آو کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
کل اسلام آباد کی ایک مصروف شاہراہ پر ڈیوٹی پر موجود ہونہار اور لائق پولیس افسر عدیل اکبر کے ہاتھوں سے چلنے والی گولی کی گونج نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا۔
کوئی کیسے اپنی جان لے لیتا ہے؟ کوئی اپنے ساتھیوں، اپنے پیاروں اور ایک بار ملنے والی زندگی سے یوں منہ کیسے موڑ لیتا ہے؟
ابھی کچھ دیر پہلے تو وہ ہشاش بشاش، مسکراتا ہوا اپنے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ ماتحتوں کو چوکس رہنے کا کہہ رہا تھا، فل برائٹ اسکالرشپ پر امریکا جانے کی تیاری بھی کرنا ہوگی، بیٹی کو مرضی کے گفٹ دلانے کی فکر بھی ہوگی، خواب دیکھنے والی آنکھیں کیوں بجھ جاتی ہیں؟
سوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں ہیں، تحقیقات کے بعد حتمی رائے دینے کا حق صرف پولیس کو ہے۔
لیکن ہم جذباتی سے لوگ ہیں، سوچتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
سوچتے ہیں کہ عدیل کی گولی کی آواز نے تو گونج پیدا کی لیکن ایسی کئی آنکھیں جو ڈپریشن، ذہنی دباؤ کے باعث خاموشی سے بجھ گئیں اور کسی کو خبر بھی نہ ہونے پائی کہ کس کرب سے دوچار تھیں وہ۔ ان کی بات کون کرے گا؟
سول سروس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بہت بات ہوئی، شاید اس لیے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ سول سرونٹس وہ خوش نصیب ہیں کہ جن کو معاشرے میں من چاہا مقام مل گیا، سو ان کی زندگی میں خلا ممکن ہی نہیں۔
ایسا نہیں ہے۔ قطعاً نہیں۔
بات یوں ہے کہ ہمارے معاشرے میں قانون کمزور ہے، اس لیے ہر شخص اپنے وجود کی ضمانت کسی طاقتور طبقے سے وابستگی میں ڈھونڈتا ہے۔
نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ یا تو ملک چھوڑنے کا خواب دیکھتا ہے یا سول سروس اور سرکاری نوکری کی پناہ میں آنا چاہتا ہے، جہاں اسے طاقت، تقویت، عزت، تحفظ اور استحکام کی امید ہوتی ہے۔
لیکن جیسے زندگی میں سب کچھ ویسا نہیں ہوتا جیسے ہم چاہتے ہیں یا سوچتے ہیں، بالکل اسی طرح سول سروس میں بھی ہر مرحلے پر توقعات اور حقیقت کا ایک بڑا خلیج ہمارا منتظر رہتا ہے۔
تنخواہیں کم، دباؤ زیادہ، فیملی، خاندان اور سوسائٹی کی توقعات بے کنار۔
یہ بھی قابل غور بات ہے کہ اکثر افسران اپنا nerve testing exam دے کر ہی آئے ہیں، لیکن سول سروس پاس کرنے کے بعد پہاڑ سی زندگی میں روز اس سے بڑا اور بُرا امتحان دینا پڑتا ہے۔ کبھی محنت کی داد نہ ملنے پر، کبھی اپنی معمولی غلطی کی کڑی سزا ملنے پر، کبھی کسی اور کی غلطی کی سزا کاٹنے پر اور کبھی مختلف یا زیادہ ذہین انسان ہونے پر۔
بہت سوں کو بیوروکریسی ایک خواب لگتی ہے، اختیار، مراعات، عزت۔
مگر اندر جھانک کر دیکھیں تو وہی بنیادی مسائل: کبھی دفتری، کبھی معاشی، کبھی خانگی، کبھی جذباتی، کبھی معاشرتی اور کبھی یہ تمام مل کر آہستہ آہستہ اس شعلے کو مدھم کردیتے ہیں جس نے کبھی سوچا تھا کہ اک خاشاکِ عالم پھونک ڈالے گا۔
جیسے ماں باپ اپنے زخم اولاد کو منتقل کرتے ہیں، ایسے ہی بیوروکریسی میں بھی وہ سینیئرز جن کی پروموشن نظام کی کرامت کی بدولت ہوگئی اور خود بڑے نہ ہوسکے، وہ اپنے ماتحتوں کے لیے خوف کی فضا قائم رکھتے ہیں اور ناروا سلوک کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ انہیں لگتا ہے دفتر بدتمیزی اور سختی سے ہی چلتا ہے کیونکہ ان کے بڑوں نے ان سے ایسے ہی کیا تھا۔
