تاریخ کی کروٹ،وقت کی کڑواہٹ
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
پاکستانی طیارے،جن کی پروازیں پاک سرزمین پرمحدودرہیں،مگرجن کے میزائلوں نے سرحدپاردشمن کونشانِ عبرت بنایا،صرف عسکری مہارت کامظہرنہیں تھے،بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ،پاک چین حکمت عملی کاغیرعلانیہ تجربہ تھا۔ پاکستان کی فتح دراصل چین کی کامیاب عسکری مارکیٹنگ تھی۔اسی تجربے کے بعد چنگڈو ایئر کرافٹ کمپنی کے حصص میں40 فیصداضافہ محض اقتصادی اشاریہ نہیں،بلکہ اس بات کابین ثبوت ہے کہ اب معرکہ صرف بندوق اور بارودکا نہیں، برانڈاور بیانیے کابھی ہے۔
یادرہے کہ جب وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے خوداعتراف کیاکہ بڑی تعداد میں چینی فوجی ایکچوئل کنٹرول لائن پارکرکے انڈین حدود میں آگئے ہیں،تویوں محسوس ہواجیسے ہندوستان کی جغرافیائی خودداری کوبرفانی بوٹوں تلے روند دیا گیا ہو۔یہ صرف ایک سرحدی خلاف ورزی نہ تھی، بلکہ چینی خوداعتمادی کی فتح اورانڈین دعوں کی پسپائی تھی۔اس پوری پیش قدمی پر اگرکوئی چیز نمایاں نہیں تھی،تووہ انڈیاکاعسکری ردِعمل تھا۔ زبانیں جوپاکستان کے خلاف دہکتی تھیں،وہ چین کے آگے سہم گئیں۔
اس سلسلے میں ٹرمپ نے ثالثی کی پیشکش کی،گویاایک ایسابادشاہ جسے دوشہزادوں کی لڑائی میں صلح کرانے کا شوق ہو،مگرچین نے اس پیشکش کو یوں مستردکیاجیسے کوئی کہے ہم اپنے معاملات خودسلجھانے کے قابل ہیں،تم اپناراستہ لو۔ یہ اس بات کااعلان تھا کہ چین خودمختاربھی ہے، خود کفیل بھی،اورخودمدبربھی۔یہی متانت،یہی خوداعتمادی اسے اس خطے کا بلاشرکتِ غیرے قوت بنانے جا رہی ہے۔
اب ضرورت اس امرکی ہے کہ چین کی اس خوداعتمادی سے پاکستان کے مقتدربھی سبق حاصل کریں۔اپنے دل سے عالمی مالیاتی اداروں کا خوف دل سے نکال کرباہرپھینکیں جس طرح پاکستان نے پہلی مرتبہ امریکی اورمغربی اسلحہ سازکمپنیوں کے سفاکانہ رویے کودیکھتے ہوئے اپنارخ مغرب سے مشرق کی طرف کیا جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔
سیزفائرکے چنددن بعدچین نے ایک نئی سفارتی اورنفسیاتی حکمتِ عملی اپنائی،جب انڈیا، پاکستان سے نمٹنے میں مصروف تھا،چین نے ایک خاموش مگرفکری حملہ کیا،اروناچل پردیش کے27 مقامات کے نام چینی اورتبتی زبانوں میں تبدیل کر دیے۔ان میں پہاڑ،درے، ندیاں،جھیلیں،بستیاں اور رہائشی علاقے شامل ہیں۔یہ اقدام نہ صرف انڈیاکے جغرافیائی دعوں پرعلامتی ضرب تھابلکہ اس طرح بیجنگ نے دنیاکو ایک بارپھریہ پیغام دیاکہ نقشے صرف کاغذپرنہیں،حکمرانی کے ذہنوں میں بنتے ہیں۔