اپوزیشن پارٹیوں کا مودی حکومت کے خلاف دوسرے دن بھی زبردست احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 2nd, December 2025 GMT
انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 12ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں میں جاری انتخابی فہرستوں پر خصوصی نظرثانی مہم کے ذریعے بڑے پیمانے پر اپوزیشن کے ووٹروں کے نام حذف کئے جا رہے ہیں جس سے انتخابی شفافیت اور عوامی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے دوسرے دن منگل کو بھی انڈین نیشنل کانگریس سمیت اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے مودی حکومت کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ ذرائع کے کانگریس پارٹی کے صدر ملکار جن کھڑگے، راہل گاندھی اور سونیا گاندھی سمیت کانگریس رہنمائوں نے اپوزیشن کے دیگر اراکین پارلیمنٹ کے ہمراہ مکردوار کے باہر جمع ہو کر مودی حکومت کی طرف سے انتخابی فہرستوں کی خصوصی نظرثانی کے خلاف احتجاج کیا۔انہوں نے انتخابی فہرستوں کی خصوصی نظرثانی کے مودی حکومت کے فیصلے پر پارلیمنٹ میں فوری بحث کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 12ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں میں جاری انتخابی فہرستوں پر خصوصی نظرثانی مہم کے ذریعے بڑے پیمانے پر اپوزیشن کے ووٹروں کے نام حذف کئے جا رہے ہیں جس سے انتخابی شفافیت اور عوامی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت شہریوں کے حقوق پر حملہ آور ہے۔ انہوں انتخابی فہرستوں پر خصوصی نظرثانی مہم پر فوری پارلیمنٹ میں بحث کرانے کا مطالبہ کیا کیونکہ یہ معاملہ براہِ راست طور پر شہریوں کے حق رائے دہی سے متعلق ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مودی حکومت کے دور میں عوام کے حق رائے دہی کو خطرہ لاحق ہے۔
ریاست بہار میں 62لاکھ ووٹروں کے نام حذف کیے گئے ہیں۔ بہت سے بی ایل اوز نے دبائو کی وجہ سے خودکشی تک کر لی ہے۔ یہ جمہوریت کے مستقبل کا مسئلہ ہے۔ اپوزیشن رہنمائوں نے انتخابی فہرستوں پر نظرثانی کے معاملے پر پارلیمنٹ میں مفصل بحث کرانے تک اپنا احتجاج جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
واضح رہے کہ سرمائی اجلاس کے پہلے دن پیر کو اپوزیشن نے انتخابی فہرستوں پر خصوصی نظرثانی مہم پر شدید احتجاج کیا تھا، جس کی وجہ سے لوک سبھا کی کارروائی کو بار بار ملتوی کرنا پڑا تھا۔ منگل کو اجلاس کے دوسرے دن بھی اپوزیشن کے احتجاج کی وجہ سے لوک سبھا کی کارروائیوں ملتوی کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انتخابی فہرستوں پر خصوصی نظرثانی مہم مودی حکومت کے اپوزیشن کے احتجاج کی انہوں نے رہے ہیں
پڑھیں:
اقوامِ متحدہ نے افغان بارڈر کی بندش پر نظرثانی کی درخواست کردی، فیصلہ قیادت سے مشاورت کے بعد ہوگا: اسحاق ڈار
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ نے پاکستان سے افغان بارڈر کی بندش کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کی باضابطہ درخواست کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر عسکری قیادت اور وزیراعظم سے مشاورت کی جائے گی۔
اسلام آباد میں پریس بریفنگ دیتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ گزشتہ روز دفترِ خارجہ کو اقوام متحدہ کی جانب سے خط موصول ہوا ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ افغانستان کے ساتھ بارڈر بند رکھنے کے فیصلے پر دوبارہ غور کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان لازمی غذائی اشیا کے لیے افغان عوام کو سہولت دینے پر غور کرے گا اور امید ہے کہ اس حوالے سے اجازت جلد دے دی جائے گی۔
وزیر خارجہ نے بتایا کہ وہ اب تک افغانستان کے تین دورے کر چکے ہیں اور واضح کر چکے ہیں کہ ہمسائے تبدیل نہیں ہوتے۔ افغان عبوری حکومت کو سمجھایا ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کا مسئلہ حل نہ کیا گیا تو مشکلات صرف پاکستان کے لیے نہیں، افغانستان کے لیے بھی بڑھیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں افغانستان سے کچھ نہیں چاہیے، بس اتنی درخواست ہے کہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اور ’’ضرورت پڑی تو دہشت گردوں کو گھر میں گھس کر ماریں گے‘‘۔ ان کے مطابق قطر کی درخواست پر کلین اپ آپریشن کچھ عرصے کے لیے روکا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ سرحد ہم نے خوشی سے بند نہیں کی، 40 لاکھ سے زائد افغان شہری برسوں سے پاکستان میں مقیم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے وزیر خارجہ نے تجویز دی ہے کہ روس، ایران، قطر، ترکی، پاکستان اور افغانستان مل بیٹھ کر مسائل پر بات کریں۔ یورپی یونین حکام کو بھی پاکستان نے واضح کیا ہے کہ وہ افغانستان میں امن چاہتا ہے۔
وزیر خارجہ نے بتایا کہ پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کو ریلوے کے ذریعے جوڑنے کے منصوبے پر بھی کام ہوا تھا اور تینوں ممالک کی موجودگی میں معاہدہ سائن کیا گیا، مگر عملی سطح پر پیش رفت نظر نہیں آئی۔ ‘‘ہم اچھے اقدامات کرتے رہیں اور دوسری طرف رویہ ایسا ہو تو معاملہ مشکل ہوجاتا ہے،’’ انہوں نے کہا۔
اسحاق ڈار نے اپنے دورۂ ماسکو کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ صدر پیوٹن سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں بہت مثبت رہیں، اور یورپی یونین کے ساتھ بھی کھل کر گفتگو ہوئی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب دنیا—مسلم اور غیر مسلم—دہشتگردی کے خاتمے کے لیے متحد ہو جائے گی، اور پاکستان اس تعاون میں ایک قدم آگے بڑھ کر کردار ادا کرے گا۔