کو ’فتح کا اعلان' قرار دیا ہے اور کہا کہ اس نے قطر میں العدید امریکی ایئربیس پر ’’تباہ کن اور طاقتور‘‘ میزائل حملہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

ایران نے مغربی عراق میں امریکی فوجیوں کی رہائش گاہ عین الاسد اڈے کو بھی نشانہ بنایا۔

امریکی ایئر بیس پر حملہ محض ’علامتی‘

کنگز کالج لندن کی عسکری تجزیہ کار، مرینا میرون نے کہا کہ قطر میں امریکی العدید ایئر بیس پر ایران کا حملہ ’’علامتی‘‘ تھا۔ اس حملے میں کوئی امریکی یا قطری جانی نقصان نہیں ہوا۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے، انہوں نے اس خبر کی طرف اشارہ کیا کہ قطری حکام کو حملے کے بارے میں پہلے ہی خبردار کیا گیا تھا۔

ایران پر فضائی حملے: امریکہ کی کوئی مدد نہیں کی، پاکستان

میرون نے کہا کہ اڈے پر حملے کو ’’ایران کی فتح کے طور پر پیش کیا گیا، جس سے اس کو اپنی امیج بچانے میں مدد ملی۔‘‘

انہوں نے کہا، ’’یہ شاید ایک ایسا حملہ تھا، جو کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش تھی،‘‘ انہوں نے کہا لیکن یہ اس بات پر منحصر ہے کہ دوسرے فریق کیا ردعمل کرتے ہیں۔

میرون نے کہا کہ قطر کے کہنے کے باوجود کہ وہ جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے اس کی جانب سے ’’ایرانی اہداف کے خلاف فوجی جواب دینے کے امکانات کم ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں قطری حکام کو اس بات کا احساس ہے کہ معاملہ آگے بڑھانے سے مشرق وسطیٰ میں ایک حقیقی جنگ شروع ہو سکتی ہے، اور یہ وہ چیز ہے جو وہ نہیں چاہتے۔

‘‘

العدید ایئر بیس مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ ہے، یہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے فارورڈ ہیڈ کوارٹر کے طور پر کام کرتا ہے، اور تقریباً 10,000 فوجی وہاں موجود ہیں۔

ایرانی حملے کی خلیجی ملکوں کی جانب سے مذمت

سعودی عرب نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’’مکمل طور پر ناقابل قبول فعل ہے جسے کسی بھی حالت میں جائز قرار نہیں دیا جا سکتا‘‘۔

اس نے مزید کہا کہ سعودی عرب اپنے تمام اقدامات میں قطر کی حمایت کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہا ہے۔

ایران اسرائیل تنازع: مودی اور ایرانی صدر میں کیا بات ہوئی؟

قطری وزراتِ خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر لکھا، ’’ہم اسے ریاست قطر کی خودمختاری، اس کی فضائی حدود، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔

‘‘

انھوں نے کہا کہ ’’ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حملے میں کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔‘‘ قطری وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا،"قطر اس جارحیت کی نوعیت اور پیمانے کے حساب سے مساوی انداز میں جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔‘‘

متحدہ عرب امارات نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے اور اس تنازع کے سفارتی حل پر زور دیا۔

اس نے کہا،’’سنجیدہ بات چیت ہی موجودہ بحرانوں پر قابو پانے اور خطے کی سلامتی اور استحکام اور اس کے لوگوں کی حفاظت کا واحد راستہ ہے۔‘‘

بحرین نے ’’تحمل سے کام لینے، کشیدگی سے بچنے اور تنازعات کو پرامن طریقوں سے حل کرنے کے لیے ٹھوس کوششوں پر زور دیا۔‘‘

کویت نے اس حملے کو ’’خطرناک اضافہ‘‘ قرار دیا جس سے امن کو خطرہ ہے۔

عمان نے خبردار کیا ہے کہ یہ خطے میں مزید کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔

صدر ٹرمپ نے کیا کہا؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر میں العدید فضائی اڈے پر ایرانی میزائل حملے کے بعد ٹروتھ سوشل پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ ایک ایرانی میزائل کو ’آزاد‘ چھوڑ دیا گیا تھا کیونکہ اس سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے 14 میزائل فائر کیے تھے جن میں سے 13 کو مار گرایا گیا۔

ٹرمپ کا کہنا تھا، ’’ایران نے اپنے جوہری مراکز کے خاتمے پر انتہائی کمزور ردِ عمل دیا ہے جس کی ہمیں توقع بھی تھی اور ہم نے اسے روک لیا۔‘‘ امریکی صدر کے مطابق ایرانی حملے میں کسی امریکی کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔

ٹرمپ نے اپنے بیان میں مزید کہا،’’میں (حملے کی) پیشگی اطلاع دینے پر ایران کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جس کے سبب نہ ہی کسی جان کا ضیاع ہوا اور نہ کوئی زخمی ہوا۔

شاید اب ایران خطے میں امن اور ہم آہنگی کی طرف بڑھ سکتا ہے اور میں ایسا کرنے کے لیے اسرائیل کی بھی حوصلہ افزائی کروں گا۔‘‘

امریکی صدر نےایک اور پوسٹ میں لکھا،’’یہ اب امن کا وقت ہے۔‘‘

پاکستان کا ردعمل

قطر میں امریکی ایئر بیس پر ایرانی حملے کے بعد پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے امن کی کوششوں کو تیز کرنے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم دہرایا۔