اس عمل سے یہ ثابت ہواکہ چین اور پاکستان صرف علامتی طاقت نہیں بلکہ سافٹ پاورکے میدان میں بھی پوری قوت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔یہ ناموں کی تبدیلی فقط لسانی مشق نہیں،بلکہ تاریخی دعوے کا آہنی اظہارتھی،جواس وقت کی گئی جب انڈیاکی عسکری توجہ مغرب میں پاکستان پرمرکوزتھی۔یہ عمل گویا ٹرائیکا (انڈیا، اسرائیل، امریکا) کویہ کہہ رہاتھاجب تم مشرق کی طرف دیکھو گے،تمہیں زمین پروہ نام دکھائی دیں گے جو تمہارے نہیں،اورجب تم نقشہ کھولو گے، تمہارے لفظ تمہارے نہیں رہیں گے۔
نیپال،پاکستان اورچین تینوں ممالک انڈیاکے تین جانب واقع ہیں،اورتینوں سے اس وقت تناؤکی کیفیت ہے۔مگرسوال یہ ہے کہ انڈیا تین طرفہ محاذ کھول کرکس خواب اور جغرافیائی خوش فہمی میں مبتلاہے؟ نیپال ایک چھوٹاساملک سہی،مگراس کی سفارتی خودداری نے انڈین پالیسی سازوں کے ہوش اڑادیے۔پاکستان عسکری ونظریاتی لحاظ سے مضبوط تر ہوچکاہے،اورچین ایک عالمی طاقت ہے جومعاشی وعسکری ہرمیدان میں انڈیا کومات دے چکاہے۔یہ ایساہی ہے جیسے ایک مچھر،تین شیرکی کمین گاہوں میں جا گھسے اور سمجھے کہ بادل ہوں،برس کرنکل جاؤں گا۔
بادی النظرمیں یہ جھڑپ انڈیااورپاکستان کے درمیان تھی،مگردرحقیقت یہ پاک چین کی سہ فریقی حکمتِ عملی کی کامیابی تھی۔عسکری سطح پر پاکستانی افواج کی میدانِ عمل میں خصوصی سٹرٹیجک کارکردگی میں چینی ہتھیاروں جے10 اور جے17کی کامیاب آزمائش کی کامیاب جانچ اورعالمی مارکیٹ میں تشہیر،چینی ایوی ایشن کمپنی کے حصص میں غیرمعمولی ایوی ایشن کمپنی کے حصص میں غیرمعمولی اضافہ اوردوسراسفارتی سکوت میں نفسیاتی بالادستی پربھارت کو دومحاذوں (پاکستان واروناچل)پرالجھاکر عالمی سطح پراس کی علاقائی طاقت کی تصویر کو دھندلا کرنا اور تیسرا دنیاکویہ باورکرواناکہ پاکستان کے عملی مظاہرے کے بعدچین اب نہ صرف صنعتی طاقت ہے،بلکہ جنگی بیانیے کاقائدبھی بن گیاہے اوریقینا یہ ٹارگٹ دونوں ملکوں کے اشتراک سے حاصل ہواہے۔یہ تمام پہلواس امرکاواضح اشارہ ہیں کہ چین نے ایک غیرعلانیہ جنگ پاکستان کے میدانِ جنگ میں کارکردگی کی بناپربغیرفائرنگ کیے جیتی ہے۔
پاکستان کی عسکری کامیابی بجا، مگر پاکستان کی اس بہادرانہ کاوش کے بعداس معرکہ کاکوئی اصل فاتح ہے تووہ بیجنگ ہے جس نے نہ بندوق چلائی،نہ ایندھن جلایا،نہ سپاہی کھپائے مگر اس کی کمپنی کے شیئرزآسمان کوچھونے لگے،اس کے ہتھیاروں نے عملی سند حاصل کی،اس کے سیاسی بیانیے کوتقویت ملی،اوراس کے جغرافیائی خوابوں میں نئے رنگ بھرے گئے ۔ یہی وہ حکمت ہے جسے سیاستِ مشرق کہتے ہیں،جہاں خاموشی گولی سے زیادہ موثر،اورنقشہ جنگ سے زیادہ کاری ہوتی ہے۔اسی لئے کہاگیاہے کہ فتح اس کی جو خاموشی سے بازی لے جائے۔
