پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیڈ لاک
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں چھے نومبر کو شروع ہونے والے مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا تھا کہ اس وقت پاک افغان مذاکرات میں مکمل ڈیڈ لاک ہے، مذاکرات ختم ہو چکے ہیں، اگلے دور کا کوئی پروگرام نہیں، پاکستانی وفد کا خالی ہاتھ واپس آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ثالثوں کو بھی اب افغانستان سے امید نہیں، انہیں ذرا بھی امید ہوتی تو وہ کہتے کہ آپ ٹھیر جائیں، ثالث کہتے تو پاکستانی وفد رک جاتا، مذاکرات میں افغان وفد پاکستانی موقف سے متفق تھا تاہم لکھ کر دینے پر راضی نہ تھا جبکہ دوحا اور استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کے جو تین ادوار ہوئے تھے، ان کے انعقاد میں قطر کے علاوہ ترکیہ کا بھی بڑا اہم کردار تھا۔ ان مذاکرات میں جب بھی ڈیڈ لاک پیدا ہوا‘ قطر کے ہمراہ ترکیہ نے بھی اسے ختم کرانے کے لیے بھرپور کوشش کی۔
استنبول مذاکرات میں ڈیڈ لاک کے بعد اگرچہ خواجہ آصف نے پاک افغان مذاکرات کی کہانی ختم ہونے کا اعلان کر دیا ہے مگر اطلاعات کے مطابق ترکیہ کو اسلام آباد اور کابل کے درمیان ڈیڈ لاک پر بڑی تشویش ہے اور ترکیہ کسی صورت مصالحت کی کوششوں کو ترک کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا بلکہ دونوں ملکوں کے مابین مستقل جنگ بندی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار دکھائی دیتا ہے۔ اعلیٰ سطحی ترک وفد کی پاکستان میں ممکنہ آمد‘ ترکیہ کے پاکستان کے ساتھ خلوص اور دو ہمسایہ مسلم ملکوں میں مصالحت کے لیے مخلصانہ کوشش کی آئینہ دار ہے۔ ایران کی طرف سے بھی پاکستان اور افغانستان کے باہمی اختلافات ختم کرانے میں تعاون کی پیشکش اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان میں جنگ کی صورت میں جو ممالک فوری طور پر اور سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ان میں ایران بھی شامل ہو گا‘ اس بنا پر ایران کی طرف سے پاک افغان مذاکرات میں ڈیڈ لاک اور سرحدی جھڑپوں کے دوبارہ شروع ہونے کے خدشات کا اظہار قدرتی اور قابل ِ فہم ہے۔ اگرچہ اس وقت صرف روس نے طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم کیا ہے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق روس کی جانب سے طالبان کی حکومت کو افغانستان کی جائز اور قانونی حکومت تسلیم کرنے کا اقدام نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے لیے اہم سیاسی‘ عسکری اور معاشی مظہرات کا حامل ہے۔ تاجکستان میں وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ایک حالیہ کانفرنس کے دوران روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے افغانستان میں امن اور استحکام کو وسطی ایشیائی ممالک کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
2020ء میں دوحا معاہدے میں افغان طالبان نے پوری دنیا کو تحریری طور پر یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے مگر اگست 2021ء میں کابل پر قبضے کے بعد سے چار سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود افغان طالبان اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکے اور افغان سرزمین بدستور پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ گزشتہ روز بھی اسلام آباد جی الیون کچہری کے باہر بھارتی اسپانسرڈ اور افغان طالبان کی پراکسی نے خودکش دھماکا کیا‘ جس کے نتیجے میں 12 افراد شہید اور 27 زخمی ہوگئے۔ اس سے قبل پیر کے روز جنوبی وزیرستان میں وانا کیڈٹ کالج کو نشانہ بنانے کی مذموم کوشش کی گئی۔ یہ امر پوری دنیا پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے کہ افغان طالبان نے نہ صرف کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو اپنے ملک میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رکھی ہیں بلکہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے انہیں عسکری اور مالی امداد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کے بعد افواجِ پاکستان نے جب دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے ملٹری آپریشن کا آغاز کیا تو ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے بھاگ کر افغانستان میں پناہ حاصل کر لی اور وہاں افغان طالبان کی صفوں میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ افغان طالبان نہ صرف اس کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ ٹی ٹی پی کو اپنا سب سے قریبی ساتھی قرار دیتے ہیں۔ اس لیے دوحا اور استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں افغان طالبان نے پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کو روکنے کے لیے ٹھوس اور مؤثر اقدامات سے صاف انکار کر دیا بلکہ یہاںتک کہہ دیا کہ وہ ٹی ٹی پی کو دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھتے۔
طالبان حکومت پر واضح ہونا چاہیے کہ ان کا مؤقف نہ صرف پاکستان‘ اس کے دیگر ہمسایہ ممالک بلکہ عالمی برادری کی رائے اور فیصلوں سے متصادم ہے کیونکہ اقوام متحدہ اور دیگر کئی ممالک کی طرف سے کالعدم ٹی ٹی پی کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے۔ مگر افغان طالبان اپنے رویے میں تبدیلی لانے سے صاف انکاری ہیں۔ دوحا اور استنبول مذاکرات بھی اسی وجہ سے بے نتیجہ رہے۔ اس کے باوجود ترکیہ اور ایران جیسے برادر مسلم ممالک پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعات کا مستقل حل ڈھونڈنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ تنازعات اسی صورت ختم ہو سکتے ہیں جب افغان طالبان اپنے سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکیں گے‘ مگر ایران اور ترکیہ کی طرف سے مصالحت کی پیشکش کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان کسی بڑی جنگ کے امکان کو روکنا ہے کیونکہ مذاکرات میں ڈیڈ لاک کے بعد پاکستان نے واضح کر دیا کہ وہ سرحد پار سے کسی بھی دہشت گردی کا فوری اور بھرپور جواب دے گا۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کی ہدایت پر اعلیٰ سطحی ترک وفد کی پاکستان میں آمد کا مقصد پاکستان کو افغانستان کے ساتھ دوبارہ مذاکرات پر آمادہ کرنا اور سیز فائر کو مستقل قرار دینے پر راضی کرنا ہے۔ امید ہے یہ اعلیٰ سطحی وفد اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا۔ یہ بات عین قرین قیاس ہے کہ ترکیہ نے پاکستان میں وفد بھیجنے سے قبل افغان طالبان سے بھی رابطہ قائم کیا ہوگا اور ان کی طرف سے اپنے مؤقف میں لچک کا اشارہ دیا گیا ہوگا کیونکہ پاکستان سے کشیدگی اور جنگ کی صورتحال سے افغانستان میں بے چینی پھیلنے کا خدشہ ہے جو افغان طالبان کی حکومت کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔
افغان حکومت نے اپنا رویہ نہ بدلا تو معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں اور پھر دونوں اطراف کو ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے ہی حل کرنا چاہیے۔ اگر افغان حکومت کو کسی بھی قسم کے مسئلے کا سامنا ہے تو پاکستان اس کی مدد کر سکتا ہے۔ پاکستان کا ایک ہی مطالبہ ہے جو ہر طرح سے جائز ہے، اس حوالے سے ان تمام ممالک کو بھی مدد کرنی چاہیے جو افغان طالبان پر اپنا اثر رسوخ استعمال کر سکتے ہیں، بلاشبہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل ہی اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ افغانستان کی سرزمین ایک پراکسی جنگ کا میدان بن چکی ہے، جہاں علاقائی اور عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے چال چلی رہی ہیں۔ پاکستان، جو اس سب سے براہ راست متاثر ہے، نے ہمیشہ سفارتی اور پر امن ذرائع کو ترجیح دی ہے، لیکن جب تک دوسرے فریق کی سنجیدگی نہ ہو، تو یہ کوششیں ناکام رہتی ہیں۔ ایسے نازک موڑ پر، ایران اور ترکیہ کی مصالحتی کوششیں ایک امید کی کرن کی مانند ابھر رہی ہیں۔ دونوں ممالک خود بھی افغانستان میں فعال دہشت گردی کے کیمپوں سے براہ راست متاثر ہیں۔ ایران کو سرحد پار بلو چستان اور دیگر علاقوں سے منسلک گروہوں کی سرگرمیوں کا سامنا ہے، جبکہ ترکیہ وسطی ایشیائی روابط کی وجہ سے ان حملوں کی لپیٹ میں آتا رہا ہے۔ ان کی جانب سے پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی اور مسئلے کے حل کے لیے فعال کردار کا عزم ایک مثبت پیش رفت ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان مواقع کو سنجیدگی سے لے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر ایک جامع امن فریم ورک تیار کرے۔ اس میں سرحدوں کی نگرانی، انٹیلی جنس اشتراک اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائی شامل ہونی چاہیے۔ طالبان کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ انکار کی پالیسی طویل مدتی نقصان کا باعث بنے گی۔ بھارتی مداخلت جیسے بیرونی عوامل کو روکنے کے لیے علاقائی فورمز جیسے ای سی او اور شنگھائی تعاون تنظیم کا کردار بھی اہم ہو گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ امن کی راہ سفارتکاری اور با ہمی اعتماد سے ہی گزرتی ہے۔ ایران اور ترکیہ کی شمولیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خطہ تنازعات سے تنگ آچکا ہے اور اب مشتر کہ حل کی تلاش میں ہے۔ پاکستان کو اس موقع کو ضائع نہ کرنے دیں، کیونکہ ایک مستحکم افغانستان ہی ایک مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان کے درمیان افغانستان میں افغان طالبان دہشت گردی کے مذاکرات میں پاکستان میں ان مذاکرات اور ترکیہ طالبان کی کی طرف سے ٹی ٹی پی ڈیڈ لاک کے ساتھ کے بعد کے لیے
پڑھیں:
افغان پولیس پریڈ میں اسلام آباد کو آگ لگانے کی دھمکیاں
لاہور میں جھنڈے گاڑنے جیسے اشتعال انگیز اشعار شامل تھے،سفارتی حلقوں میں تشویش
افغان طالبان کے وزیر نوراللہ نوری نے 7 نومبر کو سندھ اور پنجاب پر حملوں کی دھمکی دی تھی
افغانستان میں پولیس اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے دوران پڑھے گئے پاکستان مخالف ترانوں نے خطے میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔رپورٹس کے مطابق تقریب کے دوران پڑھے گئے ترانوں میں اسلام آباد کو آگ لگانے اور لاہور میں جھنڈے گاڑنے جیسے اشتعال انگیز اشعار شامل تھے۔تقریب میں پاکستان کے خلاف شدید نفرت انگیز زبان استعمال کی گئی جس نے سفارتی حلقوں میں سوالات اٹھا دیے ہیں۔ذرائع کے مطابق افغان طالبان کے وزیر نوراللہ نوری نے 7 نومبر کو سندھ اور پنجاب پر حملوں کی دھمکی دی تھی، جس کے بعد یہ واقعہ سامنے آیا۔مزید برآں، طالبان انٹیلی جنس سے منسلک ڈیجیٹل میڈیا اکاؤنٹس بھی کئی بار اسلام آباد پر خودکش حملوں کی دھمکیاں دے چکے ہیں، جس سے پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں میں تشویش بڑھ گئی ہے۔سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات سے پاک افغان تعلقات پر مزید دباؤ پڑ سکتا ہے اور دہشت گردی کے خطرات بڑھنے کا امکان ہے۔