Express News:
2025-06-01@05:05:20 GMT

ایوانِ صدرکی داستانیں

اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT

ملک بھر میں مخلص سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکنوں پر نظر ڈالی جائے تو بہت کم اصحاب ایسے نظر آتے ہیں جنھوں نے زندگی کا بیشتر حصہ مظلوم طبقات کی جدوجہد کی حمایت میں صرف کیا اور اہم ترین عہدوں پرکام کیا مگر ان کے کردار پرکوئی سیاہ دھبہ نظر نہیں آتا۔ سفید بالوں والے فرحت اللہ بابر شاید 70 دہائیاں گزار چکے اور اب 80 ویں دہائی میں داخل ہوئے ہیں۔

فرحت اللہ بابر بنیادی طور پر انجینئر ہیں، انھوں نے 1965میں سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ فرحت اللہ بابر نے سابقہ صوبہ سرحد کے محکمہ اطلاعات کے ایک افسرکی حیثیت سے عملی زندگی کا آغازکیا۔ جب سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ایک اہم مشن پر پشاور آئے تو محکمہ اطلاعات کے ایک افسرکی حیثیت سے انھیں پشاورکے گورنر ہاؤس بھیجا گیا۔ بابر صاحب نے ایک مختصر وقت میں جامع پریس نوٹ تیارکیا جس پر وزیراعظم بھٹو ان کی صلاحیتوں کے مداح ہوگئے۔

 80ء کی دہائی میں مارشل لاء لگنے کے بعد بابر صاحب سعودی عرب چلے گئے۔ جب 1985 میں مارشل لاء ختم ہوا تو فرحت اللہ بابر پاکستان واپس آگئے۔ انھوں نے پشاور سے انگریزی کا ایک معیاری اخبار جاری کیا، مگر جنرل ضیاء الحق حکومت نے اس اخبارکو زیادہ عرصہ چلنے نہیں دیا۔ فرحت اللہ بابر پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بے نظیر بھٹو کے ترجمان رہے اور پھر جب آصف زرداری ملک کے صدر بنے تو بابر صاحب کو صدرکا ترجمان مقررکیا گیا۔

بابر صاحب اتنے اہم عہدوں پر تعینات رہے مگر ان کی شخصیت ہمیشہ منفرد رہی۔ ان پرکبھی بھی کسی بھی قسم کی بدعنوانی میں ملوث ہونے کا الزام نہیں لگا۔ فرحت اللہ بابرکہتے ہیں کہ جب صدر آصف زرداری نے انھیں اپنا ترجمان مقررکیا تو ان کا خیال تھا کہ وہ زیادہ عرصے اس عہدے پرکام نہیں کرسکیں گے، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے ایوانِ صدرکا وزیٹنگ کارڈ بھی نہیں چھپوایا تھا۔ فرحت صاحب کہتے ہیں کہ جب سے وہ بے نظیر بھٹو شہید کے ترجمان رہے تو وہ روزانہ رات کو اپنی ڈائری لکھا کرتے تھے اور وہ یہ سوچتے تھے کہ جب وہ کسی عہدے پر نہیں ہوں گے تو اس ڈائری کی مدد سے ایک کتاب ضرور مرتب کریں گے۔

بابر صاحب کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ بے نظیر صاحبہ نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے مشاہدات کوکتاب کی شکل میں شایع کریں تو بابر صاحب کا جواب تھا کہ جب وہ کسی عہدے پر نہیں ہونگے توکتاب لکھیں گے۔ یوں اب ان کی صدر زرداری کے سابقہ صدارت کے دورکے اہم واقعات اور اس وقت کے پس منظر اور ان واقعات کے اثرات کے حوالے سے یہ تاریخی کتاب شایع ہوئی۔ اگرچہ فرحت اللہ بابر پیپلز پارٹی کے انسانی حقوق سیل کے سربراہ ہیں مگر عملی طور پر وہ پیپلز پارٹی کی پالیسیوں سے بہت دور ہیں۔ لاپتہ افراد کا معاملہ ہو، سیاسی کارکنوں پر تشدد یا ان کی گرفتاریاں، سب سے پہلے آواز بلند کرنے والوں میں بابر صاحب شامل ہیں، وہ انسانی حقوق کمیشن HRCP کے فعال رکن ہیں۔

