اسرائیل کا ایرانی نیوکلیئر سائٹ پر حملہ،ایک اور سائنسدان اہلیہ سمیت جاں بحق
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران،تل ابیب،واشنگٹن (صباح نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)ایران پر اسرائیلی حملے میں ایک اور جوہری سائنسدان جاں بحق ہوگئے۔تہران ٹائمز کے مطابق جوہری سائنسدان ایثار طبا طبائی تہران پر اسرائیلی حملے میں اہلیہ سمیت جاں بحق ہوئے جس سے اب تک صیہونی حملوں میں شہید ہونے والے جوہری سائنسدانوں کی تعداد 10ہوگئی ہے ۔تہران ٹائمز کے مطابق ایرانی جوہری سائنسدان ڈاکٹر سید ایثار طباطبائی قمشہ کو قم میں ان کی اہلیہ کے ساتھ شہید کیا گیا۔یران کی جوہری صنعت نمایاں مگر کم معروف شخصیت، ڈاکٹر سید ایثار طباطبائی قمشہ اور ان کی اہلیہ، منصورہ حاجی سالم کو گزشتہ ہفتے کے آخر میں ان کی رہائش گاہ میں شہید کیا گیا تھا۔شریف یونیورسٹی کے اخبار نے ڈاکٹر طباطبائی کی موت کی اطلاع دی جو کہ یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور ایران کے جوہری پروگرام میں طویل عرصے سے خدمات انجام دینے والے سائنسدان تھے، حکام نے اس واقعے کو ان کے تہران میں واقع گھر پر ’ٹارگٹ دہشتگرد حملہ‘ قرار دیا ہے۔قم کے صوبائی انتظامیہ کے ہیڈ کوارٹر کے ترجمان مرتضی حیدری نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ سلاریح محلے میں ایک عمارت کی چوتھی منزل کو نشانہ بنایا گیا۔ اصفہان کے جنوبی علاقے میں بھی رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا گیا جبکہ قم میں حملے میں دو افراد شہید اور چار زخمی ہوئے، شہید ہونے والوں میں ایک سولہ سالہ لڑکا ہے۔علاوہ ازیںاسرائیل نے اصفہان میں نیوکلیئر سائٹ اور قم میں اپارٹمنٹ پر حملے میں قدس فورس کے دو اہم کمانڈروں کو شہید کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔اصفہان کے ڈپٹی گورنر اکبر صالحی نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا حملے کے بعد جوہری مواد کے اخراج کی اطلاع نہیں ملی۔اسرائیلی ڈیفنس فورسز کا کہنا ہے قدس فورس کمانڈر سعید ایزدی کو قم کے اپارٹمنٹ جبکہ بہنام شہری یاری کو مغربی تہران میں کار پر حملے میں شہید کیا گیا۔ دونوں کمانڈرز مشرق وسطیٰ میں ایرانی پراکسیز کو اسلحہ کی فراہمی کے ذمے دار تھے۔ایرانی میڈیا کے مطابق تبریز اور خرم آباد میں پاسداران انقلاب کے 9 اہلکار شہید ہوئے ہیں۔ایرانی وزیر صحت رضا ظفرغندی کا کہنا ہے اسرائیل اب تک تین اسپتالوں اورچھ ایمبولینسوں کو نشانہ بنا چکا ہے۔محکمہ صحت کے دو ماہرین ایک گائنا کالوجسٹ اور ایک چائلڈ اسپیشلسٹ اپنے بچے سمیت شہید ہوئے۔ ایرانی میڈیا کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کے ایران پر حملوں سے اب تک 430 افراد شہید جبکہ 3500 افراد زخمی ہوئے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل میں اب تک 30 کے قریب لوگ ہلاک اور 1150 زخمی ہو چکے ہیں۔اصفہان کے ڈپٹی گورنر برائے سکیورٹی امور اکبر صالحی نے تصدیق کی ہے کہ ہفتے کی صبح اسرائیل نے اصفہان میں ایک نیوکلیئرسائٹ اور کئی مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔انہوں نے بتایا کہ حملے کے بعد جو سفید دھواں دکھائی دیا وہ باعثِ تشویش نہیں کیونکہ کسی قسم کے مواد کے اخراج کی اطلاع نہیں ملی ہے۔