ایران- اسرائیل تنازعہ: پاکستان کے لیے بڑھتے خطرات اور چیلنجز

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں قطر اور سعودی عرب کے سفیروں علی مبارک علی عیسیٰ الخاطر اور نواف بن سعید المالکی سے ٹیلیفون پر بات کی اور امریکی فضائی اڈے پر ایرانی میزائل حملوں کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شہباز شریف نے قطر کے سفیر سے گفتگو کے دوران قطری حکومت اور عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور کشیدگی میں کمی اور خطے میں امن بحال کرنے کی کوششوں پر زور دیا۔

وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک دیگر بیان میں کہا گیا ہے کہ شہباز شریف نے سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی کے ساتھ گفتگو کے دوران کہا کہ ’’پاکستان امن کی کوششوں کو تیز کرنے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔‘‘

ایران کا عراق میں امریکی اڈے پر حملہ

ایک عراقی سیکورٹی اہلکار نے خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ ایران نے مغربی عراق میں امریکی فوجیوں کی رہائش گاہ عین الاسد اڈے کو نشانہ بنایا۔

اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی کیونکہ وہ عوامی طور پر تبصرہ کرنے کے مجاز نہیں تھے۔

رپورٹ کے مطابق یہ اعلان سرکاری ٹیلی ویژن پر مارشل میوزک کے بجتے ہی کیا گیا۔ اسکرین پر ایک کیپشن نے اسے ’’امریکہ کی جارحیت کا ایران کی مسلح افواج کی طرف سے ایک زبردست اور کامیاب جواب‘‘ کہا۔

ادارت: صلاح الدین زین

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عراق میں امریکی قطر میں امریکی شہباز شریف نے سعودی عرب کے انہوں نے کہا امریکی ایئر امریکی فوجی ایئر بیس پر کرنے کے لیے نے کہا کہ ایران کا ایران نے پر ایران حملے میں میں کہا حملے کی اس حملے کے ساتھ اڈے پر

پڑھیں:

ایرانی حملے کا نشانہ بننے والا قطر میں امریکی ایئر بیس العدید سے متعلق اہم معلومات

ایران نے قطر میں ایئر بیس العدید پر میزائل حملہ کیا ہے جس کی امریکا کے لیے اسٹریجک اہمیت اور اس کا کلیدی کردار خصوصی حیثیت کا حامل ہے۔ 

قطر کے دارالحکومت دوحہ کے قریب واقع العدید ایئر بیس مشرق وسطیٰ میں امریکی فضائی آپریشنز کا مرکزی صدر دفتر ہے، جہاں تقریباً 10 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔

العدید ایئر بیس دوحہ کے جنوب مغرب میں واقع ہے اور بعض اوقات اسے "ابو نخله ایئرپورٹ" بھی کہا جاتا ہے۔

یہ فوجی اڈّہ  امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) کی فضائی کارروائیوں کا ہیڈکوارٹر ہے، جو عراق، شام، افغانستان اور دیگر علاقوں میں فوجی مشن کی نگرانی کرتا ہے۔

اس امریکی فوجی اڈّے کی اسٹریٹیجک حیثیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ برطانوی فوجی بھی وقفے وقفے سے اس اڈے پر تعینات رہتے ہیں۔

العدید ایئر بیس کی ایک اور خاص بات یہاں سب سے طویل فضائی لینڈنگ پٹی (رن وے) کا ہونا ہے جو اسے بڑے عسکری طیاروں کے لیے بھی موزوں بناتی ہے۔

یاد رہے کہ قطر نے سنہ 2000 میں امریکہ کو العدید بیس تک رسائی دی تھی جبکہ 2001 میں امریکی فوج نے بیس کا انتظام سنبھالا۔

دسمبر 2002 میں قطر اور امریکا کے درمیان ایک سرکاری معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت اس بیس پر امریکی موجودگی کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔

بعد ازاں 2024 میں CNN نے رپورٹ کیا تھا کہ امریکا اور قطر کے درمیان فوجی موجودگی میں مزید 10 سال کی توسیع کا معاہدہ طے پایا ہے۔

جس کے بعد سے العدید ایئر بیس اس وقت امریکا کی خطے میں فوجی حکمت عملی اور لاجسٹک سپورٹ کا کلیدی مرکز ہے۔

یہ بیس نہ صرف امریکی بلکہ اتحادی افواج کے لیے بھی اہم ہے، اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال میں اس کا کردار مزید بڑھتا جا رہا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • بات چیت ہی ایرانی جوہری مسئلے کے حل کا واحد درست راستہ ہے، چینی میڈیا
  • پاکستان: قطر میں امریکی ایئر بیس پر حملے کی مذمت، کشیدگی میں کمی کی اپیل
  • ایرانی حملے کا نشانہ بننے والا قطر میں امریکی ایئر بیس العدید سے متعلق اہم معلومات
  • قطر میں امریکی ایئر بیس پر ایرانی میزائل حملہ؛ قطر کا ردعمل سامنے آگیا
  • امریکی ایئر بیس پر حملے کے بعد قطر نے فضائی حدود عارضی طور پر بند کر دیں
  • حملہ کرنیوالے امریکی طیارے کہاں ہیں ، پتہ لگا لیا ، پاسداران انقلاب
  • اسرائیل پر ’خیبر شکن‘ میزائلوں کا حملہ، اس تھرڈ جنریشن ہتھیار کی خصوصیات کیا ہیں؟
  • امریکی حملے کے بعد ایران نے اسرائیل پر میزائل حملہ کردیا،آبنائے ہرمز بند کرنے کا اعلان
  • ایران کا تازہ ترین، حملہ بین گورین ایئر پورٹ میں اہداف، فوجی مراکز تباہ کرنے کا دعویٰ