امریکی سینیٹر نے ایران اسرائیل جنگ کا ذمہ دار نیتن یاہو کو قرار دیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
معروف امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کا ذمہ دار اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کو قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ امریکا کو اس جنگ میں کسی بھی صورت ملوث نہیں ہونا چاہیے۔
سینیٹر سینڈرز نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری بیان میں کہا کہ نتن یاہو نے یہ جنگ ایران پر حملہ کر کے شروع کی۔ نیتن یاہو نے علی شمخانی کو قتل کرنے کے بعد جان بوجھ کر امریکا اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کو سبوتاژ کیا۔
برنی سینڈرزنے مزید کہا کہ امریکا کو کسی نئی اور غیر قانونی جنگ میں نہ فوجی طور پر اور نہ مالی طور پر گھسیٹا جانا چاہیے، خاص طور پر نیتن یاہو کی شروع کی گئی جنگ میں۔
برنی سینڈرز کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرق وسطیٰ میں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے اور عالمی برادری اس ممکنہ جنگ کے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نیتن یاہو
پڑھیں:
جس کے ہاتھ میں موبائل ہے، اس میں ہاتھ میں اسرائیل کا ٹکڑا موجود ہے: نیتن یاہو
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مغربی مقبوضہ بیت المقدس: اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکی کانگریس کے وفد سے ملاقات میں کہا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی لوگ موبائل فون رکھتے ہیں، بنیادی طور پر ان کے ہاتھ میں “اسرائیل کا ایک ٹکڑا” ہے۔
انہوں نے اس بیان کے دوران اسرائیل کی ادویات، ہتھیار اور بیٹری/فون بنانے کی صلاحیتوں کو سراہا۔
نیتن یاہو نے کہا کہ بعض ممالک نے ہتھیاروں کے اجزاء کی ترسیل روک دی ہے جس پر تنقید ہو رہی ہے، مگر انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل اس چیلنج پر قابو پانے کے قابل ہے کیونکہ “ہم ہتھیار بنانے میں اچھے ہیں”۔ اُنھوں نے شرکاء سے سوال کیا کہ کیا ان کے پاس موبائل فونز ہیں اور بتاتے ہوئے کہا کہ فونز، زرعی پیداوار اور دیگر اشیاء میں بھی اسرائیل کا حصہ ہوتا ہے۔
وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ امریکا کے ساتھ شیئر کی جانے والی انٹیلی جنس میں بڑا حصہ اسرائیل فراہم کرتا ہے اور دونوں ممالک دفاعی نظاموں میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق یہ روابط عالمی سطح پر کئی معاملات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب غزہ میں فوجی کارروائیوں اور ہتھیاروں کی ترسیل پر بین الاقوامی سطح پر سخت تنقید جاری ہے، اور بعض ملکوں نے اسرائیل کے خلاف سفارتی اور تجارتی دباؤ بڑھایا ہے۔