Islam Times:
2025-11-18@23:36:08 GMT

ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ، امن کا وعدہ یا اسرائیل کی جیت؟

اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT

ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ، امن کا وعدہ یا اسرائیل کی جیت؟

اسلام ٹائمز: ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ بظاہر امن کی پیشکش ہے مگر حقیقت میں یہ امن کو ایسی شرائط سے مشروط کرتا ہے جو اسرائیل کیلئے فائدہ مند اور فلسطینی و مسلم دنیا کیلئے خطرات لئے ہوئے ہیں، منصوبے کا خالصتاً تکنیکی اور اقتصادی روپ اگر سیاسی نمائندگی اور خودمختاری کے اصولوں کے خلاف نافذ کیا گیا تو یہ امن نہیں بلکہ ایک ایسے ڈھانچے کی بنیاد ہوگا جس میں جیت ہمیشہ طاقتور فریق کی ہوگی۔ تحریر: عرض محمد سنجرانی

ڈونلڈ ٹرمپ کا تازہ بیس نکاتی منصوبہ بظاہر امن، تعمیر نو اور فلسطینی ریاست کے قیام کا وعدہ کرتا ہے لیکن اس کی باریکیاں کھول کر دیکھی جائیں تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ منصوبہ اسرائیل کو مزید سیاسی، عسکری اور اقتصادی فائدہ دیتا ہے اور فلسطینی عوام و مسلم دنیا کیلئے خطرات سے بھرا ہے، اس منصوبے کے اہم نکات ترتیب وار یہ ہیں، غزہ کو دہشت گردی سے پاک اور غیر عسکری خطہ بنایا جائے گا، غزہ کی تعمیر نو اور عوامی مفاد کا وعدہ کیا جائے گا، معاہدہ طے ہوتے ہی جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کی بتدریج واپسی ہوگی، تمام یرغمالی 48 گھنٹوں میں واپس کئے جائیں گے، اس کے بدلے اسرائیل سینکڑوں فلسطینی سکیورٹی قیدی اور لاشیں واپس کرے گا، معافی دینے اور محفوظ راستے فراہم کرنے کی شق شامل ہوگی، روزانہ امداد کا حجم بڑھایا جائے گا اور ملبہ ہٹانے کے آلات داخل ہوں گے، امداد بین الاقوامی اداروں کے ذریعے دی جائے گی، غزہ کی عبوری انتظامیہ فلسطینی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہوگی اور ایک بین الاقوامی ادارہ اس کی نگرانی کرے گا، تعمیر نو کیلئے ماہرین کے ساتھ جدید شہری پلان تیار ہوں گے۔

اقتصادی زون قائم کیا جائے گا اور کم ٹیرف شرائط طے ہوں گی، کسی کو زبردستی نہیں نکالا جائے گا مگر جو جانا چاہے واپس آ سکے گا، حماس کا کوئی حکومتی کردار نہیں ہوگا اور اس کے عسکری ڈھانچے ختم کئے جائیں گے، علاقائی شرکاء امن کی ضمانت فراہم کریں گے، امریکی اور بین الاقوامی پارٹنرز ایک عبوری استحکام فورس تعینات کریں گے اور فلسطینی پولیس کی تربیت کریں گے، اسرائیل غزہ پر قبضہ یا الحاق نہیں کرے گا اور بتدریج علاقے واپس کرے گا، اگر حماس تاخیر کرے یا انکار کرے تو منصوبہ جزوی طور پر نافذ ہوگا، اسرائیل قطر میں دوبارہ حملہ نہیں کرے گا اور دوحہ کے ثالثی کردار کو تسلیم کرے گا، ایک ڈیریڈیکلائزیشن عمل اور بین الاقوامی مکالمہ قائم کیا جائے گا، اور آخر میں فلسطینی ریاست کے قیام کا ممکنہ روڈ میپ اور سیاسی افق قائم کرنے کا وعدہ ہے۔