اکبر صالحی کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملے میں اصفہان کی آئل ریفائنری کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ اسرائیل کے حملوں میں اصفہان، لنجان، مبارکہ اور شہرِضا جیسے اضلاع کے کچھ علاقے متاثر ہوئے ہیں۔ایران کی پاسداران انقلاب نے اسرائیل پر حالیہ میزائل اور ڈرون حملے کی تفصیلات جاری کر دی ہیں۔پاسداران انقلاب کے مطابق یہ اسرائیلی اہداف پر کیا گیا 18واں حملہ تھا، جس کا ہدف وسطی اسرائیل میں واقع فوجی تنصیبات اور آپریشنل معاونت کے مراکز تھے، جن میں بن گوریون بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی شامل ہے۔پاسداران انقلاب کے مطابق حملے میں ایران کے مقامی طور پر تیار کردہ شہید-136 ڈرونز نے حصہ لیا، جو مسلسل مقبوضہ علاقوں کی فضا میں کارروائیاں کرتے رہے جبکہ ٹھوس اور مائع ایندھن سے چلنے والے ایرانی میزائل بھی استعمال کیے گئے۔بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ اسرائیل کے جدید ترین دفاعی نظام بھی ان میزائلوں اور ڈرونز کو روکنے میں ناکام رہے۔ ایران کی جانب سے داغے گئے میزائل وسطی اسرائیل کے علاقے ڈین گش میں گرے جہاں ایک رہائشی عمارت کو میزائل کے ٹکڑے لگنے سے آگ لگ گئی۔ ایران کے خلاف جارحیت کے نتیجے میں اسرائیل کو بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، فرینڈز آف فلسطین پاکستان کے مطابق ایرانی جوابی حملوں اور کشیدگی کے آغاز سے اب تک، اسرائیل کے اسپتالوں نے 2,517زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی ہے۔21افراد کی حالت تشویشناک قرار دی گئی۔عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی دفاعی نظام نے حیفا، تل ابیب، جنوبی اسرائیل اور شمالی علاقوں میں میزائلوں کو روکنے کی کوشش کی، مقبوضہ بیت المقدس اور ایلات میں بھی سائرن کی آوازیں سنی گئیں، جب کہ ایک میزائل حیفا کی بندرگاہ کے قریب آ کر گرا، 25 سے 30 کے درمیان میزائل اسرائیل کے مختلف جنوبی و شمالی علاقوں کی جانب داغے گئے۔اسرائیلی ایمبولینس سروس نے تصدیق کی کہ اب تک 27 افراد زخمی ہو چکے ہیں، جن میں سے 3 کی حالت تشویش ناک ہے۔اسرائیلی ذرائع کے مطابق ایرانی حملوں کے نتیجے میں تل ابیب، نقب، حیفا اور ہولون میں شدید مادی نقصان ہوا ہے اور متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں، ایک میزائل حیفا میں وزارتِ داخلہ کے ہیڈکوارٹر کے قریب آ گرا۔ادھرامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل ایران کی جوہری صلاحیت کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق نیو جرسی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے تناظر میں اپنے مؤقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہمیشہ امن کے داعی رہے ہیں لیکن بعض اوقات امن قائم رکھنے کیلیے سختی بھی ضروری ہوجاتی ہے۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ایران کے خلاف امریکی زمینی افواج بھیجنے کا امکان آخری آپشن ہوگا۔ ان کے بقول، ’’یہ وہ آخری چیز ہے جو کوئی بھی چاہے گا۔‘‘ٹرمپ سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ اسرائیل کے ساتھ جنگ میں شامل ہونے سے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے دو ہفتے کا وقت دیں گے، تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ ایران کو کچھ وقت دے رہے ہیں تاکہ صورتحال کا جائزہ لیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا، ’’میرا خیال ہے کہ زیادہ سے زیادہ دو ہفتے لگیں گے، اس سے زیادہ نہیں۔