اکثر آپ چاپلوس اور وفادار لوگوں کو لائق لوگوں پر حاوی پائیں گے۔
دفاتر میں empathy کو کمزوری سمجھا جاتا ہے، خاموشی کو پیشہ ورانہ مہارت۔ ذہنی صحت پر بات کرنا ہی taboo ہے۔
اس لیے کبھی کبھی وہی افسر جو دوسروں کے لیے فیصلے لکھتا ہے، کبھی اپنی زندگی کے فیصلے پر قابو نہیں رکھ پاتا۔
وفاداری میرٹ کھا گئی، ڈسپلن احساس کھا گیا، اور کئی افسران کو ذہنی تناؤ کھا گیا۔
جہاں سننے والا کوئی نہیں، وہاں بولنے والا کب تک زندہ رہے گا؟
ذہنی صحت کو ہمارے یہاں سرے سے کسی کھاتے میں نہیں رکھا جاتا۔
بس سب دوڑ رہے ہیں۔۔۔ کس طرف کو، کوئی نہیں جانتا۔
ایسی افراتفری میں اگر تھوڑی دیر کو خاموشی ہوتی ہے تو صرف عدیل جیسے ہی کسی ہونہار لڑکے کے پستول کی گولی کی آواز سے۔
اس تازہ خاموشی میں آئیں، پھر سے خواب دیکھیں۔۔۔۔
طبقاتی قانون کے خاتمے کا خواب، ذہنی مسائل پر بات کرنے والے، اسے قبول کرنے والے دفتری ماحول کا خواب، نوجوانوں کے لیے چھوٹے بزنس میں بہتر مواقع کا خواب، سول سروس میں حقیقت پسند توقعات کا خواب۔
آئیں خواب دیکھیں مگر پہلے ان خوابوں کے لیے جاگنا بھی سیکھیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سول سروس کا خواب کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
مضبوط فوج مضبوط پاکستان کی ضامن، پی ٹی آئی نے مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا، بیرسٹر گوہر
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ مضبوط فوج ہی مضبوط پاکستان کی ضامن ہے، قومی معاملات افہام و تفہیم کے ذریعے حل ہونے چاہییں۔
پارلیمانی پارٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے واضح کیاکہ پی ٹی آئی نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا۔
مزید پڑھیں: اسپیکر قومی اسمبلی کی سیاسی کشیدگی میں کمی کے لیے کردار ادا کرنے کی پیشکش
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی ہمیشہ سے جمہوریت کے فروغ کی خواہاں رہی ہے اور ملک میں جاری صورتحال کو بات چیت کے ذریعے بہتر بنانا چاہتی ہے۔
بیرسٹر گوہر نے کہاکہ چند عناصر حالات میں بگاڑ پیدا کرنے اور آگ لگوانے کے خواہشمند ہیں، لیکن پی ٹی آئی نے ہمیشہ ریاستی اداروں کے مثبت کردار کو سراہا ہے۔
انہوں نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ پارٹی اداروں سے تصادم چاہتی ہے، ان کے مطابق کچھ لوگ جان بوجھ کر پی ٹی آئی اور اداروں کے درمیان دوریاں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ایک دوسرے کو خطرہ سمجھنے کے بجائے تمام فریقین کو مل بیٹھ کر معاملات طے کرنے ہوں گے، کیونکہ ایسے فیصلے ہی ملک کے وسیع تر مفاد میں ہیں۔
دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے سیاسی کشیدگی میں کمی کے لیے کردار ادا کرنے کی پیشکش کردی۔
مزید پڑھیں: ایک ذہنی مریض سے ’ذہنی ڈاکٹر‘ ہی مذاکرات کر سکتا ہے، مریم اورنگزیب کی عمران خان پر تنقید
قومی اسمبلی اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے لیے کردار ادا کرنے کو تیار ہوں۔
انہوں نے شکوہ کرتے ہوئے کہاکہ میں نے پہلے بھی کردار ادا کیا مگر مجھے اچھا صلہ نہیں ملا، اب لوگ بیٹھ جائیں اور مشاورت کرکے بتا دیں کہ کیا کرنا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اڈیالہ جیل بیرسٹر گوہر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان رہائی مذاکرات وی نیوز