تعصب کی عینک اتار کر دیکھو
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
منشیات کی خوفناک لعنت نے لمحہ موجود میں پوری دنیا خصوصاً پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ خصوصاً نسلِ نو اپنے درخشندہ و تاباں مستقبل سے بے پروا اس لعنت کے زہر کو اپنی رگوں میں اتارنے کے بعد ناسور بن کر اپنے ماں باپ اور اہل خاندان کی زندگیوں کے ساتھ پورے معاشرے کو جہنم بنا رہے ہیں۔
نشے کی لعنت شہروں، دیہاتوں، گلی محلوں سے نکل کر ہمارے تعلیمی اداروں تک پہنچ چکی ہے اور بڑی تعداد میں مستقبل کے معمار نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے حصار میں جکڑ چکی ہے۔ دوستوں میں کوئی ایک نشئی ہو تو باقی دوستوں کے بھی عادی ہونے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔ ابتداء میں پرائیویٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے منشیات فروشی اور استعمال کی کوئی خبر آئی تھی‘ لیکن اب یہ تمیز ختم ہوچکی ہے۔
تعلیمی اداروں کا تعلق پبلک سیکٹر سے ہو یا پرائیویٹ سیکٹر سے، کوئی ادارہ اس لعنت سے محفوظ نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے وفاقی وزیر داخلہ و انسداد منشیات محسن نقوی نے قومی اسمبلی میں اس حوالے سے چند حقائق بتائے تھے۔انھوں نے قومی اسمبلی میں انکشاف ہے کہ "پاکستانی تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کے حوالے سے آخری سروے 12سال پہلے ہوا تھا۔" قومی اسمبلی میں تحریری جواب جمع کرواتے ہوئے انھوں نے بتایا کہا کہ "تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال سے متعلق حکومت کے پاس مستند ڈیٹا موجود نہیں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں منشیات کی فراہمی اور استعمال کے متعلق تازہ معلومات محدود ہیں اور ملک میں منشیات کے استعمال سے متعلق کوئی جامع اور مستند ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔
ملک میں منشیات سے متعلق آخری قومی سروے 2013 میں کیا گیا تھا، تاہم اس سروے میں تعلیمی اداروں کو شامل ہی نہیں کیا گیا تھا"۔ اس انکشاف کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر ایک نیا قومی سروے شروع کیا گیا ہے جو ملک میں منشیات کے استعمال کا مکمل جائزہ لے گا جو 2026 تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔ سروے میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اندر منشیات کے رجحان کا جائزہ بھی شامل ہے، یہ سروے تعلیمی اداروں میں منشیات سے متعلق جامع اور مستند معلومات فراہم کرے گا، جس سے منشیات کی معلومات کو درست انداز میں ترتیب دے کر اس کا سدباب کرنے میں مدد ملے گی۔
قومی اسمبلی میں انھوں نے یہ بھی بتایا کہ "انسداد منشیات فورس (اے این ایف) نے پاکستان بھر کی 263 یونیورسٹیوں میں 269 آپریشنز کیے، جن کے دوران ایک ہزارچارسوستائیس(1427) کلوگرام منشیات ضبط اور 426 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ حکومت تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے، تاہم مؤثر پالیسی سازی کے لیے مستند ڈیٹا ناگزیر ہے۔"