‘‘ایران کی جوہری تنصیبات پر بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل کے پاس ایران کے فورڈو (Fordow) میں واقع زیر زمین جوہری تنصیب کو تباہ کرنے کی صلاحیت نہیں۔ انہوں نے واضح کیا، ’’ان کے پاس اس کام کے لیے بہت محدود صلاحیت ہے۔ وہ شاید کسی چھوٹے سے حصے کو توڑ سکیں، لیکن وہ بہت گہرائی تک نہیں جا سکتے۔ ان کے پاس اس کی صلاحیت نہیں۔‘‘تاہم ٹرمپ نے امید ظاہر کی کہ شاید ایسی کسی کارروائی کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ انہوں نے کہا، ’’شاید ایسا کرنا ضروری نہ ہو۔‘‘دریں اثناء اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا نے ایران کی زیرزمین جوہری تنصیب کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والی جوہری تنصیب کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والے دو سے چار کے درمیان بی2 اسٹیلتھ بمبار بحرالکاہل کی طرف روانہ کردیا ہے۔اسرائیلی اخبار روزنامہ ہیرٹز نے رپورٹ میں اسرائیل کے سینئر فوجی عہدیدار کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ ایران کے شہر قم کے قریب پہاڑی علاقے میں زیرزمین قائم جوہری تنصیب فردو کو پہلے ہی ہدف قرار دیا گیا ہے اور اگر ہمیں کارروائی کی اجازت دے دی گئی تو ہم عمل درآمد کریں گے۔ترک خبرا یجنسی انادولو نے اسرائیلی اخبار کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ امریکی بی2 بمبار ریاست میسوری میں وائٹ مین ایئرفورس بیس سے روانہ کردیے گئے ہیں اور مشرقی بحرالکاہل میں مائیکرونیشیا میں امریکی حدود میں واقع گوام میں امریکی اسٹریٹجک بیس کی طرف رواں دواں ہیں۔اس ضمن میں بتایا گیا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ بی2 بمبار ایران سے تقریباً 3500 کلومیٹر دور واقع امریکی اہم بیس ڈیاگو گارشیا کی طرف سفر جاری رکھیں گے یا نہیں۔دوسری جانب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ روس نے اسرائیل کو بارہا آگاہ کیا ہے کہ ایران کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے ارادے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق روسی صدر نے اسکائی نیوز عربیہ کو بتایا کہ ’روس اور عالمی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے پاس کبھی بھی ایسا کوئی ثبوت نہیں رہا کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور ہم نے بارہا اسرائیلی قیادت کو اس سے آگاہ کیا ہے۔ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ روس ایران کے پرامن جوہری پروگرام کو فروغ دینے میں اس کی حمایت کے لیے تیار ہے، اور ایران کو اس کا حق حاصل ہے۔امریکا کے سابق صدر بل کلنٹن نے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو طویل عرصے سے ایران سے جنگ چاہتے تھے کیونکہ صرف اسی طریقے سے وہ ہمیشہ کے لیے اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔سابق امریکی صدر نے بتایا کہ انہوں نے صدر ٹرمپ سے وہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی کو کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ عام شہری نہ مارے جائیں، مجھے امید ہے کہ صدر ٹرمپ ایسا ہی کریں گے۔