امریکا، برطانیہ، جرمنی اور عرب ممالک پر غزہ کی نسل کشی میں شراکت داری کا الزام
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
اقوامِ متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے فلسطین فرانچیسکا البانیز نے اپنی تازہ رپورٹ میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں کی جانے والی نسل کشی میں کئی ریاستوں کی شمولیت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
فرانچیسکا البانیز نے منگل کے روز اپنی رپورٹ بعنوان ’غزہ کی نسل کشی: ایک اجتماعی جرم‘ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو ایک نیا اور منصفانہ کثیرالجہتی نظام تشکیل دینا ہوگا تاکہ ایسے مظالم دوبارہ نہ ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فوج کی غزہ پر وحشیانہ بمباری، 100 سے زیادہ فلسطینی شہید
انہوں نے مذکورہ خطاب جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں قائم ڈیسمنڈ اینڈ لیا ٹیوٹو لیگیسی فاؤنڈیشن سے ویڈیو لنک کے ذریعے کیا۔
"It's grotesque and frankly delusional that a genocidal state can't respond to the substance of my findings.
Francesca Albanese, the UN Special Rapporteur on the Occupied Palestinian Territories, DESTROYS an Israeli UN representative. pic.twitter.com/2hnDFEWQwq
— PoliticsJOE (@PoliticsJOE_UK) October 29, 2025
ان کی 24 صفحات پر مشتمل رپورٹ 63 ممالک کے کردار کا جائزہ لیتی ہے، جنہوں نے اسرائیل کے غزہ اور مغربی کنارے میں اقدامات میں براہِ راست یا بالواسطہ کردار ادا کیا۔
فرانچیسکا البانیز کے مطابق غیر قانونی اقدامات اور دانستہ چشم پوشی کے ذریعے کئی ریاستوں نے اسرائیل کے فوجی نسلی امتیاز کو مضبوط کیا، جس نے فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کی شکل اختیار کر لی، جو مقامی آبادی کے خلاف سب سے سنگین جرم ہے۔”
اسرائیل کو طاقت دینے والے تعلقات اورعالمی دوغلا پنرپورٹ کے مطابق نسل کشی کو ممکن بنانے میں ان ممالک نے کردار ادا کیا جنہوں نے اسرائیل کو بین الاقوامی فورمز پر سفارتی تحفظ، فوجی تعاون، اسلحے کی فراہمی، مشترکہ تربیت، اور امداد کے سیاسی استعمال کے ذریعے مدد فراہم کی۔
رپورٹ میں خاص طور پر یورپی یونین کی منافقت کی نشاندہی کی گئی، جو یوکرین پر روسی حملے کے بعد روس پر پابندیاں عائد کرتی ہے مگر اسرائیل کے ساتھ کاروباری تعلقات برقرار رکھتی ہے۔
امریکا، برطانیہ اور جرمنی پر کڑی تنقیدرپورٹ میں کہا گیا کہ امریکا نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں 7 بار ویٹو پاور استعمال کر کے اسرائیل کو سفارتی تحفظ فراہم کیا اور جنگ بندی مذاکرات پر کنٹرول رکھا۔
رپورٹ کے مطابق، دیگر مغربی ممالک نے بھی تاخیر، نرم قراردادوں اور ’توازن‘ کے بیانیے کے ذریعے اسرائیل کے حق میں فضا ہموار کی، کئی ریاستوں نے واضح ثبوتوں کے باوجود اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنا جاری رکھا۔
????Heartbreaking: A grieving mother bids farewell to seven members of her family killed in an Israeli airstrike targeting a civilian vehicle in Khan Younis southern Gaza Strip. pic.twitter.com/Gfe7HGxPcx
— Gaza Notifications (@gazanotice) October 28, 2025
امریکی کانگریس کی جانب سے 26.4 ارب ڈالر کے دفاعی پیکیج کی منظوری کو ’واضح منافقت‘ قرار دیا گیا، خاص طور پر اس وقت جب اسرائیل رفح پر حملے کی دھمکیاں دے رہا تھا جسے بائیڈن انتظامیہ ’ریڈ لائن‘ قرار دے چکی تھی۔
مزید پڑھیں: جنگ بندی کی خلاف ورزی: نیتن یاہو کے حکم کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ پر دوبارہ بمباری شروع کردی
جرمنی کو رپورٹ میں اسرائیل کا دوسرا بڑا اسلحہ فراہم کنندہ بتایا گیا، جس نے فریگیٹس، ٹورپیڈوز اور دیگر جنگی سازوسامان فراہم کیا۔
