سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات، امیدواروں کے لیے جاری ہدایات میں شامل نکات کونسے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان نے آئندہ انتخابات 2025-26 کے حوالے سے امیدواروں اور ان کے حامیوں کے لیے اہم ہدایات جاری کر دی ہیں۔
جاری کردہ سرکلر کے مطابق، پاکستان لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسل رولز 1976 اور اس میں 2025 میں کی گئی ترامیم کے تحت سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا اور بعض سرگرمیاں سختی سے ممنوع ہوں گی۔
یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن انتخابات، عاصمہ جہانگیر گروپ کو برتری، صدارتی امیدوار رؤف عطا نے میدان مار لیا
ہدایات کے مطابق امیدوار یا ان کے حامیوں کی جانب سے ناشتہ، دوپہر یا رات کے کھانے کی تقاریب کا اہتمام ممنوع ہوگا۔ ان پینا فلیکس بینرز کی نمائش یا آویزاں کرنے کی اجازت نہیں ہوگیہ جن کا سائز قواعد کے مطابق نہ ہو۔
اس کے علاوہ کسی بھی قسم کے تحائف کی تقسیم پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
سرکلر میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کی صورت میں امیدوار کو قانونی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انتخابات سپریم کورٹ بار ضوابط.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انتخابات سپریم کورٹ بار ضوابط سپریم کورٹ بار
پڑھیں:
وقف سیاہ قانون کے ختم ہونے تک قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رہیگی، مولانا ارشد مدنی
جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے کہا کہ یہ نیا وقف قانون ملک کے اس آئین پر براہ راست حملہ ہے جو شہریوں اور اقلیتوں کو نہ صرف برابر کا حق دیتا ہے بلکہ انہیں مکمل مذہبی آزادی بھی فراہم کرتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے وقف (ترمیمی) قانون 2025 کو منسوخ کرنے سے منع کر دیا ہے۔ حالانکہ عدالت نے وقف قانون کی کچھ دفعات پر جزوی ترمیم اور ایک پر مکمل طور سے روک لگا دی ہے۔ اس فیصلے پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے وقف قانون کی 3 اہم متنازعہ دفعات پر ملی عبوری راحت کے فیصلے کا استقبال کیا ہے۔ انہوں نے اپنے فوری ردعمل میں کہا ہے کہ ’’انصاف اب بھی زندہ ہے‘‘۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ کے ذریعہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق اپنا یہ اطمینان ظاہر کیا ہے۔
اس پوسٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند وقف قانون کی 3 اہم متنازعہ دفعات پر ملی عبوری راحت کے فیصلے کا استقبال کرتی ہے۔ اس عبوری راحت نے ہماری اس امید کو یقین میں بدل دیا ہے کہ انصاف اب بھی زندہ ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ جمعیۃ علماء ہند اس سیاہ قانون کے ختم ہونے تک اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھے گی۔ مولانا ارشد مدنی کے مطابق یہ نیا وقف قانون ملک کے اس آئین پر براہ راست حملہ ہے جو شہریوں اور اقلیتوں کو نہ صرف برابر کا حق دیتا ہے بلکہ انہیں مکمل مذہبی آزادی بھی فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھین لینے کی ایک آئین مخالف سازش ہے، اس لئے جمعیۃ علماء ہند نے وقف قانون 2025 کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ اس سیاہ قانون کو ختم کر کے ہمیں مکمل آئینی انصاف فراہم کرے گا۔ قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے آج وقف (ترمیمی) قانون 2025 کی کچھ دفعات پر روک لگا دی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ نے وقف کرنے کے لئے 5 سال تک اسلام پر عمل کرنا لازمی قرار دینے والے التزام پر اس وقت تک روک لگا دی ہے جب تک کہ متعلقہ ضابطہ قائم نہیں ہو جاتا۔ اس کے علاوہ اب کلکٹر کو جائیداد تنازعہ پر فیصلہ لینے کا حق نہیں ہوگا۔ اپنے عبوری فیصلے میں سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ریاستی وقف بورڈ میں 3 سے زائد غیر مسلم رکن نہیں ہونے چاہئیں، جبکہ مرکزی وقف بورڈ میں 4 سے زائد غیر مسلم اراکین نہیں ہوں گے۔