data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہم ہمیشہ اپنے خیر کے کاموں کے لیے اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرتے ہیں۔ توفیق کے معنی ہیں: ’’کسی مقصد ِ خیر کے لیے قدرت کی طرف سے اسباب کو سازگار بنا دینا، موافق بنادینا، رکاوٹوں کو رفع اور دفع کرنا‘‘۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں اللہ تعالیٰ کی توفیقات وعنایات شامل رہیں اور پاکستان کو ہر لحاظ سے اپنے سے کئی گنا دشمن پر برتری نصیب ہوئی۔ یہ ایسی واضح برتری تھی کہ بھارت کے تمام تر مکرو فریب، جھوٹ اور غلط خبروں پر مشتمل پروپیگنڈے کے باوجود دنیا نے پاکستان کی واضح برتری کو تسلیم کیا، خاص طور پر پاکستانی فضائیہ کی برتری بہت واضح اور نمایاں رہی، دنیا اب تک اس کے حقائق کو جاننے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس جنگ کے بارے میں بھارت کے دعووں کو دنیا نے تسلیم نہیں کیا اور جنگ کا غبار تھم جانے کے بعد خود بھارت کے اہلِ فکرونظر اپنی حکومت سے سوال کر رہے ہیں، حقائق سے پردہ اٹھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ناکامی کے اسباب دریافت کر رہے ہیں، مگر بھارتی حکومت کے پاس کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ہے۔
ہماری 78 سالہ تاریخ میں پہلی بار سفارتی میدان میں بھی پاکستان کو واضح برتری نصیب ہوئی، اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ پاکستان کا موقف حق پر مبنی تھا اور دوسرا یہ کہ پاکستان کے دعوے حقیقت پر مبنی یا حقیقت سے قریب تر تھے۔ اس لیے 67 رکنی بھارتی سفارتی وفد کے مقابلے میں امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین میں پاکستان کو زیادہ پذیرائی ملی۔ بھارت کی کوشش تھی کہ پاکستان پر ریاستی دہشت گردی کا الزام لگایا جائے اور اس سلسلے میں امریکا اور مغربی دنیا اس کی ہمنوا ہو، مگر اس میں بھی اُسے شدید ناکامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔
11 جون 2025ء کو مسلّح افواج سے متعلق امریکی سینیٹ کی کمیٹی میں بیان دیتے ہوئے امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل ایرک کوریلا نے کہا: ’’پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم اور قابلِ اعتماد شراکت دار ہے، پاکستان کا انسدادِ دہشت گردی میں مثبت اور فعال کردار عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا: ’’پاکستان کے قریبی انٹیلی جنس تعاون کی بدولت داعش خراسان کے کئی دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا اور پانچ انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے‘‘، نیز کابل میں ایبے گیٹ بم دھماکے کے منصوبہ ساز شریف اللہ عرف جعفر کی گرفتاری اور امریکا کو سپردگی کا بھی انہوں نے حوالہ دیا۔ واضح رہے کہ صدرِ امریکا ٹرمپ نے اپنی صدارت کے سودن مکمل ہونے پر کانگریس سے خطاب میں پاکستان کا اس حوالے سے شکریہ بھی ادا کیا تھا اور پاکستان کو عظیم قوم قرار دیا تھا۔ جنرل کوریلا نے کہا: ’’پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے سب سے پہلے مجھے فون کیا اور کہا: صدرِ امریکا اور وزیر خارجہ کو بتادیں، میں شریف اللہ کو امریکا کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔ جنرل کوریلاسے سینیٹ کی کمیٹی میں سوال ہوا: ’’پاکستان سے قربت کا بھارت سے تعلقات پر اثر تو نہیں پڑے گا‘‘، انہوں نے کہا: ’’ہرگز نہیں، ہم اپنے قومی اور ملکی مفاد میں دونوں سے بہتر تعلقات رکھ سکتے ہیں، یعنی پاکستان کی قیمت پر بھارت سے تعلقات استوار رکھنا ہماری مجبوری نہیں ہے، ہماری اپنی ترجیحات ہیں‘‘۔