سابق سینیٹر اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر کی تقریباً 500 صفحات پر مشتمل انگریزی کتابZardari Presidency-Now It Must be Toldایوانِ صدر میں ان کے دور میں ہونے والے واقعات، ان واقعات کے پس منظر اور اس کے ملک پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں ہے۔ فرحت اللہ بابر نے اپنی کتاب کے بارے میں کہا ہے کہ کتاب نہ تو ’’ ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کا پرچار ہے اور نہ ہی کسی ویلن villain کی ’’ عجب کرپشن کی غضب کہانی‘‘ ہے۔ زرداری نہ فرشتہ، نہ ولی وہ ایک انسان ہے جو جہاں خوبیوں کا مالک ہے وہاں وہ بشری خامیوں سے مبرا بھی نہیں،کتاب کے بارے انھوں نے بتایا کہ اس میں زرداری کی شخصیت کے علاوہ باقی 9 سیکشنز میں مختلف بڑے بڑے اور دور رس اہمیت کے حامل واقعات کو پس منظر اور پیش منظرکے ساتھ ساتھ قلمبند کیا گیا ہے۔

ان میں درج ذیل بھی شامل ہیں۔ ایبٹ آباد چھاؤنی میں اسامہ بن لادن کی برآمدگی، میموگیٹ اسکینڈل، زرداری اور افتخار محمد چوہدری کے درمیان جنگ، ثالثی کی کوششیں اور بالآخر زرداری کا طبل جنگ کہ enough is enough  اور جسٹس چوہدری کا گھوڑے سے اترنا، ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ، اس کی فوری رہائی کے لیے امریکی سفیرکا غیر معمولی اضطراب اور اس پر زرداری کی حیرت، تاریخ کا انوکھا واقعہ، پارلیمان کے اندر وزیر اعظم یوسف گیلانی کا ’’ ریاست کے اندر ریاست نا منظور‘‘ کا نعرہ مستانہ، صدر جنرل پرویز مشرف کو ایوان صدر سے نکالنے کی اندرونی کہانی، انتہائی راز داری سے اس کے خلاف تیارکردہ چارج شیٹ کے چیدہ نکات پہلی بار منظر عام پر، 15 مارچ 2009 کی فیصلہ کن، پراسرار اور ڈرامائی رات کا لمحہ بہ لمحہ تفصیلی ذکر، اس رات ایوان صدر میں چیف جسٹس کی بحالی کے حوالے سے فجرکی نماز تک جاری اجلاس کی لمحہ با لمحہ روداد،کون کہاں کھڑا،کیا چاہتا تھا؟ ، فوجی ٹیک اوورکے خوف سے نصف سے زائد معتمدین، جن کو بلایا گیا تھا، کا اجلاس میں شرکت سے گریز اور زرداری کا ملال۔ فرحت اللہ بابر نے کتاب میں کچھ حیرت انگیز اور پراسرار واقعات کا بھی ذکر کیا ہے۔

صدر زرداری سے منسوب بعض ناقابل یقین بیانات جس کا صدارتی ترجمان ہونے کے باوجود نہ ان کو علم تھا اور نہ وضاحت کرسکتے تھے، کتاب میں ایک پورا باب ''Enigma inside a Mystery'' کے عنوان سے تحریرکیا ہے۔ خارجہ پالیسی کے باب میں زرداری کے چند دور رس اقدامات کا تفصیلی ذکرکیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ صدر زرداری کے ایٹمی جنگ میں پہل نہ کرنے پر بھارت کو بات چیت کی دعوت اور اس کا خوفناک رد عمل سامنے آیا۔ صدر زرداری نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مفاہمت کی خفیہ کوششیں کیں۔ اس کتاب میں مزید کہا گیا ہے کہ میانمارکی جمہوری لیڈر آن سانگ سو چی سے طویل خصوصی ملاقات اور بینظیر جمہوری ایوارڈ سے نوازنا، زرداری اور سوچی کے درمیان طویل گفتگو، دل سے نکلی باتیں جسے مصنف نے ان ہی کے الفاظ میں قلمبندکیا اور جو دونوں کی ذاتی زندگی کے ایسے نئے پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے جس کا شاید پہلے کسی کو علم نہ ہو۔ زرداری کے بارے میں کئی لوگوں نے کہا کہ وہ ایک حادثاتی صدر تھے جو اپنی بیوی بینظیر بھٹوکی شہادت کے حادثے کے بعد صدر بنے۔ فرحت اللہ بابر نے اعتراف کیا ہے کہ اگر زرداری حادثاتی صدر تھا تو وہ خود بھی حادثاتی صدارتی ترجمان تھا۔ جب تک شہید بینظیر بھٹو زندہ تھیں اس کا شمار زرداری کے قریب لوگوں میں ہرگز نہ تھا، بلکہ کسی حد تک ان کے درمیان ایک فاصلہ، بیگانیکی اور لاتعلقی تھی۔