ان نکات کا گہرا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ منصوبے کے مرکزی ستون حماس کی مسلح حیثیت کا خاتمہ، غزہ کی ڈیریڈیکلائزیشن اور عبوری بین الاقوامی فورس کی تعیناتی ہیں، یہ شقیں بظاہر فلسطینی عوام کیلئے امداد اور بحالی کا وعدہ پیش کرتی ہیں لیکن ان کا نفاذ اس شرط پر ہے کہ فلسطینی یا حماس وہی کارڈ کھیلیں جو منصوبہ بنانے والوں نے مقرر کیا ہے، اس طرح فلسطینی نمائندگی اور خود ارادیت پس منظر میں چلی جاتی ہے اور عبوری ٹیکنوکریٹ انتظامیہ کے ذریعے مقامی سیاسی قوتوں کے بجائے بیرونی کنٹرول کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اسرائیل کیلئے اس منصوبے کے فوائد یہ ہیں کہ جنگی دباؤ کم ہونے پر عالمی دباؤ میں عارضی کمی آئے گی، حماس کی عسکری طاقت کو کمزور کر کے اندرونی خطرہ محدود کیا جا سکتا ہے، عبوری فورس اور ٹیکنوکریٹس کے ذریعے غزہ پر غیر براہِ راست کنٹرول ممکن بنایا جا سکتا ہے اور فلسطینی ریاست کے قیام کو مستقبل کی شقوں کے حوالے کرکے وقتی طور پر جغرافیائی و سیاسی کنٹرول برقرار رکھا جا سکتا ہے۔

فلسطینی عوام کیلئے خطرہ یہ ہے کہ منتخب نمائندوں کی جگہ ٹیکنوکریٹس اور بین الاقوامی اداروں کی عبوری حکومت آ جائے گی، حماس کی سیاسی قوت ختم یا بائی پاس ہو جائے گی، امداد اور ترقیاتی منصوبے اگر بیرونی شرائط پر چلیں تو یہ معاشی انحصار اور سیاسی کنٹرول میں تبدیلی کی راہ ہموار کریں گے اور سب سے بڑھ کر اگر ریاستی قیام کو ’’شرائط پوری ہونے‘‘ تک مؤخر رکھا جائے تو فلسطینی قوم کے طویل المدتی سیاسی حقوق پس پشت رہ جائیں گے، امریکہ نہ صرف اس منصوبے کا ثالث بلکہ فعال سہولت کار بھی ہے، وائٹ ہاؤس میں نیتن یاہو کی میزبانی، قطر حملے پر اسرائیلی معافی اور یہی وقت منصوبہ پیش کرنے کا انتخاب بتاتا ہے کہ واشنگٹن اس مرحلے پر اسرائیل کی کارروائیوں کا حامی و مددگار ہے۔

یہ سہولت کاری عملی ثبوت ہے کہ امریکہ نہ صرف اسرائیل کی جارحیت کو قانونی تحفظ فراہم کر رہا ہے بلکہ اپنی اسلحہ ساز کمپنیوں کیلئے عرب دنیا کی مارکیٹ کھول رہا ہے۔ عرب اور مسلم ریاستوں کے سامنے دو راستے ہیں، یا تو وہ وقتی مالی و سفارتی فوائد کے بدلے اپنے سیاسی اصول بیچ دیں یا مشترکہ، شفاف اور عملی حکمتِ عملی اپنائیں جس میں دفاعی خود مختاری، معاشی آزادی اور علاقائی یکجہتی شامل ہو، پاکستان سعودی دفاع معاہدہ اسی تناظر میں ایک اشارہ ہے کہ بعض مسلم ریاستیں اپنی سکیورٹی واحدت کو متبادل دھارے کی طرف منتقل کر رہی ہیں مگر اس معاہدے کی افادیت اسی وقت تک حقیقی ہوگی جب وہ محض بیانیہ نہ رہ کر عملی مشترکہ کمانڈ، شفاف قواعد اور بروقت تعاون میں ظاہر ہو۔

ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ بظاہر امن کی پیشکش ہے مگر حقیقت میں یہ امن کو ایسی شرائط سے مشروط کرتا ہے جو اسرائیل کیلئے فائدہ مند اور فلسطینی و مسلم دنیا کیلئے خطرات لئے ہوئے ہیں، منصوبے کا خالصتاً تکنیکی اور اقتصادی روپ اگر سیاسی نمائندگی اور خودمختاری کے اصولوں کے خلاف نافذ کیا گیا تو یہ امن نہیں بلکہ ایک ایسے ڈھانچے کی بنیاد ہوگا جس میں جیت ہمیشہ طاقتور فریق کی ہوگی، اس لئے عرب اور مسلم قیادت کو چاہیئے کہ وہ اس منصوبے کی ہر شق کا باریک بینی سے تعامل کریں، عمل درآمد کے میکانزم، اداراتی نگرانی، شفافیت اور فلسطینی نمائندگی کے سخت ضامن مانگیں ورنہ یہ ایجنڈا امن کے نقاب میں علاقائی توازن، انسانی حقوق اور حقیقی خود ارادیت کو قیمت پر لگانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بیس نکاتی منصوبہ بین الاقوامی اور فلسطینی اسرائیل کی جائے گا کریں گے سکتا ہے دنیا کی کا وعدہ ٹرمپ کا یہ امن گا اور کرے گا

پڑھیں:

سیکورٹی کونسل ووٹنگ سے قبل اسرائیل کا ایک بار پھر فلسطین کو قبول نہ کرنے کا اعلان

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور دیگر حکومتی ارکان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی حمایت یافتہ غزہ امن منصوبے کی توثیق کرنے والی قرارداد پر ووٹنگ سے قبل فلسطینی ریاست کو ایک بار پھر قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق قرارداد کا مسودہ اسرائیل اور حماس کے درمیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں جنگ بندی کے معاہدے کی پیروی ہے جس میں کونسل کو غزہ میں ایک عبوری انتظامیہ اور ایک عارضی بین الاقوامی سیکورٹی فورس کی تعیناتی پر آمادہ کرے گا۔

پچھلے مسودوں کے برعکس اس قرارداد کے تازہ ترین ورژن میں مستقبل کی ممکنہ فلسطینی ریاست کا ذکر ہے جس کی اسرائیلی حکومت سخت خلاف ہے۔

گزشتہ روز اسرائیلی کابینہ کے اجلاس میں نیتن یاہو نے کہا کہ فلسطینی ریاست کے لیے ہماری مخالفت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

انہوں نے طویل عرصے سے فلسطین کی آزادی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل حماس کو نوازے گی اور اسرائیل کی سرحدوں پر حماس کے زیر انتظام ایک اور بھی بڑی ریاست کا باعث بنے گی۔

متعلقہ مضامین

  • ہم فلسطین اور اسرائیل کیلئے امن اور ابراہیم معاہدے کا حصہ بننا چاہتے ہیں، محمد بن سلمان
  • عمران خان اپنی منصوبہ بندی پارٹی کو دے چکے،اب پارٹی نے فیصلہ کرنا ہے؛ علیمہ خان
  • سلامتی کونسل نے ٹرمپ کا امن منصوبہ منظور کردیا، غزہ میں عالمی استحکام فورس کی منظوری
  • غزہ: اسرائیلی حملے‘ 3 شہید‘ متعدد ز خمی‘فلسطینی ریاست کی مخالفت جاری رہے گی‘ نیتن یاہو
  • اسرائیل فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی کوشش کر رہا ہے، جنوبی افریقا
  • غزہ امن منصوبہ: حماس نے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرار داد کو مسترد کردیا
  • سکیورٹی کونسل ووٹنگ سے قبل اسرائیل کا ایک بار پھر فلسطین کو قبول نہ کرنے کا اعلان
  • سیکورٹی کونسل ووٹنگ سے قبل اسرائیل کا ایک بار پھر فلسطین کو قبول نہ کرنے کا اعلان
  • فلسطینی ریاست کا قیام قبول نہیں: سلامتی کونسل اجلاس سے قبل اسرائیل نے مخالفت کردی
  • غزہ میں بارش: پناہ گزینوں کے خیمے ڈوب گئے‘ بچا کھچا سامان پانی کی نذر، اسرائیل نے مزید 15 فلسطینی شہدا کی لاشیں واپس کر دیں