پاک بھارت جنگ بندی کے حوالے سے صدرِ امریکا متعدد مرتبہ اس کا کریڈٹ لے چکے ہیں اور پاکستان کی تعریف بھی کرتے رہے ہیں، جبکہ بھارت جنگ بندی میں امریکا کے کردار کی پہلے تو نفی کرتا رہا اور پھر وزیرِ خارجہ نے اعتراف کیا، مگر یہ تسلیم کرنے میں انہیں عار محسوس ہورہی ہے کہ بھارت نے جنگ بندی کے لیے امریکا سے رابطہ کیا تھا۔ اسی طرح 11 جون 2025ء کو امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے پریس بریفنگ کے دوران پاک بھارت کشیدگی اور جنگ بندی کے حوالے سے بات کی، انہوں نے کہا: ’’یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان اور بھارت جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے لیے سنجیدہ اور پرعزم ہیں، انہوں نے صدر ٹرمپ کے اس عزم کو دہرایا کہ وہ پاک بھارت تنازعات خاص طور پر مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے خواہش مند ہیں اور انہیں یقین ہے کہ صدر ٹرمپ دونوں ممالک کے دیرینہ اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرسکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا: ’’امریکا دونوں ممالک کے ساتھ رابطے میں ہے اور خطے میں امن واستحکام کے لیے ذمے دارانہ اقدامات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے‘‘، اُن سے سوال ہوا: ’’صدر ٹرمپ کے ذہن میں اس قضیے کے حل کا فارمولا کیا ہے‘‘، انہوں نے کہا: ’’میں یہ تو نہیں جان سکتی کہ صدر ٹرمپ کے ذہن میں اس حوالے سے کیا فارمولا زیرِ غور ہے، لیکن یہ مجھے معلوم ہے کہ صدر کو دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کے حل اور امن کے قیام میں بے حد دلچسپی ہے اور وہ یہ کارنامہ انجام دے سکتے ہیں‘‘۔ اس طرح کے بیانات سے مودی کے دل پر براہِ راست چوٹ لگتی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ از سرِ نو زندہ ہوگیا ہے اور امریکا پاکستان اور بھارت کو برابر کی سطح پر دیکھ رہا ہے۔ اسے انگریزی میں Blessing in disguise اور فارسی میں: ’’عدوّ شرّے برانگیزد کہ خیرمادراں باشد‘‘ کہتے ہیں، یعنی دشمن نقصان پہنچانے کے لیے کوئی چال چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُسی سے خیر برآمد فرما دیتا ہے، اسی کو ’’توفیقاتِ بے غایات‘‘ کہتے ہیں۔
یہ سب جو سطورِ بالا میں بیان ہوا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسباب کو سازگار بنانے کا نتیجہ ہے، کیونکہ وہی دلوں کو پھیرنے والا ہے، رسول اللہؐ کی دعائے مبارک ہے: ’’اے اللہ! میں تیری رحمت پر یقین رکھتا ہوں، تو مجھے پلک جھپکنے کے برابر بھی میرے نفس کے سپرد نہ فرما، میرے تمام کاموں کو درست فرمادے، تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں‘‘، (سنن ابودائود) فرعون اور اس کی قوم سے مکالمہ کرتے ہوئے قرآنِ کریم نے موسیٰؑ اور فرعون کے احوال کے بیان میں اسی مفہوم پر مشتمل قومِ فرعون کے ایک مردِ مومن کا قول نقل کیا ہے: ’’اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، بے شک اللہ بندوں (کے احوال) کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔ (المومن: 44)
امریکی صدر ٹرمپ اور اُن کے دوست اور معاون ایلون مَسک میں گاڑھی چھنتی تھی، ایلون مَسک نے صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم میں بھاری مالی مدد کی تھی، انتخاب جیتنے کے بعد ٹرمپ نے ایلون مَسک کووائٹ ہائوس میں ’’حکومتی حسنِ کارکردگی کے محکمہ (Department of Govt.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا پاکستان کو اللہ تعالی کہ پاکستان پاک بھارت بھارت جنگ حوالے سے ہیں اور ٹرمپ کے رہے ہیں اور اس کے لیے ہے اور کہ صدر
پڑھیں:
صدر ٹرمپ پاکستان کا دورہ سکتے ہیں،بلاول
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول زرداری نے کہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ صدر ٹرمپ پاکستان کا دورہ کرنے کا فیصلہ کریں، امریکی صدر اگر پاکستان کا دورہ کرتے ہیں تو یہ بڑی کامیابی ہوگی، ممکن ہے وزیراعظم شہباز شریف امریکا کا دورہ کریں۔
انہوں نےاپنےانٹرویو میں کہا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا حالیہ دورہ امریکا بھی پہلے سے طے تھا، ممکن ہے وزیراعظم شہباز شریف امریکا کا دورہ کریں۔
وزیراعظم نے پاک بھارت جنگ کے بعد سفارتی وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا، جس سے پاکستان میں حب الوطنی کی مثال قائم کی گئی، میڈیا نے جنگ کے دوران اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کا کیس مضبوط تھا ہم سچ کے ساتھ کھڑے ہیں، بھارت جھوٹے بیانیے کے ساتھ کھڑا تھا۔
پاکستان چاہتا ہے کہ خطے میں امن ہو، تمام مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