سابق امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ نیتن یاہو یا پھر صدر ٹرمپ ایک بھرپور جنگ چاہتے ہیں جو خطے کو تباہ کر کے رکھ دے، امریکا خطے میں اپنے اتحادیوں کا تحفظ کرے اور ساتھ ہی تحمل کا مظاہرہ کرنے کی وکالت کرے۔قبل ازیں اسرائیل ایران کشیدگی کے دوران برطانیہ نے ایران سے اپنے سفارتی عملے کو واپس بلالیا۔سوئٹزرلینڈ نے بھی تہران میں اپناسفارتخانہ عارضی طور پربندکرنیکا اعلان کردیا جب کہ جرمنی نے بھی ایران سے اپنے سفارتی عملے کو واپس بلالیا ہے۔ جرمنی نے اسرائیل سے 64 شہریوں کو نکال لیا، اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات نے بھی ایران سے اپنے شہریوں کا انخلا مکمل کر نے کا اعلان کیا ہے۔امریکا نے بھی رپورٹ کیا ہے کہ ایک ہفتے میں ایران سے سینکڑوں امریکی شہریوں نے انخلا کیا ہے، امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق ایران اور اسرائیل کے درمیان فضائی جنگ شروع ہونے کے بعد سے سیکڑوں امریکی شہری زمینی راستے استعمال کرتے ہوئے ایران سے روانہ ہو چکے ہیں۔علاوہ ازیں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ممکنہ جانشینوں کے نام پیش کردیے۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیلی حملوں میں مارے جانے کی صورت میں نا صرف اپنی فوجی کمان کے سلسلے میں متبادل کا انتخاب کیا ہے بلکہ انہوں نے تین سینئر علما کو بھی نامزد کیا ہے کہ اگر وہ بھی مارے جائیں تو وہ ان کی جگہ لے لیں، تاہم قابل ذکر بات یہ ہے کہ آیت اللہ علی خامنہ ای کے بیٹے مجتبیٰ جو ایک عالم دین اور پاسداران انقلاب اسلامی کے قریب ہیں، جن کے بارے میں افواہیں تھیں کہ وہ جانشینی کے لیے سب سے آگے ہیں، ان کا نام امیدواروں میں شامل نہیں۔3 ایرانی عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر زیادہ تر اپنے کمانڈروں سے اب ایک قابل اعتماد معاون کے ذریعے بات کرتے ہیں، انہوں نے اپنے مزید قابل اعتماد ساتھیوں کے مارے جانے کی صورت میں اپنی فوج کی کمان کے سلسلے میں تبدیلیوں کی ایک صف کا انتخاب کیا ہے اور ایک قابل ذکر اقدام کے طور پر آیت اللہ خامنہ ای نے تین سینئر رہنماؤں کو اپنے جانشین کے امیدواروں کے طور پر نامزد کیا ہے کہ اگر انہیں قتل کر دیا جائے تو قیادت کی منتقلی تیزی سے ہو سکے اور جنگ کے دوران اسلامی جمہوریہ کی سیاسی استحکام برقرار رہے۔ اسرائیل یا امریکا کی جانب سے ممکنہ قاتلانہ حملے کے خدشے کے پیش نظر سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے تمام الیکٹرانک مواصلات منقطع کر دیے ہیں، وہ زیر زمین پناہ گاہ(بنکر) میں منتقل ہو چکے ہیں اور اب صرف ایک قابل اعتماد نمائندے کے ذریعے اعلی کمانڈرز سے رابطے میں ہیں۔ادھراسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے پہلے ہی ایران کے جوہری پروگرام کو کم از کم دو سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے وزیر خارجہ گیڈون سار نے جرمن اخبار بِلڈ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ہم جو اندازہ لگا رہے ہیں، اس کے مطابق ہم نے پہلے ہی کم از کم دو یا تین سال کے لیے ان کے پاس جوہری بم کے امکان میں تاخیر کر دی ہے۔گیڈون سار نے کہا کہ اسرائیل کا ایک ہفتہ طویل حملہ جاری رہے گا، ہم اس خطرے کو دور کرنے کے لیے وہ سب کچھ کریں گے، جو ہم وہاں کر سکتے ہیں۔