خیبر پختونخوا :رواں سال مختلف کارروائیوں میں 955 دہشت گرد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور(مانیٹرنگ ڈیسک) خیبر پختونخوا میں رواں سال مختلف کارروائیوں میں مجموعی طور پر 955 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔پختونخوا پولیس نے رواں سال کے دوران صوبے بھر میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کا ڈیٹا مرتب کرلیا۔سینٹرل پولیس آفس کی رپورٹ کے مطابق پولیس اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ نے مختلف آپریشنز کے دوران 423 دہشت گردوں کو ہلاک کیاجبکہ سیکورٹی فورسز نے 532 دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا۔ کارروائیوں کے دوران ہلاک دہشت گردوں کے قبضے سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا۔سینٹرل پولیس آفس کے مطابق آپریشنز میں 33 اہم دہشت گرد کمانڈرز بھی مارے گئے، ہلاک دہشت گردوں کا تعلق وزیرستان، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، مردان، کوہاٹ سمیت مختلف اضلاع سے تھا۔ رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ دہشت گرد بنوں، ڈی آئی خان، شمالی و جنوبی وزیرستان اور خیبر میں ہلاک کیے گئے جب کہ کرم، اورکزئی اور ملاکنڈ میں بھی اہم کمانڈرز سمیت متعدد دہشت گرد مارے گئے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
خیبر پختونخوا اسمبلی اجلاس، امن و امان پر بحث کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان آپس میں الجھ پڑے
امن و امان کی ابتر صورتحال کا ذمہ دار صوبائی حکومت نے وفاق جبکہ اپوزیشن نے صوبائی حکومت کو حالات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا اسمبلی اجلاس میں امن و امان پر بحث کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان آپس میں الجھ پڑے، امن و امان کی ابتر صورتحال کا ذمہ دار صوبائی حکومت نے وفاق جبکہ اپوزیشن نے صوبائی حکومت کو حالات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی ارکان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردی بڑھ رہی ہے، وفاق دہشت گردی کے خاتمے کا حل مذاکرات سے نکالے جبکہ اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا امن وامان کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے اگر حکومت امن قائم نہیں کرسکتی تو مستعفی ہوجائے۔ صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم کے خطاب کے دوران ہی اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی کردی جس پر اجلاس یکم دسمبر تک ملتوی کردیا گیا۔
خیبر پختونخوا اسمبلی اجلاس کے دوران امن و امان پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکومتی ارکان ڈاکٹر امجد، نیک محمد، عجب گل، ریاض خان، فضل حکیم نے ایف سی ہیڈکوارٹر دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم روزانہ امن و امان پر بات کرتے ہیں ہمارا مقصد کسی ادارے کو نشانہ بنانا نہیں ہم ذمہ داری کی نشاندہی کرتے ہیں، ہم سب کا سوال ہے سرحد پار سے دہشت گرد کیسے آتے ہیں؟۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ 38 سو سے 41 سو تک دہشت گرد ہیں، سرحد پار سے دہشت گردوں کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے، سیکورٹی ایجنسیاں تحریک انصاف کی بے عزتی مقدمات کے اندراج میں لگی ہوئے ہیں، جب آگ پھیلتی ہے تو اس کی لپیٹ میں سب آتے ہیں۔
حکومتی ارکان نے کہا کہ دہشت گردی سے عام عوام اور سیکورٹی فورسز کے جوان بھی متاثر ہورہے ہیں، دہشت گردی کے خلاف کاروائیوں میں 57 ہزار خواتین بیوہ ہوچکی ہیں جبکہ ڈھائی لاکھ بچے یتیم اور دس ہزار لوگ معذور ہیں، ہم پوچھنا چاہتے ہیں اسی خطے کو کیوں ٹارگٹ کیا جارہا ہے؟۔ حکومتی ارکان نے کہا کہ ہم بات کرتے ہیں تو نوٹس ملتے ہیں ڈرایا دھمکایا جارہا ہے، اس صوبے میں آپریشن ہوتے ہیں لیکن فائدہ کچھ نہیں تو پھر مذاکرات کی طرف کیوں نہیں جاتے؟ یہ صوبہ دہشت گردی کی آگ میں جلتا رہے گا، 2013 سے قبل صوبے پر کس کی حکومت تھی، 66 سالوں میں ایسے مسائل کو ایوان میں نہیں اٹھایا گیا۔