پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ جنگ کے دوران پوری قوم کا جذبہ جہاد دیدنی تھا اور ملک و ملت کی سلامتی کیلئے پاک فوج کے پیچھے قوم سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی رہی۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر اطلاعات آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر مولانا پیر محمد مظہر سعید شاہ نے کہا کہ بھارت کے جنگی جنون کو شکست دینے پر ضلعی انتظامیہ، صحافیوں اور نیلم کی عوام کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ بھارت کی شکست سے مسئلہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہو گیا ہے۔ ہماری افواج نے دانشمندی سے دشمن پر ہیبت طاری کی ہے۔جہاں آپریشن "بنیان مرصوص" اور ہمارے شاہینوں کی کامیابی کو پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے وہیں پر بھارت کی جانب سے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی فلم بھی فلاپ ہوئی ہے۔ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اطلاعات آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر مولانا پیر محمد مظہر سعید شاہ نے ڈپٹی کمشنر کانفرنس ہال میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ڈپٹی کمشنر ندیم احمد جنجوعہ اور ایس پی خواجہ محمد صدیق بھی موجود تھے۔

پیر مظہر سعید شاہ نے کہا کہ ہمارے شہداء ہمارا فخر ہیں ان کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ بھارت کے ساتھ جنگ کے دوران پوری قوم کا جذبہ جہاد دیدنی تھا اور ملک و ملت کی سلامتی کیلئے پاک فوج کے پیچھے قوم سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی رہی۔ صحافیوں نے ذمہ دارانہ رویے کے ساتھ فتح میں اپنا حصہ ڈالا جس پر ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ صحافی مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے اور بھارت کے مظالم کو پوری دنیا پر اجاگر کریں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے مساجد، معصوم بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا جبکہ پاک فوج نے ان کی دفاعی تنصیبات پر کاری ضرب لگائی ہے۔ہمارے شاہینوں نے معصوم شہیدوں کا بدلہ لیا ہے جس پر ہم سب کو فخر ہے۔

پیر مظہر سعید شاہ نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔ کشمیریوں کو اگر ان کا حق خودارادیت نہ دیا گیا تو پوری دنیا کے امن کو خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی بدقسمتی ہے کہ ان کا وزیراعظم اپنی ہی عوام کو قتل کر رہا ہے۔ دنیا پر ثابت ہو گیا ہے کہ پاک فوج ہماری محافظ جبکہ انڈین فوج مقبوضہ کشمیر کے عوام پر ظلم ڈھا رہی ہے۔ پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے کشمیریوں کے مکان شک کی بنیاد پر بارود سے اڑا دیے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلے جنگ کے دوران نقصان بھی ہوتا ہے جس کو پوری قوم نے بخوشی قبول کیا ہے۔ بھارتی جارحیت کے نتیجے میں آزاد کشمیر میں 31 افراد شہید، 125 افراد زخمی اور 235 مکانات متاثر ہوئے ہیں۔ اس دوران حکومت نے عوام کی حفاظت کیلئے 02 گاوں سے آبادیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا تھا۔ نیلم میں رتہ پانی سے 253 افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔ نیلم میں 2 افراد شہید، 6 افراد زخمی اور 13 مکانات مکمل، 83 جزوی طور پر متاثر، 24 دکانیں جزوی طور پر متاثر ہوئی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مظہر سعید شاہ نے مسئلہ کشمیر نے کہا کہ بھارت کے پر اجاگر پاک فوج

پڑھیں:

ماس ٹرانزٹ پروگرام، مسئلہ کا حل

نئے نظام کے نفاذ کے پہلے دن تک ای چالان کی رقم سوا کروڑ روپے تک پہنچ گئی۔ اس بات کا امکان ہے کہ کراچی میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کا تصور ختم ہوجائے، اس بناء پرکہا جاسکتا ہے کہ ایک مہینے میں ٹریفک خلاف ورزیوں پر چالان کی رقم پچاس کروڑ روپے سے زیادہ ہوجائے گی۔