اسی طرح برطانیہ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے اکتوبر 2023 کے بعد سے اب تک 600 سے زائد جاسوس پروازیں غزہ کے اوپر کیں۔
عرب ممالک کی خاموش شمولیترپورٹ نے امریکا کی ثالثی سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والے عرب و مسلم ممالک کے کردار کو بھی نسل کشی میں بالواسطہ شراکت داری قرار دیا۔
اس میں کہا گیا کہ مصر نے جنگ کے دوران رفح کراسنگ بند رکھی اور اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی و توانائی کے معاہدے برقرار رکھے۔
امریکی پابندیاں اور اقوامِ متحدہ کی خودمختاری پر حملہفرانچیسکا البانیز نے ان پابندیوں پر بھی بات کی جو امریکا نے ان پر رواں سال عائد کیں، ان پابندیوں کے باعث وہ نیو یارک جا کر رپورٹ پیش نہیں کر سکیں۔
’یہ اقدامات اقوامِ متحدہ کی خودمختاری، اس کی آزادی اور وقار پر براہِ راست حملہ ہیں، اگر انہیں چیلنج نہ کیا گیا تو یہ کثیرالجہتی نظام کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گے۔‘
’نئے عالمی نظام کی ضرورت‘انہوں نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو ایسے کثیرالجہتی نظام کی ضرورت ہے، جو محض دکھاوا نہیں بلکہ سب کے حقوق، انصاف اور وقار پر مبنی ایک حقیقی ڈھانچہ ہو۔ ’چند کے لیے نہیں، سب کے لیے۔‘
انہوں نے کہا کہ جنوبی افریقہ، زمبابوے، پرتگال اور دیگر ریاستوں کے خلاف ماضی میں کیے گئے عالمی اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ جب عالمی برادری چاہے تو بین الاقوامی قانون انصاف اور خودارادیت کے تحفظ کے لیے مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ امریکا برطانیہ جرمنی جنرل اسمبلی رپورٹ سیاسی تحفظ عالمی نظام عرب غزہ مسلم ممالک نسل کشیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ امریکا برطانیہ جنرل اسمبلی رپورٹ سیاسی تحفظ عالمی نظام مسلم ممالک فرانچیسکا البانیز اسرائیل کے اسرائیل کو رپورٹ میں کے ذریعے متحدہ کی کے لیے
پڑھیں:
اہلیہ اور بیٹے سے ملاقات نہ کرنے پر رجب بٹ پر سنگین الزام
برطانیہ سے بے دخلی کے بعد پاکستان آنے والے یوٹیوبر رجب بٹ نے اپنی والدہ سے تو ملاقات کرلی تاہم اہلیہ اور بیٹے سے ملاقات نہیں کرسکے، جس پر صارف اُن پر سنگین الزام عائد کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق رجب بٹ کے خلاف درج مقدمات اور قانونی مشکلات کے بعد وہ بیرون ملک چلے گئے تھے، جلاوطنی کے دوران اُن کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی۔
رجب بٹ کے بیرونِ ملک میں مقیم ہونے کے دوران اُن کے اور اہلیہ ایمان کے درمیان تنازعات بھی سامنے آئے تاہم بیٹے کی پیدائش کے وقت یوٹیوبر بہت زیادہ جذباتی اور بیوی سے والہانہ محبت کا اظہار آن لائن کرتے نظر آئے تھے۔
رجب بٹ نے بتایا کہ انہوں نے وطن واپسی کے بعد اپنی والدہ سے ملاقات کی جس کے بعد انہیں سکون محسوس ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: یوٹیوبر رجب بٹ برطانیہ سے بے دخلی کے بعد پاکستان واپس پہنچ گئے
انہوں نے بتایا کہ ایمان اور بیٹے سے ملاقات نہیں ہوئی کیونکہ اہلیہ اپنی والدہ کے گھر پر ہیں اور دونوں سے جلد ملاقات ہوجائے گی۔
رجب بٹ نے کہا کہ اہلیہ اور بیٹے سے ملاقات نہ ہونے پر خود کو ادھورا سمجھ رہا ہوں۔
اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد صارفین نے ایک بار پھر سوالات اٹھائے اور یوٹیوبر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر بیٹے کی کمی محسوس ہورہی ہے تو سسرال جاکر پہلے اُس سے ملاقات کرلیتے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈی پورٹ نہیں کیا گیا ورنہ برطانیہ سے بزنس کلاس میں نہیں آتا، رجب بٹ
ایک اور صارف نے لکھا کہ رجب بٹ بہت مغرور ہے اس لیے وہ بیٹے سے ملنے گھر نہیں کیا۔ ایک صارف نے دعویٰ کیا کہ اہلیہ ایمان رجب سے نفرت کرتی ہے اور جب تک یہ جیل نہیں جاتا وہ خود کو محفوظ نہیں سمجھتی۔