دو سے تین روز میں نگران وزیر اعلیٰ کا نام فائنل ہو گا، گلبر خان
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
ایک انٹرویو میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے کہا کہ الیکشن میں بھرپور طریقے سے حصہ لیں گے، ہمارے پاس 8 سے 9 الیکٹیبلز موجود ہیں جو الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر اعلیٰ حاجی گلبر خان نے کہا ہے کہ نگراں وزیر اعلیٰ کیلئے کوئی نام فائنل نہیں ہوا، کوشش کی جا رہی ہے کہ متفقہ طور پر وزارت اعلیٰ کیلئے نام تجویز کریں۔ سوشل میڈیا پر جو نام چل رہے ہیں ان کے بارے میں فی الحال ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، انشاء اللہ آئندہ دو سے تین روز میں نگراں وزیراعلیٰ کا نام فائنل کر دیا جائے گا، ابھی تک میرے ذہن میں وزیر اعلیٰ کیلئے کوئی نام نہیں ہے، جس دن ذہن میں کوئی نام آئے گا وزیراعلیٰ کیلئے پیش کریں گے، ہماری کوشش ہے کہ متفقہ طور پر نام تجویز کریں۔ مقامی میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں گلبر خان کا کہنا تھا کہ جس دن ہم کسی ایک نام پر متفق ہوں گے ہم وزیر اعظم کو نام ارسال کریں گے اور وہ ہمارے تجویز کردہ نام کو وزارت اعلی کیلئے فائنل کر کے حتمی منظوری دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بدھ کی رات گئے وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان انجنیئر امیر مقام کی رہائش گاہ پر نگراں وزیر اعلیٰ کی تقرری کیلئے ہونے والے اجلاس میں بڑی اچھی گفت شنید ہوئی اور تینوں نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ متفقہ طور پر پر وزارت اعلیٰ کیلئے نام تجویز کریں گے، ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ نگراں وزیر اعلیٰ غیر جانبدار غیر متنازعہ اور لائق فائق ہونا چاہیئے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نگراں وزیر اعلی کے معاملے پر ہم نہایت ہی محتاط انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کیلئے نام ذمہ دار فورم کو پیش کرنے سے قبل میڈیا کے سامنے نہیں لائیں گے، ہم نہیں چاہتے کہ متعلقہ فورم سے قبل میڈیا کو نام دیں، وزیر اعلیٰ کا نام قبل از وقت میڈیا میں لانے سے مسائل آسکتے ہیں، اس لئے ہم کچھ دن کیلئے میڈیا سے دور بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے معاملے پر جمعرات کے روز اپوزیشن لیڈر کے ساتھ بیٹھنا تھا مگر اپوزیشن لیڈر کہیں گئے ہوئے تھے، اس لئے ان کے ساتھ نشست نہیں ہو سکی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ الیکشن میں بھرپور طریقے سے حصہ لیں گے، ہمارے پاس 8 سے 9 الیکٹیبلز موجود ہیں جو الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہیں۔ ہم اپنے گروپ کی شکل میں انتخابات میں جا رہے ہیں، کامیابی کے بعد خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی نشستوں کے حصول کیلئے کسی سیاسی جماعت کی چھتری تلے جمع ہونگے، وہ جماعت مسلم لیگ ق بھی ہو سکتی ہے اور کوئی دوسری جماعت بھی، کیونکہ کسی سیاسی جماعت کو جوائن کئے بغیر ہمیں ٹیکنوکریٹ کریٹ اور خواتین کی نشستیں نہیں مل سکتیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نگراں وزیر اعلی انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
سابق وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے خلاف الیکشن کمیشن اثاثہ جات کیس کی سماعت
سابق وزیر اعلی علی امین گنڈا پور کے خلاف الیکشن کمیشن اثاثہ جات کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس ارشد علی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔ اس میں اسپیشل سیکرٹری الیکشن کمیشن، درخواست گزار وکلا عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس ارشد علی نے وکیل علی امین گنڈاپور سے استفسارکیا کہ کیا آپ کے پاس نوٹس بھیجنے کا دائرہ اختیار ہے؟ آپ نے اثاثہ جات کے حوالے الیکشن کمیشن کو جواب دیا ہے؟۔
عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس تو اثاثہ جات جمع کرنے کے 120 دن کے اندر کاروائی کا اختیار ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ فوجداری کیسز میں الیکشن کمیشن کے پاس کسی بھی وقت کاروائی کا اختیار موجود ہے جس پر جسٹس ارشد علی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اثاثہ جات کیس میں نااہلی کے لئے ایک مقررہ وقت ہوتا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ نااہلی نہیں ہے۔ اس سے پہلے الیکشن کمیشن اپنی انکوائری کرتا ہے، وزیر اعلی نے 62(1) ایف کی درخواست کے تحت 2024 سے حکم امتناعی لیا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ منتخب نمائندہ ہر مالی سال کے آخر میں اپنے اثاثہ جات کے حوالےسے جواب جمع کرتا ہے، قانون کے مطابق ہمارے پاس منتخب نمائندے سے سالانہ اثاثہ جات طلب کرنے کا اختیار ہے۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
الیکشن کمیشن اثاثہ جات نوٹس کے خلاف کیس
دوسری جانب صوبائی وزیر ڈاکٹر امجد کا الیکشن کمیشن اثاثہ جات نوٹس کے خلاف کیس کی بھی سماعت ہوئی۔ اس کی بھی سماعت جسٹس ارشد علی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔
وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن بری کوٹ میں جائیداد پر کروائی کر رہا ہے۔ جس جائیداد کے کاغذات پر الیکشن کمیشن کاروائی کر رہا ہے اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔
وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے ایک دن میں دو آرڈر کیسے کیے، الیکشن کمیشن نے اسپیکر کو درخواست گزار کے خلاف آرٹیکل 63 کی کاروائی کے لیے لکھا۔
جسٹس ارشد علی کا کہنا تھا کہ یہ الیکشن کمیشن کی الٹی گنگا کیسے بہہ رہی ہے۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اسپیکر نے ممبر اسمبلی کے خلاف کاروائی نہیں کی اور کہا اس میں کچھ بھی نہیں۔
جسٹس ارشد علی کا کہنا تھا کہ ایک غلط آرڈر پر آپ کس طرح ایک ممبر اسمبلی کے خلاف فوجداری کاروائی کریں گے۔ عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا،