پشاور ہائیکورٹ نے سیاسی سرگرمیوں میں سرکاری وسائل کا استعمال روک دیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
پشاور(ڈیلی پاکستان آن لائن)پشاور ہائیکورٹ نے سیاسی سرگرمیوں میں سرکاری وسائل کا استعمال روک دیا۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق پشاور ہائیکورٹ میں ریلیوں، جلسوں اور ملین مارچ میں سرکاری مشینری کے استعمال کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
پشاور ہائیکورٹ نے سیاسی جلسوں اور ملین مارچ میں سرکاری وسائل کا استعمال نہ کرنے کا حکم دیدیا،پشاور ہائیکورٹ نے کہاکہ سیاسی سرگرمیوں میں سرکاری وسائل کا استعمال قومی خزانے کا ضیاع ہے،ریاست سرکاری اور سیاسی تقریبات میں تفریق کرے،سیاسی سرگرمیوں میں سرکاری وسائل کا استعمال اختیارات کے ناجائز اسستعمال کے زمرے میں آتا ہے،پشاور ہائیکورٹ نے چار صفحات پر مشتمل تحریری حکم جاری کردیا۔
پختونخوا حکومت نے یکم سے قبل تنخواہوں کی ادائیگی پر پابندی لگادی
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: سیاسی سرگرمیوں میں سرکاری وسائل کا استعمال پشاور ہائیکورٹ نے
پڑھیں:
’پشاور افغان باشندوں کا گڑھ‘ خیبر پختونخوا سے افغانوں کی واپسی کم کیوں؟
25 سالہ افغان شہری عدنان خان (فرضی نام) گزشتہ 2 دہائیوں سے پنجاب کے شہر راولپنڈی میں مقیم تھے۔ تاہم پنجاب میں افغان باشندوں کی واپسی کے حکومتی احکامات کے بعد ان کا خاندان افغانستان واپس چلا گیا، لیکن عدنان پشاور آگئے اور اب یہیں رہائش پذیر ہیں۔
صرف عدنان خان ہی نہیں بلکہ بڑی تعداد میں افغان باشندے جو ملک کے دیگر حصوں میں رہتے تھے، واپسی سے بچنے کے لیے پشاور کا رخ کر چکے ہیں جہاں دیگر صوبوں کے مقابلے میں ان کی واپسی کی رفتار نسبتاً سست ہے۔ عدنان خان کہتے ہیں ’پشاور میں جلد شناخت نہیں ہوتی‘۔
یہ بھی پڑھیں:افغانستان دہشتگردی کا سرپرست، ایسے عناصر کا زمین کے آخری کونے تک پیچھا کریں گے، خواجہ آصف
سرکاری حکام کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں افغان باشندوں کی واپسی میں تیزی آئی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے افغان مہاجرین کو وطن واپسی کے احکامات اور مہاجر کیمپوں کے خاتمے کے فیصلے کے بعد واپسی کا عمل تیز ہوا ہے۔
پنجاب اور سندھ سے بڑی تعداد میں افغان شہری واپس جا چکے ہیں تاہم خیبر پختونخوا میں واپسی کی رفتار سست ہے۔
عدنان خان نے بتایا کہ پنجاب اور سندھ میں تقریباً تمام افغان باشندے واپس جا چکے ہیں یا عارضی طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان منتقل ہوئے ہیں۔ ان کے بقول پنجاب اور سندھ میں کریک ڈاؤن جاری ہے۔ پولیس گھر آتی ہے۔ گرفتاری اور قانونی کارروائی کے ڈر سے لوگ واپس جا رہے ہیں۔
عدنان کہتے ہیں کہ وہ راولپنڈی میں سبزی کا کاروبار کرتے تھے اور اب پشاور کے بورڈ بازار میں اپنے کزن کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ان کے مطابق میرے والدین، بہن بھائی سب افغانستان واپس چلے گئے، لیکن میں پشاور آگیا۔
یہ بھی پڑھیں:کیڈٹ کالج وانا پر حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی، شواہد مل گئے
ان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں ان کی شناخت آسانی سے ہو جاتی تھی، پولیس فوراً پہچان لیتی تھی کہ وہ افغان شہری ہیں اور گرفتاری کے امکانات زیادہ تھے، جبکہ پشاور میں صورتِ حال مختلف ہے۔
پشاور میں گرفتاری یا پولیس کارروائی کا زیادہ خوف نہیں رہتا۔ پشتو ہماری بھی زبان ہے، شکلیں بھی ایک جیسی ہیں، اس لیے ڈر کم ہوتا ہے۔