جنگیں صرف توپ سے نہیں جیتی جاتیں، ان کے پیچھے وہ دماغ ہوتے ہیں جوتاریخ کامزاج بدل دیتے ہیں۔پاک چین نے خاموشی سے، حکمت سے،اوروقت کے مزاج کوسمجھ کر شایدیہی کچھ کردکھایاہے۔ایک بصیرت انگیزتمثیل یادآتی ہے۔’’جب وقت فیصلہ دیتاہے،تو قومیں اسے تاریخ سمجھ کرمحفوظ کرتی ہیں،مگرجوقومیں اسے نظراندازکریں،وہ عبرت بن جاتی ہیں‘‘۔پاک چین دوستی کے اشتراک نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا،اوراپنے بیانیے،ہتھیار،اورحکمت کوایک نئی سطح پرپہنچادیا۔اب یہ عالمی منظرنامے کاایک ناقابلِ انکارسچ ہیاورشایدایشیاکامرکزبھی بدل رہاہے۔
انڈیاکی خاموشی کوبعض حلقے حکمت کہتے ہیں،مگرتاریخ کہتی ہے کہ حکمت وہی جووقت پرہو، جوابی ہو،اورجیت پرمنتج ہو۔اگر دشمن تمھاری حدودمیں داخل ہوجائے،اورتم زبان سے بھی ردنہ کرسکو،تو یہ خاموشی نہیں،بزدلی ہے۔ پاکستان کے خلاف ہرروز جنگی نغمے گانے والے ٹی وی چینلزاورجرنیل،چین کے خلاف گویاگنگامیں ڈبکی لگاکرپرہیزگارہوگئے۔یہ خاموشی بتارہی ہے کہ دشمن کوجانچنے کی نہیں،پہچاننے کی ضرورت ہے۔
انڈیاکی سرحدی شجاعت کاچین کے آگے دم سادھ لیناخاموشی کاجغرافیہ نہیں بلکہ ہندوئوں کے مکارسیاسی گروچانکیہ کااصول ہے کہ طاقتور کو فوری خدا مان کرسجدے میں پڑجاؤ،یہی وجہ ہے کہ دنیاکایہ واحدمذہب ہے جس کے خدائوں کی تعدادکروڑوں میں ہے جس میں چوہے اورسانپ بھی شامل ہیں اورجونہی اس کوکمزوردیکھوتواسی خداجس کے آگے سجدہ ریز ہوتے رہے ہو،انہیں ٹھوکروں کی زدمیں لاتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں ایک لمحہ تاخیرنہ کرو۔یہی وجہ ہے کہ عالمی میڈیامیں خودمودی کواسلحے کے ڈھیرکے سامنے خاص قسم کی پوجااورسجدوں کی تصاویرعام بھی ہوئیں اوررافیل طیاروں کی حفاظت کیلئے پوجا کے طورپرانڈیاکاوزیردفاع ان جہازوں کے ٹائروں کے نیچے انڈے اوردیگراشیا رکھ کرعبادت کرتا رہا اورعالمی میڈیا اب ایک مرتبہ پھران جاہلانہ رسوم کواپنے ناظرین کودکھارہاہے۔یہ صرف انڈیا کامسئلہ نہیں،ہراس قوم کاہے جہاں میڈیا مصلحت کا،سیاسی نعرے کا،اورعوام خاموشی کا شکار ہو۔
پاکستان اورچین کی برف پوش وادیوں میں توپیں شایدنہ بولیں،مگرتاریخ اورسچائی برف میں بھی بولتی ہے اوروہ تاریخ یہ کہہ رہی ہے کہ تم وہ ہوجوکمزورکے خلاف بپھرے،اور طاقتور کے سامنے سہم گئے۔تم وہ ہوجوجغرافیے پردعوی تورکھتے ہومگرجغرافیائی حکمت سے نابلدہو۔تم وہ ہوجوچین کوچیلنج نہیں،خاموشی میں سلام کرتے ہواورپاکستان کوکھلے عام دھمکیاں دیکراپنے اقتدارکادوام چاہتے ہو۔انڈیاکاپاکستان کے خلاف عسکری جوش خطے میں عدم استحکام کاباعث ہے،جبکہ چین کے سامنے اس کی خاموشی دوعملی سیاست اورنعرہ فروش عسکریت کی عکاس ہے۔ان حالات میں برصغیرمیں توازنِ طاقت تیزی سے مشرق کی طرف جھک رہاہے اورپاک چین دوستی وہ آفتاب بن رہاہے،جس کی روشنی نہ صرف مشرق بلکہ جنوب ایشیاکی تاریخ کوبھی نئے سانچے میں منوراورڈھال رہی ہے۔