مصنف کہتا ہے کہ اس کا اظہار خود صدر زرداری نے ایک سے زائد بار کیا جب اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’ فرحت اللہ تم بھی تو مجھے لیڈر نہیں مانتے تھے۔‘‘ جب پچھلے سال دوسری بار صدر منتخب ہونے پر میں نے زرداری ہاؤس میں ان کو مبارکباد دی تو میری طرف دیکھے بغیرگنگنا کر کہا، ’’ ہاں،کچھ لوگ تو اب بھی ہمیں لیڈر نہیں سمجھتے‘‘ مبارک سلامت کے شور میں کوئی نہ سمجھا کہ صدر زرداری نے کیا کہا،کیوں کہا۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ زرداری نے غلطیاں کی ہونگی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گیارہ سال قید میں رہنے کے باوجود کسی عدالت میں ان کے مبینہ جرائم کو ثابت نہیں کیا جا سکا۔

ان کو ناکردہ گناہوں کی ناحق بھاری سزا دی گئی ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ شہید ذوالفقار علی بھٹوکو ناکردہ گناہ کی سزا میں پھانسی دی گئی۔ عدالت عظمی نے تو 44 سال بعد اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا لیکن جن لوگوں نے عدالت پر دباؤ ڈال کر یہ کروایا وہ خاموش ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بھی سیاسی قائدین اورکارکنوں جن کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی گئی کی ایک طویل قطار نظر آتی ہے، اس قطار میں سب سے آگے کھڑا زرداری مسکراتا ہوا نظر آتا ہے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس ملک کے بڑے بڑے المیوں میں ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ سیاستدانوں کے علاوہ جن لوگوں نے ملک سے کھلواڑکھیلا، ان کا احتساب نہیں ہوا۔ انھوں نے کہا کہ تاریخ نویسی عجیب عمل ہے، اگر تاریخ نویس اسی دور میں رہا ہو جس کی وہ تاریخ لکھ رہا ہے تو وہ حالات و واقعات کو قریب سے تو دیکھتا ہے لیکن واقعات کا اس کی اپنی ذات پر اثر اس کے داستان پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔

دوسری جانب اگر تاریخ نویسی بہت پرانے ماضی کی داستان لکھ رہا ہو اور دوسروں کی لکھی اورکہی ہوئی باتوں پر انحصارکرتا ہے تو سیاق سباق اور اس دورکے کرداروں کے احساسات اور محسوسات سے بے خبر ہونے کی وجہ سے اس کا بیانیہ بھی نامکمل رہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کی کوشش رہی ہے کہ غیر جانبدار تاریخ لکھے، یہی وجہ ہے کہ اس نے یہ کتاب زرداری کی پہلی صدارت کے خاتمے کے 12 سال بعد لکھی تاکہ ذاتی ڈائری میں درج واقعات کا جن الفاظ میں اس وقت ذکر کیا تھا، ان کی مناسبت پر غورکرسکوں، لیکن اس کاوش میں کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ صرف قاری نے کرنا ہے۔

اگرچہ بابر صاحب نے یہ کتاب لکھ کر ایک تاریخی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اس کتاب کی قیمت 5,995/- روپے ہے۔ اس بناء پر صرف امراء کے چند افراد ہی اس کتاب سے مستفید ہوسکیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فرحت اللہ بابر نے زرداری کے کے درمیان نے کہا کہ انھوں نے کتاب میں کے بارے گیا ہے اور اس

پڑھیں:

‘اگلی بار میرے بارے مین بات کرتے ہوئے دو بار سوچیے،’ کامران اکمل کی بابر اعظم کے والد کو تنبیہ