علاوہ ازیں امریکا نے ایران کے 8اداروں، ایک بحری جہاز اور 5 افراد پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔العربیہ اردو کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ایران سے متعلق نئی پابندیاں جاری کی ہیں جس میں آٹھ اداروں، ایک بحری جہاز اور 5 افرادکو ایران کی دفاعی صنعت کو حساس سازوسامان فراہم کرنے میں مبینہ کردار کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ٹریژری سیکرٹری اسکاٹ بیسنٹ نے کہا کہ امریکا، ایران کی جانب سے دوہری استعمال کی حساس ٹیکنالوجی، پرزے اور مشینری کی خریداری کی کسی بھی کوشش کو روکنے کے لیے پرعزم ہے، یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جو حکومت کے بیلسٹک میزائل، بغیر پائلٹ کے فضائی گاڑی (یو اے وی) اور ہتھیاروں کے پروگراموں کو سپورٹ کرتی ہے۔ ادھرایرانی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل سے تعلق کے الزام میں 12 جون سے اب تک 22 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔نیم سرکاری نیوز ایجنسی ’فارس‘ کی رپورٹ کے مطابق صوبہ قْم کی انٹیلی جنس پولیس کے سربراہ نے کہا ہے کہ فورس نے 12 جون سے ملک پر اسرائیل کے حملے کے آغاز کے بعد سے 22 افراد کو صیہونی حکومت کے لیے جاسوسی سے منسلک ہونے کے الزام میں‘ گرفتار کیا ہے۔پاسداران انقلاب کے زیر انتظام نیوز ایجنسی نے کہا کہ الزامات میں ’عوامی رائے کو نقصان کرنا اور مجرمانہ حکومت (اسرائیل) کی حمایت کرنا‘ بھی شامل ہے۔ایجنسی نے گرفتار ملزمان یا ان کے مبینہ جرائم کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔قبل ازیں فرانسیسی صدر میکرون نے ایرانی صدر مسعود پزشکیان سے ٹیلیفونک رابطہ کیا اور یورپ اور ایران کے درمیان بات چیت میں تیزی پر زور دیا۔فرانسیسی صدارتی دفتر کے مطابق ایرانی صدر نے گفتگو میں فرانسیسی صدر میکرون کا کہنا تھا کہ ایران کو تمام ضمانتیں دینی ہوں گی کہ اس کا جوہری پروگرام پْرامن تھا۔فرانسیسی صدر نے گفتگو میں زور دیا کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہیں کریگا۔میکرون نے کہا کہ ایرانی صدر یورپ اور ایران کے درمیان بات چیت میں تیزی لائیں۔فرانسیسی صدارتی دفتر کے مطابق صدرکا مزید کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ بڑے خطرات سے بچنے اور جنگ سے نکلنے کے لیے راستا موجود ہے۔دوسری جانب ایران نے اعلان کیا ہے کہ جب تک اسرائیلی حملے نہیں رکتے جوہری مذاکرات پر بات نہیں کریں گے۔سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے ایرانی ہم منصب عباس عراقچی سے مذاکرات کیے۔مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ بتایا کہ آج ان کی یورپی رہنماؤں سے سنجیدہ اور باوقار بات چیت ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ یورپی وزرائے خارجہ سے بات چیت کے تسلسل کی حمایت کرتے ہیں، یورپی رہنماؤں سے مستقبل میں دوبارہ ملاقات کے لیے تیار ہیں۔عباس عراقچی کا کہنا تھاکہ ایران ایک بار پھر سفارت کاری پر غور کرنے کے لیے تیار ہے لیکن واضح کر دیا کہ ایران کی دفاعی صلاحیتوں پر کوئی بات نہیں کی جا سکتی۔انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو ایران کے شہری آبادی پرحملے روکنے چاہیے، جب تک اسرائیل کے حملے نہیں رکتے جوہری مذاکرات پر بات چیت ممکن نہیں۔ برطانوی وزیرِ خارجہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایران پر زور دیا کہ وہ امریکا کے ساتھ اپنی بات چیت جاری رکھے۔فرانسیسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں اس سفارتی اقدام سے مذاکرات کی راہ ہموار ہونی چاہیے۔