ٹریفک پولیس کے جاری کردہ اعداد وشمارکے مطابق سب سے زیادہ چالان سیٹ بیلٹ نہ باندھنے، ہیلمٹ نہ پہننے، اوور اسپیڈنگ، سگنل توڑنے، ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون پر بات چیت کرتے اورکار میں ٹنٹد گلاس لگانے کے الزامات کی بناء پر ہوئے۔ کراچی میں ایکسپریس نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال کے 8 مہینوں کے دوران 697 افراد زندگی سے محروم ہوئے۔ اسی طرح 10 ہزار 400 سے زائد شہری حادثات میں زخمی ہوئے۔

ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ ہلاکتیں ٹرالرکی ٹکر سے ہوئیں، پھر واٹر ٹینکر سے زیادہ حادثات ہوئے۔ مرنے والوں میں اکثریت موٹر سائیکل سوار اور ان کے ساتھ سفر کرنے والے افراد تھے۔ کراچی میں ہمیشہ سے یہ ریت رہی ہے کہ کسی گنجان علاقے میں ٹرالر یا ٹینکر نے کسی موٹر سائیکل والے کوکچل دیا تو ہجوم اس ٹرالر اور ٹینکر ہی کو نذر آتش نہیں کرتا بلکہ قریب میں جتنی بھی گاڑیاں موجود ہوتی ہیں وہ ہجوم کی زد میں آجاتی ہیں۔

سندھ کی حکومت نے ٹرالر اور ٹینکرز کو بچانے کے لیے ان گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کے الزام میں گرفتار ہونے والے افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمات درج کرنے کی پالیسی اختیارکی ہوئی ہے۔ جب کسی گاڑی کو ہجوم آگ لگاتا ہے تو عمومی طور پر حقیقی ملزمان تو فرار ہوجاتے ہیں پولیس بھی جائے حادثہ کے قریب نوجوانوں کو گرفتارکر لیتی ہے۔ جو افراد پولیس والو ں کو ’چمک‘ کا نذرانہ پیش کرتے ہیں انھیں خاموشی سے گھر جانے کا موقع مل جاتا ہے۔