اس مقالے کے تجزیے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ جنوبی ایشیاکی حالیہ فضائی کشیدگی میں جہاں پاکستانی قوم نے سیسہ پلائی ہوئی دیوارکی طرح تمام سیاسی اختلافات کوبالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی یکجہتی کے ساتھ رب تعالی کے سامنے اپنی پوری عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے آپریشن بنیان المرصوص کے سائے تلے فتح مبین کا سہرااپنے سروں پرسجاکر دشمنوں کویہ واضح پیغام دیاہے کہ وطن کی حفاظت کیلئے ہم سب ایک ہیں،اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کرناہوگاکہ چین نے بھی عسکری صنعت،جغرافیائی سیاست، اور سفارتی فہم کاایساامتزاج پیش کیاجوکلاسیکی سیاست میں کم ہی نظرآتاہے۔
اب ضرورت اس امرکی ہے کہ قوم کے اندراس اتفاق کے ماحول کومزیدطاقتوربنانے کیلئے سیاسی انارکی کوختم کرنے کیلئے ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جس سے قوم میں مزیدیکجہتی اور سیاسی نااتفاقی جودشمنی کی حدوں کوچھورہی تھی،ہمیشہ کیلئے اگرختم نہیں تواس میں خاطر خواہ کمی لائی جائے۔جس طرح ہم نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات کی نئی بنیادرکھی ہے،چین اورترکی کی مددسے اپنے تمام دوستوں کے ساتھ ایک مرتبہ پھرنہ صرف ہاتھ ملائے ہیں بلکہ گلے لگ کرشکایات کوہمیشہ کیلئے دورکرنے کیلئے ایسے اخلاص کی ضرورت ہے جس کیلئے رب نے تمام امت مسلمہ کوایک دوسرے کابھائی بھائی قراردیاہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کے نہیں بلکہ کمپنی کے کے سامنے ہیں بلکہ کے ساتھ کے خلاف پاک چین چین نے چین کی کہ چین چین کے
پڑھیں:
ازدواجی زندگی میں لچک، سمجھوتہ اور مالی استحکام ضروری ہے، فضیلہ قاضی و قیصر نظامانی
لاہور(نیوز ڈیسک)سینئر اداکارہ فضیلہ قاضی اوران کے شوہر معروف فنکار قیصر خان نظامانی نے نوجوان جوڑوں کو ازدواجی زندگی سے متعلق مفید مشورے دیے۔
فضیلہ قاضی نے کہا ہے کہ محبت کا مطلب یہ نہیں کہ ہر کام ایک جیسا ہو بلکہ ایک دوسرے کو جگہ دینا، برداشت اور لچک دکھانا ضروری ہے۔
شادی کا اتنا ذکر کر لیا، شاید اسی وجہ سے نہیں ہو رہی: لائبہ خان
انہوں نے کہا کہ ہم دونوں مختلف پس منظر سے آئے لیکن ایک دوسرے کو سمجھ کرخود کو بدلا اور یہی کامیاب رشتے کی بنیاد ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میاں بیوی کے درمیان نہ صرف ایک دوسرے کو وقت دینا ضروری ہے بلکہ خود کو بھی وقت دینا رشتے کو مضبوط کرتا ہے۔
قیصرنظامانی نے کہا کہ گھرایک ملک کی طرح ہوتا ہے جس کی بنیاد معیشت پر ہے، مرد کا مالی طور پرمستحکم ہونا خاندان کے تحفظ کے لیے اہم ہے۔