شکر الحمدللہ دیر آید درست آید کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال اور منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوچکا ہے مگر وزیر داخلہ کے اس انکشاف نے ان والدین کو جن کے بچے عصری تعلیم کے اداروں میں زیرتعلیم ہیں کو تشویش میں مبتلا کردیا یہ انکشاف والدین پر آسمانی بجلی گرنے سے کم نہیں کیونکہ جن اداروں میں منشیات کا دھندا اس لیول پر ہو وہاں تو زیر تعلیم ہر طالبعلم کے سر پر منشیات کی لعنت کی تلوار لٹک رہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اب ہمارے تعلیمی ادارے اسکالرز اور پروفیسرز کے سحر اور اثر کی بجائے منشیات فروشوں کے نرغے میں ہیں، جن والدین نے اپنے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول اور ان درسگاہوں سے گریجویٹ، ایم فل اور پی ایچ ڈی اسکالر بننے کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر ہو نے کے لیے بھیجے تھے وہ اب مضطرب ہیں کہ کہیں ان کے جگر گوشوں سے متعلق انکے خواب چکنا چور نہ ہوجائیں۔ خدا نخواستہ منشیات کی لت لگ گئی تو نہ صرف انکے لخت جگر بلکہ پورا خاندان تباہ وبرباد اور پورے معاشرے کے لیے ناسور بن جائے گا اور یہ لعنت ان کی زندگیوں کو تاریک و اندھیر اور ان کی جوانیوں کو کھوکھلا کر دے گا۔
تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی اور منشیات کے استعمال کے واقعات کئی سال سے وقفے وقفے سے منظر عام پر آرہے ہیں۔ مبینہ طور پر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے بعض ملازمین (عورتیں اور مرد) طالب علموں میں منشیات سپلائی کرتے ہیں یا ان اداروں سے ملحقہ بعض علاقوں میں منشیات کے عادی طلباء اور طالبات کو آسانی سے نشہ آور اشیاء دستیاب ہیں۔ یونیورسٹی اور کالج کی سطح پر طالب علموں میں سگریٹ نوشی تو عرصہ دراز سے ہوتی تھی مگر اب چرس، ہیروئین اور آئس جیسے نشہ آور اشیاء کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں ہوشربا تشویشناک اضافہ قومی المیہ ہے۔
ہاسٹلوں میں منشیات کی سپلائی ایک منافع بخش اور مقبول کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ صرف ملازمین ہی اس مکروہ دھندے میں ملوث نہیں، بعض تعلیمی اداروں میں طلباء اور طالبات کے گروہ بھی اپنے عیش و عشرت کے لیے منشیات فروشی کرتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی اور طالب علموں میں منشیات کا کھلم کھلا استعمال نہایت افسوس ناک حقیقت ہے۔ ہیروئن، چرس، شیشہ، کوکین، شراب اور کرسٹل پاؤڈر (آئس) سمیت ہر قسم کا نشہ عام ہے۔ جب تعلیمی اداروں میں حصول علم کے لیے جانے والے طلباء اور طالبات نشے میں دھت دندناتے پھریں گے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ باقی طلباء و طالبات کا سلسلہ درس و تدریس کس قسم کے ماحول میں فروغ پا رہا ہے۔
قانونی اور آئینی طور پر تو انسداد منشیات کے ذمے داران کا فرض ہے کہ وہ ہر خاص و عام کو اس لعنت سے دور رکھیں اور منشیات فروشوں کو نشان عبرت بنائیں مگر تعلیمی اداروں میں تو منشیات فروش ہمارے مستقبل اور معماران ملک و ملت پر حملہ آور ہیں اس کے لیے تو ہنگامی بنیادوں پر خصوصی اور بے رحم فورس کا قیام عمل میں لانا چاہیے جو سختی سے کام لیتے ہوئے طلباء و طالبات کو منشیات کے استعمال سے روکیں، منشیات کے عادی افراد کا علاج کروائیں اور منشیات فروشوں کو تعلیمی اداروں کے اندر برسر عام عبرتناک سزائیں دیں۔
تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کا بھی فرض ہے کہ وہ خصوصی مہم چلا کر منشیات سے پاک ماحول کو یقینی بنائیں۔ بعض تعلیمی اداروں میں انتظامیہ کے نمائندوں اور اساتذہ کی بھی پروا نہیں کی جاتی جب کہ ہاسٹلوں میں باقاعدگی سے منشیات کے استعمال کی محفلیں سجائی جاتی ہیں۔ نشے کے عادی افراد شرم و حیا سے عاری ہوجاتے ہیں تو پھر ہاسٹل وارڈن اور اساتذہ سے حجاب بھی ختم ہوجاتا ہے۔ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ انفرادی سطح کے علاوہ سرکاری اداروں کے تعاون سے مشترکہ طور پر یہ مسئلہ حل اور سائنٹیفک بنیادوں پر منصوبہ بندی کر کے نوجوان طالب علموں کو منشیات کی لعنت سے بچاؤ کا قومی فریضہ انجام دیں۔