قومی کرکٹ کے سابق کھلاڑی کامران اکمل نے بابر اعظم کے والد کی سوشل میڈیا پوسٹ پر سختی سے ردعمل دیتے ہوئے انہیں میرے بارے میں بات کرتے ہوئے دو دفعہ سوچنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جب آپ کے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلائی جارہی ہو تو خاموش رہنا کوئی راستہ نہیں۔

یہ بھی پڑھیے: ’ ہر دفعہ زہر ہی اُگلتے ہو ‘، بابر اعظم کے والد کامران اکمل پر پھٹ پڑے

کامران اکمل نے اپنی انسٹاگرام پوسٹ پر لکھا کہ میرے والدین نے مجھے کسی سے حسد کرنا نہیں سکھایا ہے، میں نے فخر کے ساتھ اپنے ملک کی نمائندگی کی ہے، اگلی دفعہ میرے بارے مین بات کرتے ہوئے اپنے الفاظ کا چناؤ محتاط انداز میں کریں۔

انہوں نے اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ بات کرنے کی واضح حدود ہوتی ہیں جنہیں آپ نے پار کردیا ہے، اپنی حد میں رہیں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل کامران اکمل نے بابر کے والد کو اپنے بیٹے کے کیریئر پر عوامی طور پر تبصرہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ خاندان کے افراد کو پیشہ ورانہ فیصلوں میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔

اس پر بابر اعظم کے والد نے انسٹا گرام پر ایک پرانی تصویر پوسٹ کی جس میں اپنی، بابر اعظم، اور کامران اکمل موجود ہیں۔

انہوں نے اس تصویر کے ساتھ قدرے طویل کیپشن میں کامران اکمل کا نام لیے بغیر لکھا کہ یہی ہے ’عظمتوں کا اصول جاوداں حضور، امیر کو شجاعتیں غریب کو وقار دو۔ کبھی ٹی وی پے بیٹھ کر مجھے مخاطب کر کے کہتے ہو کہ بابر کو کہو کے کپتانی چھوڑ دے‘۔

اعظم صدیق نے مزید لکھا ہے کہ ’ہر دفعہ زہر ہی اُگلتے ہو۔ ہم نے آج تک درگُزر سے کام لیا، ساتھ ہر جگہ بھائی بھی کہتے ہو، لوگ کہتے رہیں تم تو خیال کرو‘۔

یہ بھی پڑھیں:بابراعظم کو جوتے دینے سے انکار کس نے کیا تھا؟ کامران اکمل نے خاندانی راز بیان کردیا

بابر اعظم کے والد اعظم صدیق نے اشفاق احمد کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ ’ کامیاب لوگوں کی غیبت کرنا ناکام لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے‘۔

اس کے علاوہ انہوں نے ایک تُرک کہاوت کا حوالہ بھی دیا ہے، جس کے مطابق  ’کوئی یہ کہے کے میں آپ کا بھائی ہوں تو یہ بھی بتائے کہ وہ ہابیل ہے کہ قابیل‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بابر اعظم ردعمل کامران اکمل

متعلقہ مضامین

  • راولپنڈی: سگی بھاوج کو قتل کرنے والے ملزم کو سزائے موت
  • قومی کرکٹر بابراعظم فینز سے کیوں اُلجھے؟ وجہ سامنے آگئی
  • ‘اگلی بار میرے بارے مین بات کرتے ہوئے دو بار سوچیے،’ کامران اکمل کی بابر اعظم کے والد کو تنبیہ
  • ’ ہر دفعہ زہر ہی اُگلتے ہو ‘، بابر اعظم کے والد کامران اکمل پر پھٹ پڑے
  • الیکشن کمیشن میں عمر ایوب کیخلاف آرٹیکل 62، 63 کے تحت نااہلی کی درخواست سماعت کیلئے مقرر
  • کیمبرج پیپر لیک کا معاملہ ایوان میں پہنچ گیا؛ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا سخت نوٹس
  • صدر زرداری کو علاج کیلئے دبئی جانے سے کیوں روکا گیا تھا؟ فرحت اللہ بابر کی کتاب میں انکشافات
  • صدر آصف علی زرداری کو علاج کیلئے دبئی جانے سے کیوں روکا گیا ؟اہم کتاب میں انکشاف
  • شاہین، بابر اور رضوان کے نہ ہونے کا کوئی دباؤ نہیں، ٹی20 کپتان سلمان علی آغا