مقامی حکومتوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی کیوں ؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, September 2025 GMT
پاکستان میں نئے صوبوں کی نئی بحث کے ساتھ ہی اس ملک کی طاقت ور سیاسی اشرافیہ کی جانب سے اچانک مقامی حکومتوںکی اہمیت پر زور دیا جارہا ہے۔ ان کے بقول نئے صوبے نہیں بلکہ ہماری ضرورت مضبوط مقامی حکومتوں کا نظام ہے۔حال ہی میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں صوبوں کی جانب سے مقامی حکومتوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی پر شدید تنقید کی ہے۔
حالانکہ وہ خود حکومت میںہیں اور موجودہ حکمرانوں کے قریب ترین فرد سمجھے جاتے ہیں لیکن حکومت میں ہوتے ہوئے حکومت سے گلہ خود ان کی اور ان کی جماعت کی سیاسی ناکامی کے طورپر دیکھا جانا چاہیے۔ پاکستان اچھی حکمرانی کے نظام سے عملًا محروم ہے۔اس محرومی کے عمل میں مقامی حکومتوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی یا اس نظام کی عدم موجودگی یا کمزور مقامی نظام حکومت حکمران طبقات کی جہاں ناکامی ہے وہیںان کی نااہلی اور سیاسی عدم ترجیحات کا حصہ بھی ہے۔
پاکستان میں سیاسی اور جمہوری قوتیں بالخصوص بڑی حکمران جماعتیں اختیارات کی نچلی سطح پر سیاسی، انتظامی اور مالی تقسیم کے خلاف ہیں اور اس سوچ کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھتی ہیں۔18ویں ترمیم کے باوجود یہاں پر ہماری صوبائی حکومتوں نے تمام تر اختیارات کو اپنی حد تک محدود کرکے صوبائی سطح پر اپنی مرکزیت کا نظام قائم کیا ہوا ہے۔
یعنی کوئی بھی سیاسی قوت مقامی حکومتوں کے نظام کو نہ توخودمختاری دینا چاہتی ہے اور نہ ہی وہ اس مقامی نظام کو آئین میں دی گئی شرط یعنی اس کو وفاقی ، صوبائی حکومت کے بعد تیسری حکومت دینے کی سوچ رکھتی ہے۔پاکستان کے آئین میں دی گئی شقوں آرٹیکل 7،32اور خاص طور پر آرٹیکل 140-Aکو سیاسی جماعتوں نے بری طرح سے ان شقوں کو نظرانداز کرکے اس مقامی حکومتوں کے نظام کا بڑے پیمانے پر سیاسی استحصال کیا ہے۔یہ استحصال آج بھی ہماری سیاسی اور جمہوری سیاست میں سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے بڑی سیاسی ڈھٹائی کے ساتھ جاری ہے اور وہ بھی اس جرائم پر ذمے دار نہیں ہیں۔
سیاسی جماعتوں اور ان کی حکمران قیادت نے پاکستان میں مقامی حکومتوں کے نظام کو ایک ایسی تجربہ گاہ بنادیا ہے جس کی وجہ سے یہ نظام نہ تو اس سیاسی نظام میں کوئی مستقل حیثیت حاصل کرسکا اور نہ اس نظام کی کوئی ساکھ قائم کی جاسکی۔صوبائی حکومتوں نے اقتدار میں آکر جو بھی مقامی حکومتوں کا نظام موجود تھا۔
اس میں اپنی مرضی کی ترامیم یا نئے قانو ن کو بنیاد بنا کر اس نظام کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک میں مقامی حکومتوںکا کوئی مستقل اور مربوط نظام قائم نہیں ہوسکا۔کیونکہ پاکستان میں مقامی حکومتوں کا نظام صوبائی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتا ہے اس لیے مقامی حکومتوںکا عدم موجودگی میں صوبائی سطح کی حکومتوں کا کردار سب سے زیادہ ہے۔
یہ جو پاکستان میں عام آدمی کے مسائل ہیں یا ان میںبنیادی حقوق کے حصول میں موجود محرومی ، یا معاشی بدحالی یا سیاسی،سماجی، معاشی اور قانونی عدم انصاف یا تفریق کے پہلو ہیں ان کا حل ہی ایک مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑا ہوا ہے۔
یعنی جتنی زیادہ سیاسی ، انتظامی اور مالی یا وسائل کی تقسیم منصفانہ ہوگی یا مقامی لوگوں کی مقامی فیصلہ سازی میں شراکت ہوگی اتنے ہی لوگوںکے مسائل بھی حل ہونگے اور لوگوں کا حکومت اور نظام پر اعتماد بھی بڑھے گا۔مقامی سطح کی قیادت ہی مقامی فیصلوں کی مدد سے اپنے مسائل حل کرسکتی ہیں اور اس کے لیے مقامی لوگوں پر اعتماد کرنا ہوگا۔ایک طرف روائتی سیاسی قوتیں ہیں تو دوسری طرف یہ مضبوط بیوروکریسی کا انتظامی ڈھانچہ ہے جو اس نظام کے خلاف ہے۔