تہران، اسرائیلی جارحیت کیخلاف ایرانی شہری اپنی حکومت سے اظہار یکجہتی کیلیے دوسرے دن بھی سڑکوں پر ہیں
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: یت اللہ علی خامنہ ای پاسداران انقلاب کے کے مطابق اسرائیل کے مطابق ایرانی جوہری سائنسدان کے مطابق ایران جوہری پروگرام اسرائیلی حملے کا کہنا تھا کہ اور ایران کے نشانہ بنایا جوہری تنصیب خامنہ ای نے کہ ایران کے امریکی صدر کہ اسرائیل نے اسرائیل اسرائیل کے کے مطابق ا کی جانب سے ہو چکے ہیں کے درمیان بنایا گیا کی صلاحیت نے کہا کہ کہا ہے کہ ا یت اللہ کیا ہے کہ ایران کی نے ایران ایران سے میں واقع ہوئے ہیں حملے میں بتایا کہ کو نشانہ ہے کہ اس سے اب تک زخمی ہو کے قریب حملے کے کرنے کے کرنے کی بات چیت میں ایک کریں گے کیا گیا ہے کہ ا نے بھی دیا کہ کے پاس کے بعد کے لیے گیا ہے ہے اور
پڑھیں:
امریکی حملے کے بعد ایران نے اسرائیل پر میزائل حملہ کردیا،آبنائے ہرمز بند کرنے کا اعلان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران: امریکا کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد، ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل پر پہلا براہ راست میزائل حملہ کر دیا۔
خبر ایجنسیوں کے مطابق ایران نے اسرائیل پر کم از کم 25 میزائل داغے، جب کہ یروشلم اور تل ابیب میں زوردار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں اور مختلف علاقوں میں ایئر ڈیفنس سائرن بج اٹھے۔ ایران نے آبنائے ہرمز بند کرنے کا اعلان بھی کردیا۔
ادھراسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) نے ایرانی حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بیان جاری کیا ہے کہ ’کچھ دیر قبل ایران سے اسرائیلی سرزمین پر میزائل فائر کیے گئے جنہیں روکنے کے لیے دفاعی نظام متحرک کر دیا گیا ہے۔‘ فوج نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر محفوظ پناہ گاہوں میں چلے جائیں اور مزید اطلاع تک وہیں رہیں۔
ایرانی میڈیا کے مطابق، ایران نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے پیش نظر آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے، اور خبردار کیا ہے کہ یورپی یونین کا کوئی بھی بحری بیڑہ اب یورپ تک نہیں پہنچ سکے گا۔
ایران کا یہ حملہ امریکا کی جانب سے فردو، نطنز اور اصفہان میں واقع ایرانی جوہری تنصیبات پر کیے گئے فضائی حملے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ایرانی ایٹمی توانائی ادارے نے ان حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملے عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں، تاہم ان تنصیبات کو حملے سے پہلے خالی کرا لیا گیا تھا اور وہاں کوئی حساس جوہری مواد موجود نہیں تھا۔
ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ’امریکا اب براہ راست جنگ میں داخل ہو چکا ہے اور اس کے نتائج کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔‘ انہوں نے خبردار کیا کہ ’امریکا تھوڑا انتظار کرے، اسے ہمارے حملوں کی قیمت چکانا پڑے گی۔
پاسداران انقلاب نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب جنگ ایران کے لیے شروع ہو چکی ہے اور ’ہم مشرق وسطیٰ میں موجود تمام امریکی اثاثوں کو نشانہ بنائیں گے۔