پشاور افغان باشندوں کا گڑھاقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق خیبر پختونخوا میں 8 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین مقیم ہیں جن میں سب سے بڑی تعداد پشاور میں ہے۔
سرکاری حکام کے مطابق 2024 سے افغان باشندوں کی واپسی کی مہم تیز ہونے کے بعد دیگر صوبوں سے تو واپسی میں اضافہ ہوا، لیکن پشاور میں افغان شہریوں کی تعداد میں الٹا اضافہ دیکھا گیا ہے، جن میں اکثریت غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی ہے۔
پشاور پولیس کے ایک سینیئر افسر کے مطابق ان کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیگر صوبوں سے افغان باشندے پشاور منتقل ہوئے ہیں، تاہم ان پر پولیس اور دیگر اداروں کی کڑی نظر ہے۔
ان کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ افغان باشندے پشاور میں رہائش پذیر ہیں۔
بورڈ بازار کو ’چھوٹا کابل‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں افغان باشندوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ اسی طرح حیات آباد، صدر، حاجی کیمپ اور چارسدہ روڈ کے علاقوں میں بھی افغان شہری بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:افغان طالبان رجیم اور فتنہ الخوارج نفرت اور بربریت کے علم بردار، مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب
وفاقی حکومت کے احکامات کے باوجود پشاور کے مہاجر کیمپ تاحال مکمل طور پر خالی نہیں کیے گئے۔
بورڈ بازار میں سبزی فروش حاجی خان کا کہنا ہے کہ میری پیدائش بھی پشاور کی ہے اور میں واپس نہیں جانا چاہتا۔ جب تک زبردستی واپس نہیں بھیجا جاتا، تب تک یہی رہوں گا۔
ان کے مطابق جو واپس گئے تھے وہ بھی کسی نہ کسی طرح واپس آ رہے ہیں اور اب ان کی ترجیح پشاور ہے۔
خیبر پختونخوا میں افغان باشندوں کی واپسی کم کیوں؟حکام کے مطابق خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع سے افغان باشندوں کی واپسی کا عمل جاری ہے۔ چترال سمیت کچھ اضلاع میں مہاجر کیمپ بند کر دیے گئے ہیں اور وہاں آباد افغان شہری وطن واپس چلے گئے ہیں۔
پشاور سے واپسی کم ہونے کی کئی وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔ پشاور میں تعینات ایک اعلیٰ پولیس افسر نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی ہدایت کے مطابق افغان باشندوں کی “باعزت اور رضاکارانہ” واپسی کا عمل جاری ہے۔
ان کے مطابق اس وقت کوئی کریک ڈاؤن یا سخت کارروائی نہیں ہو رہی۔ حکومت چاہتی ہے کہ واپسی رضاکارانہ اور باعزت ہو۔
افسر نے مزید کہا کہ پشاور میں افغان باشندوں کی تعداد زیادہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں ابھی کوئی سخت کارروائی شروع نہیں کی گئی۔
پولیس حکام کے مطابق کچھ غیر قانونی افغان باشندے جرائم میں بھی ملوث ہیں، جن میں قتل، موبائل چوری، ڈکیتی اور بھتہ خوری شامل ہیں، جبکہ بعض افغان گروہ اس نوعیت کے جرائم میں سرگرم ہیں۔
اب تک کتنے افغان باشندے واپس جا چکے ہیں؟حکومتِ پاکستان کے مطابق افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ حالیہ سرحدی کشیدگی اور بارڈر بند ہونے کی وجہ سے واپسی کا عمل عارضی طور پر متاثر ہوا تھا، تاہم اب دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:باعزت واپسی کا سلسلہ جاری، 16 لاکھ 96 ہزار افغان مہاجرین وطن لوٹ گئے
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک روز کے دوران تقریباً 11 ہزار 600 افغان باشندے افغانستان واپس بھیجے گئے، جبکہ مجموعی طور پر اب تک 16 لاکھ 96 ہزار مہاجرین وطن واپس جا چکے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغان باشندے افغان مہاجرین پاکستان پشاور پنجاب