مودی کی سندور سیاست:بھارتی خواتین نے شرمناک قرار دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
نئی دہلی(نیوز ڈیسک) بھارتی خواتین نے مودی کی ’’ سندور سیاست‘‘ کو ہندو خواتین کے جذبات سے کھیلنے کی شرمناک کوشش قرار دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق پہلگام حملے کے بعد عوامی ردعمل کے پیش نظر مودی سرکار نے سیاسی فوائد سمیٹے کے لیے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کردیے اور اسی تسلسل میں سندور ڈراما رچایا گیا۔ مودی سرکار نے ہندو خواتین کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کی شرمناک کوشش کی۔
ہندو خواتین نے مودی کی سندور سیاست کو بری طرح مسترد کردیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مودی مرنے والوں کے لواحقین سے ملنے کے بجائے گھر گھر سندور بھیج کر جھوٹی ہمدردی بٹور رہا ہے۔
بھارتی خاتون کا کہنا ہے کہ میرا شوہر زندہ ہے، مودی کون ہوتا ہے مجھے سندور دینے والا؟۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کوئی ڈاکو ( مودی) کسی کے گھر میں سندور لے کر آیا ہو؟۔
خاتون نے کہا کہ مجھے شرم آتی ہے کہ ہمارے ملک کا وزیراعظم اتنی گری ہوئی باتیں کر رہا ہے۔ اگر مودی سندور لے کر آئیں گے تو ہم اس کا کیا کریں گے؟، یہ پھر میں مودی کو بتاؤں گی۔ میں ہندو ہوں مگر مودی کی حرکتوں پر شرم آتی ہے۔ اسے خود سمجھ نہیں، ہمیں کیا سمجھائے گا؟۔
نیہا سنگھ راٹھور نامی خاتون نے کہا کہ ہندو مذہب میں صرف اپنے پتی کا دیا ہوا سندور ہی لگایا جاتا کسی پرائے مرد کا نہیں۔ بِہار سے کروڑوں لوگ روزگار کے لیے باہر جاتے ہیں اور ان کی بیویاں شوہر کے نام کا سندور لگاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مودی ووٹ بینک حاصل کرنے کے لیے بہار کی خواتین کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مودی سرکار یہ سوال دبانا چاہتی ہے کہ بہار کے لوگ بے روزگار کیوں ہیں اور سندوری لال خواتین کو صرف سندور میں الجھانا چاہتی ہے۔
بھارتی خاتون کا کہنا تھا کہ مودی جی کے بھیجے گئے سندور پر پہلا حق اُن کی اپنی بیوی کا بنتا ہے۔ جب مودی اپنی بیوی کو ہی سندور نہیں دے سکتے تو ملک بھر کی خواتین کا ان کے بھیجے سندور پر کیا حق بنتا ہے؟۔
مزیدپڑھیں:بھارتی کرکٹراور مہوش ہوٹل میں ملتے پھر پکڑے گئے،ویڈیو وائرل
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مودی کی
پڑھیں:
بھارتی سکھ مذہبی آزادی سے محروم، مودی سرکار نے گرو نانک کے جنم دن پر یاترا روک دی
بھارت کی مودی حکومت نے ایک بار پھر سکھ برادری کو ان کے بنیادی مذہبی حق سے محروم کرتے ہوئے نومبر میں گرو نانک دیو جی کے پرکاش پورب پر پاکستان جانے والے یاتری جتھے کو سرحد پار کرنے سے روک دیا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف دہرا معیار ظاہر کرتا ہے بلکہ سکھوں کے ساتھ دہائیوں سے جاری ریاستی ناانصافی کی ایک تازہ مثال بھی ہے۔
دہرا معیار اور مذہبی آزادی کی پامالیسکھ برادری کا مؤقف ہے کہ بھارت ہمیشہ ان کے جذبات کو کچلتا آیا ہے، کبھی 1984 کے فسادات میں قتل عام، کبھی پنجاب کے پانیوں پر بندش اور کبھی یاترا پر پابندیوں کی صورت میں۔ اب سیکیورٹی کے نام پر ننکانہ صاحب جانے سے روکنا مذہبی آزادی کی صریح خلاف ورزی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ بھارتی حکومت ڈالروں کے حصول کے لیے پاکستان کے خلاف کرکٹ کھیلنے پر تیار ہو جاتی ہے مگر جب بات سکھ یاتریوں کی ہو تو سرحدیں بند کر دی جاتی ہیں۔
سیاسی ردعملپنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے اس اقدام کو دہرا معیار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کرکٹ میچز ممکن ہیں تو یاترا کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کہ سکھ برادری کے مقدس مواقع پر اس طرح کی رکاوٹیں بھارت کے جمہوری اور سیکولر دعوؤں کو جھوٹا ثابت کرتی ہیں۔
پاکستان کی فراخدلی اور سکھوں کی عقیدتپاکستان نے سکھ یاتریوں کے لیے کرتارپور کوریڈور کھول کر وہ سہولت فراہم کی جس کا خواب سکھ دہائیوں سے دیکھ رہے تھے۔ ہر سال ہزاروں سکھ پاکستان آ کر اپنے مقدس مقامات پر حاضری دیتے ہیں، جہاں انہیں مکمل عزت و احترام دیا جاتا ہے۔
بڑھتی بے چینی اور خالصتان تحریکماہرین کے مطابق بھارت کی پالیسیوں سے سکھ نوجوانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ یہ اقدامات خالصتان تحریک کو مزید توانائی دے رہے ہیں اور سکھ نوجوانوں میں علیحدگی پسندی کے جذبات کو ہوا دے رہے ہیں۔
عالمی برادری کا کردار
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری بھارتی حکومت کے ان امتیازی اقدامات کا سنجیدگی سے نوٹس لے اور سکھوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر کردار ادا کرے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت پاکستان سکھ یاتری