سندھ حکومت نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے بھاری جرمانے عائد کرنے کا قانون نافذ کیا ہے۔ اس قانون کے تحت 5 ہزار سے 50 ہزار روپے تک جرمانہ ہوسکے گا۔ اس قانون کے مطابق ٹریفک چالان کا ٹکٹ ملنے پر شہری ہیلپ لائن 1915 پر رابطہ کرسکتا ہے۔ بعدازاں ڈیوٹی افسر اس کے بارے میں حتمی فیصلہ کرسکتا ہے۔ اس قانون کے تحت ہیلمٹ نہ پہننے پر 10 ہزار، سگنل توڑنے پر 5 ہزار یا 50 ہزار، غلط سمت میں موٹر سائیکل چلانے پر 25 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ پاکستان بھر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر اتنے بڑے جرمانوں کی روایت نہیں رہی، اس بناء پر پورے شہر میں ایک شوروغوغا مچ گیا ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں نے اس قانون کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا تقریباً ایک جیسا مؤقف ہے کہ شہر میں سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں اور ہر بڑی چھوٹی سڑک پر سیوریج کا پانی بہنا عام سی بات بن گئی ہے ، پھر سندھ حکومت نے سڑکوں اور انڈر پاس کی تعمیر کے جتنے منصوبہ شروع کیے ہیں ان میں سے بیشتر وقت پر مکمل ہی نہیں ہوسکے۔ گھگھر پھاٹک سے لے کر حب چوکی، سہراب گوٹھ سے لے کر سی ویو تک ایک جیسے حالات ہیں ۔ پھر یہ کہا گیا کہ شہر کی بیشتر شاہراہوں پر سگنل کام نہیں کرتے۔ شاہراہ فیصل جیسے اہم شاہراہ پر رات کو اسٹریٹ لائٹس بند رہتی ہیں۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کی کونسل نے ایک قرارداد میں متفقہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ ای چالان بھاری جرمانوں کا نوٹیفکیشن واپس لیا جائے۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ لاہور میں جرمانوں کی رقم کراچی کے مقابلے میں بہت کم ہے ،سندھ حکومت کراچی کے شہریوں کے ساتھ اس سلوک پر نظر ثانی کرے۔ ڈپٹی میئر سلمان عبد اللہ مراد کی زیر صدارت کونسل کے اس اجلاس میں اس قرارداد کی منظوری سے کراچی کے عوام کے موڈ کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ قرارداد حکومت سندھ کے فیصلے پر عوام کے عدم اعتماد کا اظہار ہے مگر میئر صاحب اس قرارداد کی منظوری کو غلط فہمی قرار دے کر کونسل کو مذاق بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایک وقت تھا جب کراچی کا ٹریفک نظام ملک میں سب سے بہتر تھا۔گاڑیوں کا سگنل پر رکنا، ون وے کی خلاف ورزی نہ کرنا، موٹر سائیکل سواروں کا فاسٹ ٹریک پرگاڑی دوڑانے کے بجائے سڑک کے بائیں جانب چلنا، ایک معمول سی بات تھی۔ اس وقت جرمانے کی رقم کم ہوتی تھی مگر ٹریفک پولیس کے اہلکار چوکس ہوتے تھے۔ پھر شہر میں سگنل فری کاریڈور کا تصور آیا۔ پٹرول اورگیس کی قیمتیں بڑھنے لگیں۔ ٹریفک پولیس کے اہلکار غفلت کا مظاہرہ کرنے لگے، یوں ٹریفک قوانین کی پابندی کا تصور ختم ہوتا چلا گیا۔ پھر اس کے ساتھ بسوں کے کم ہونے، سرکلر ریلوے کے بند ہونے سے متوسط اور نچلے طبقے کے لیے سستی سواری موٹر سائیکل بن گئی۔ اب میاں بیوی چار بچوں کا موٹر سائیکل پر سفر کرنا معمول بن گیا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت یوں تو 71سے 77 تک ، پھر 1988سے 1991تک، 1993 سے 1996 تک برسر اقتدار رہی۔ 2008 سے پیپلز پارٹی سندھ میں مسلسل برسر اقتدار ہے۔ آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے بعد نئے قومی مالیاتی ایوارڈ کے نفاذ سے صوبے کی آمدنی میں اربوں روپے کا فائدہ ہوا ہے مگر پیپلز پارٹی نے کراچی شہر کو اپنایا (Ownership) نہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ آبادی کا بڑا حصہ چین کی مال برداری کے لیے تیار کردہ چنگ چی پر سوار ہونے پر مجبور ہے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کراچی کے عوام کو گرین لائن کا تحفہ دیا جو سفرکا جدید اور آرام دہ ذریعہ ہے۔