حکومت اگر تعلیمی اداروں سے منشیات کا خاتمہ کرنے میں سنجیدہ ہے تو ہمارے معاشرے میں منشیات سمیت ہر جرم سے پاک دینی مدارس کا ماڈل موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جائے۔ کراچی سے خیبر تک ہزاروں دینی مدارس موجود ہیں جن میں لاکھوں طلباء زیر تعلیم ہیں، ان مدارس پر کالج اور یونیورسٹیوں کی طرح حکومت کے اربوں، کھربوں روپے بھی خرچ نہیں ہوتے،گزشتہ 78 برسوں سے یہ مدارس اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہیں، یہاں سے فارغ التحصیل علماء پوری دنیا میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور افعانستان میں مثالی حکومت چلا رہے ہیں، اللہ رب العزت کے فضل و کرم اور قرآن و حدیث کی برکت سے آج تک کسی ایک مدرسے سے منشیات فروشی یا منشیات کے استعمال کی خبر نہیں آئی۔
اگرحکومت عصر ی تعلیم کے اداروں سے اس لعنت کوختم کرنے میں سنجیدہ ہے تو ایک بار مدارس کے نظام کا جائزہ تعصب کی عینک اتار کر لیں اور مدارس کی طرح کردار سازی پر توجہ دینے والا پاکیزہ و معطر نظام تعلیم اپنے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لے آئیں، منشیات ہی نہیں ایسی تمام لعنتوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ مل جائے گا،جو نسل نوکی تباہی کا بن رہے ہیں، لیکن اس کے لیے شرط یہی ہے کہ تعصب کی عینک اتار کر درد دل سے صورتحال کا جائزہ لے کر اقدامات کرنے ہونگے ورنہ عصری علوم کے ادارے منشیات فروشی اور جرائم کے اڈے بن جائیںگے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تعلیمی اداروں میں منشیات میں منشیات کے استعمال منشیات فروشی اور اور یونیورسٹیوں قومی اسمبلی میں منشیات فروشوں طالب علموں اور منشیات منشیات کی سے منشیات اور طالب کیا گیا رہے ہیں
پڑھیں:
کل عام تعطیل کا اعلان
ویب ڈیسک: سندھ حکومت نے کل 24 ستمبر 2025 بروز بدھ صوبے کے 14 اضلاع میں عام تعطیل کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ ان اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی ضمنی انتخابات کے پیش نظر کیا گیا ہے ۔
محکمہ سروسز، جنرل ایڈمنسٹریشن اینڈ کوآرڈینیشن کی جانب سے اس حوالے سے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے، جس کے تحت ان اضلاع میں تمام سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے، نیم سرکاری ادارے اور دیگر متعلقہ دفاتر بند رہیں گے۔
گرین ٹاؤن ؛ سسرالیوں کا خاتون پر تشدد ؛بھوئیں اور سرکے بال مونڈ دیے
عام تعطیل کا اطلاق جن اضلاع پر ہو گا ان میں گھوٹکی، سکھر، خیرپور، میرپورخاص، عمرکوٹ، مٹیاری، حیدرآباد، جامشورو، دادو، بدین، ٹھٹھہ، کراچی ویسٹ، کراچی ایسٹ اور کیماڑی شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے شیڈول کے مطابق مذکورہ اضلاع میں بلدیاتی اداروں کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد 24 ستمبر کو ہو گا۔ ان انتخابات میں مختلف یوسیز، وارڈز اور ٹاؤنز کی سطح پر عوامی نمائندے منتخب کیے جائیں گے۔
بیٹ کی بندوق سے شوٹنگ کیوں کی، صاحب زادہ نے سچ سچ بتا دیا
حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ تعطیل کے اعلان کا مقصد ووٹرز کو بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کا موقع دینا ہے۔ اس دوران امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے متعلقہ اضلاع میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت دی گئی ہے تاکہ انتخابی عمل شفاف اور پرسکون انداز میں مکمل کیا جا سکے۔