بیلجیم نے فلسطین کو تسلیم کرنے اور اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کردیا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
بیلجیم کے وزیرِ خارجہ اور نائب وزیرِاعظم میکسم پریوو نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک رواں ماہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرے گا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر منگل کی صبح اپنے بیان میں میکسم پریوو نے کہا کہ بیلجیم اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں فلسطین کو تسلیم کرے گا اور اسرائیلی حکومت کے خلاف سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
وزیرِ خارجہ کے مطابق بیلجیم کی جانب سے اسرائیل پر 12 پابندیاں لگائی جائیں گی، جن میں مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم غیرقانونی اسرائیلی بستیاں سے آنے والی مصنوعات کی درآمد پر پابندی اور اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ سرکاری معاہدوں کا ازسرنو جائزہ شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے پر اسرائیل کا مغربی کنارے کو قبضے میں لینے پر غور
میکسم پریوو نے کہا کہ یہ فیصلہ فلسطین، خصوصاً غزہ میں جاری انسانی المیے کے پیشِ نظر کیا جا رہا ہے، تاہم بیلجیم کی جانب سے فلسطین کو باضابطہ تسلیم کرنے کا عمل اس وقت مکمل ہوگا جب آخری اسرائیلی یرغمالی رہا کر دیا جائے اور حماس کا فلسطین کے انتظامی معاملات میں کوئی کردار باقی نہ رہے۔
بیلجیم کے وزیرِاعظم بارت دے ویور نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کو سخت شرائط سے منسلک ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ جولائی میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا تھا کہ ان کا ملک اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے دوران فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔
مزید پڑھیں: امریکا نے فلسطینی صدر محمود عباس کو اقوام متحدہ کے اہم اجلاس میں شرکت سے روک دیا
یہ اجلاس 22 ستمبر کو ہوگا جس کی مشترکہ میزبانی فرانس اور سعودی عرب کریں گے۔ آسٹریلیا، کینیڈا اور برطانیہ بھی رواں ماہ مشروط طور پر فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
اسرائیل اور امریکا نے ان اقدامات پر شدید تنقید کی ہے، امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے فرانس کے اعلان کو ’غیرذمہ دارانہ فیصلہ‘ قرار دیا جو کہ صرف حماس کی پروپیگنڈا مشین کو تقویت دیتا ہے۔
روبیو نے مزید اعلان کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اقوامِ متحدہ کے اجلاس سے قبل فلسطینی حکام کے ویزے منسوخ کر دے گی۔
مزید پڑھیں: فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے لیے تباہ کن ہوگا، اسرائیلی وزیر خارجہ
اسرائیل کے دائیں بازو کے وزیرِ خزانہ بیزلیل اسموٹریچ نے گزشتہ سال دھمکی دی تھی کہ جو بھی ملک فلسطین کو تسلیم کرے گا، اس کے جواب میں مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک نئی غیرقانونی بستی قائم کی جائے گی۔
اسموٹریچ ان 2 سخت گیر اسرائیلی وزیروں میں شامل ہیں جن پر آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، ناروے اور برطانیہ نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے نمائندہ برائے انسانی حقوق فرانچسکا البانیسی نے ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیل پر ہتھیاروں کی پابندی سمیت ایسے اقدامات کریں جن سے غزہ پر جاری جنگ کا خاتمہ ہو سکے۔
مزید پڑھیں: پوپ لیو کا اسرائیل سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی اور اجتماعی سزا روکنے کا مطالبہ
میکسم پریوو کی جانب سے اعلان کردہ 12 نئی پابندیاں زیادہ تر مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم غیرقانونی اسرائیلی بستیوں سے متعلق ہیں۔
گزشتہ ماہ نیدرلینڈز کے وزیرِ خارجہ کیسپر ویلڈکیمپ نے استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ وہ کابینہ کو اسرائیل کے خلاف مزید مؤثر پابندیاں لگانے پر آمادہ نہیں کر سکے تھے۔
22 اگست کو اقوامِ متحدہ کے تعاون سے کام کرنے والے ایک ادارے نے اعلان کیا تھا کہ شمالی غزہ میں قحط شروع ہو چکا ہے جو ستمبر کے آخر تک وسطی اور جنوبی علاقوں میں بھی پھیلنے کا خدشہ ہے۔
مزید پڑھیں: شاہ چارلس کے سابق مشیر نے برطانیہ کو فلسطینیوں کی نسل کشی میں شریک قرار دیدیا
بیلجیم کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل کی غزہ پر جاری جنگ میں اب تک کم از کم 63,459 فلسطینی شہید اور 160,256 زخمی ہو چکے ہیں۔
جولائی میں بیلجیم کے پروسیکیوٹرز نے 2 اسرائیلی فوجیوں کے خلاف مبینہ جنگی جرائم کی شکایت عالمی فوجداری عدالت میں بھیجی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ بیلجیم جنرل اسمبلی فرانس فلسطین مارکو روبیو میکسم پریوو نائب وزیراعظم وزیر خارجہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ بیلجیم جنرل اسمبلی فلسطین مارکو روبیو میکسم پریوو فلسطین کو تسلیم کو تسلیم کرے گا تسلیم کرنے مزید پڑھیں اعلان کیا متحدہ کے کے اجلاس کے وزیر
پڑھیں:
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا قطر حملے پر اسرائیل کے احتساب کا مطالبہ
جنیوا: اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان سمیت کئی ممالک نے قطر پر اسرائیلی فضائی حملے کے بعد اسرائیل کے کڑے احتساب کا مطالبہ کیا ہے۔
رائٹرز کے مطابق 9 ستمبر کو دوحہ میں اسرائیلی طیاروں نے ان مقامات کو نشانہ بنایا جہاں حماس رہنما غزہ کے لیے امریکی جنگ بندی منصوبے پر غور کر رہے تھے۔ اس حملے میں حماس کے پانچ رہنما اور ایک قطری سیکیورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک نے اس حملے کو بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی اور علاقائی امن پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی ہلاکتوں پر احتساب ضروری ہے۔ قطر اور کئی ممالک نے ان کے مؤقف کی حمایت کی۔
قطری وزیر مریم المیسند نے حملے کو غدارانہ قرار دے کر عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ اسرائیل کو سزا دی جا سکے۔ پاکستانی سفیر بلال احمد نے خبردار کیا کہ یہ حملہ خطے میں خطرناک بگاڑ پیدا کرے گا۔
دوسری جانب اسرائیل اور امریکا نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ جنیوا میں اسرائیلی سفیر نے اس بحث کو انسانی حقوق کونسل کی زیادتیوں کا حصہ قرار دیا اور الزام لگایا کہ یہ فورم اسرائیل مخالف پروپیگنڈے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
یورپی یونین، چین اور جنوبی افریقہ نے بھی اسرائیل کے اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے قطر کی خودمختاری اور علاقائی استحکام کی حمایت کی۔ جنوبی افریقہ کے نمائندے نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کو استثنا دینے کے بجائے اس کا احتساب یقینی بنائے۔