وفاقی حکومت نے اس منصوبے کو اگلے مرحلے میں سعید منزل تک بڑھانے کے لیے کام شروع کیا تو سندھ حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردیں، اب بہرحال سندھ حکومت کو احساس ہوا ہے کہ اس منصوبے کو جاری رہنا چاہیے۔ ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت سندھ حکومت کو ہر سال کھربوں روپے کی رقم ملتی ہے،آخر یہ رقم کہاں خرچ ہوتی ہے؟ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 7سال قبل ریڈ لائن کے منصوبہ کی تعمیر کا اعلان کیا، مگر یہ منصوبہ شہریوں کے لیے وبالِ جان بن گیا۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے وزیراعلیٰ کے ہمراہ بغیر پروٹوکول خاص طور پر شام کے اوقات میں ریڈ لائن کا دورہ کریں تو انھیں اندازہ ہوکہ عوام کس اذیت سے گزرتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملازمتوں میں میرٹ کے تصور کو ختم کیا۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کی افادیت ختم ہوچکی ہے۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں پبلک سروس کمیشن سے کامیاب ہوکر ملازمت حاصل کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر اور ڈی ایس پیزکی فہرست کی چھان بین کی جائے تو اکثر کا تعلق کسی نہ کسی طرح حکمراں وزراء یا اراکینِ اسمبلی یا پارٹی کے عہدیداروں سے نکلے گا۔ یوں ان وجوہات کی بناء پر کراچی کے عوام کا پیپلز پارٹی کی حکومت پر سے اعتماد ختم ہوگیا۔ اگرچہ غیبی قوتوں کی سربراہی میں پیپلز پارٹی نے اس شہر سے قومی اسمبلی کی کئی نشستیں جیتیں ہیں اور میئر بھی ان کے ہیں مگر حقائق کچھ اور ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے جرمانہ ہونا چاہیے مگر جرمانے کی رقم کا تعین حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ حکومت کو غور کرنا چاہیے کہ کم ازکم جرمانہ 50 روپے ہوتا اور متعدد بار چالان ہونے پر جرمانے کی شرح بڑھتی جائے اور اگر 9 ماہ تک کوئی فرد ٹریفک کی مسلسل خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو تو اس کا شناختی کارڈ بلاک ہوجانا چاہیے مگر اس کے ساتھ ہی ٹریفک قوانین کے نفاذ کے لیے تشریحی مہم ضروری ہے۔ یہ مہم مساجد، اسکولوں،کالجوں، یونیورسٹیوں اورکمیونٹی سینٹرز میں ہونی چاہیے۔ اس کام میں سول سوسائٹی کو شریک کرنا چاہیے۔

مساجد کے پیش امام بھی اس مہم میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایک اہم معاملہ پولیس کا شہریوں کے ساتھ بیہمانے سلوک ہے، یہی وجہ ہے کہ پولیس اگر کوئی صحیح کام بھی کرتی ہے تو عوام اسے قبول نہیں کرتی۔ مگر ٹریفک چالان قوانین کے نفاذ کا مسئلہ حقیقی حل نہیں ۔ حکومت نے 500 جدید بسیں چلانے کے اعلان کیے لیکن کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔

کراچی میں فوری طور پر 15 سے 20 ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔ پھر دنیا کے جدید شہروں کی طرح اب کراچی میں بھی جدید ماس ٹرانزٹ منصوبہ کا آغاز ہونا چاہیے۔ شہر میں انڈر گراؤنڈ ٹریک، الیکٹرک ٹرام اور Elevated Railwayکے نظام کی فوری ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی دہلی، ممبئی اور کلکتہ کی طرح ماس ٹرانزٹ کے جدید نظام کو قائم کر کے عوام کے دل جیت سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • آئینی ترمیم کی منظوری : نمبر گیم پوری کرنے کیلئے حکومت نے پلان بی پر کام شروع کردیا،اپوزیشن کے4ممبران سے رابطوں کا انکشاف
  • 27ویں ترمیم کی منظوری کا معاملہ؛ نمبر گیم پوری کرنے کیلئے حکومت نے پلان بی پر کام شروع کردیا
  • بھارت نے نہتے کشمیریوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے، حریت کانفرنس
  • چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان کی والدہ کاانتقال
  • مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی وندے ماترم مہم ،عمر عبداللہ کا انکار
  • شمالی دارفور: آر ایس ایف کے حملوں کے بعد 16 ہزار افراد تاویلہ پہنچ گئے
  • مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی “وندے ماترم” مہم،ریاستی حکومت کا انکار
  • ہانگ کانگ سکسز، بھارت کو مسلسل تیسری شکست، نیپال کیخلاف 45 رنز پر ڈھیر
  • ماس ٹرانزٹ پروگرام، مسئلہ کا حل
  • جمہوری قوتوں کو مجوزہ 27ویں ترمیم کیخلاف بھرپور جدوجہد کرنی چاہیے، کاشف سعید شیخ