اس لیے اگر ہم نے واقعی جدید دنیا سے سیکھ کر اپنے حکمرانی کے نظام کو شفاف بنانا ہے اور لوگوں کو بااختیار کرکے ان کے مسائل حل کرنے ہیں تو یہ کام موجودہ روائتی سیاسی نظام میں ممکن نہیں۔مقامی حکومتوں کے نظام کے حوالے سے جو اس وقت بدترین غیر معمولی حالات ہیں اس کو بہتر کرنے کے لیے بھی ہمیں اجتماعی طور پر غیر معمولی اقدامات اور سخت کڑوے فیصلے کرنے ہونگے۔
یہ جو صوبائی حکومتوں کے ہاتھوں میں ہم نے پورے مقامی حکومتوں کے نظام کا بوجھ ڈال دیا ہے یا یہ کسی بھی سطح پر جوابدہ نہیں اسے تبدیل کرنا ہوگا۔مضبوط اور خود مختارمقامی حکومتوں کا نظام بہت سی آئینی،قانونی اور سیاسی تبدیلیاں چاہتا ہے اور جب تک اس مقامی حکومتوں کے نظام کو ممکن بنانے کے لیے بھارت کی طرز پر آئین میں باقاعدہ ایک باب شامل نہیں کیا جاتا اور اسے مکمل طور پر آئینی اور قانونی تحفظ نہیں دیا جاتا تو اس نظام کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔
مقامی لوگ بنیادی طور پر اس موجودہ نظام سے پریشان ہیں اور اپنے مسائل کے حل میں خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہم مقامی سطح پر نظام حکومت کے خلاف بغاوت یا سخت تحفظات دیکھ رہے ہیں۔اسی بنیاد پر مقامی لوگ صوبائی خود مختاری کے نام پر نئے صوبوں کی تشکیل کی بات کررہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ نئے صوبوں کی تشکیل کے بغیر ہمارے مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔
یہ جو ہمیں تعلیم،صحت یا مقامی سطح پر روزگار، سیوریج ، صفائی ،صاف پانی ،مقامی ترقی اور مقامی مسائل کا سامنا ہے، ان سب کا حل مقامی مضبوط حکومتوں کی صورت میں ہی نظر آتا ہے۔ اچھی گورننس کا حل ہی خود مختارمقامی حکومتوںکے نظام سے جڑا ہوا ہے ۔بلاوجہ کی سیاسی ناکامی پر مبنی تجربات سے نکل کر ہمیں مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام پر ہی زور دینا چاہیے اور یہ ہی ہماری ترجیح بھی ہونی چاہیے۔
یہ جو ہماری ترقی ملک کے چند بڑے شہروں تک محدود نظر آتی ہے یا وسائل کی مالیاتی تقسیم یا سیاسی ترجیحات میں بھی بڑے شہروں کو اہمیت دے کر چھوٹے شہروں یا دیہاتوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی نے پورے ملک کے سیاسی،انتظامی اور مالیاتی نظام کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ پس ماندہ یا کمزور طبقات ہماری حکومتی پالیسی کی ترجیحات کا حصہ نہیں ۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگوں کا حکومت سے رشتہ کمزور ہوتاہے۔
ہمیں دنیا کے جدید ملکوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ انھوں نے اپنی حکمرانی کے نظام میں بہتری کے لیے کیا اصلاحات اور طریقہ کار اختیار کیا اور اسی کی بنیاد پر خود کو آگے بڑھانے کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔مقامی حکومتوں کے نظام کے بغیر انتظامی ڈھانچوں یا صوبائی یا ضلعی اتھارٹیوں کی مدد سے نظام میں شفافیت نہیں لائی جاسکتی ۔
لیکن اس کے لیے ہمیں اپنی حکومت یا ادارہ جاتی سطح پر ترجیحات کا تعین اور ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ بغیر کسی الجھاؤ اور تضادات کے ساتھ چلنے کی روش کو خیر آباد کہنا ہوگا اور حکمرانی کے نظام میں جدید تقاضوں کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کا عمل ہی ہماری مضبوط ترقی اور سماج میں موجود مختلف نوعیت کی تفریق کے پہلوؤں کو ختم کرکے سب میں برابری کی بنیاد پر نظام کی ساکھ کو قائم کرسکتا ہے اور یہ ہی ہمارے ریاستی اور عوامی مفاد میں ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مقامی حکومتوں کا نظام مقامی حکومتوں کے نظام میں مقامی حکومتوں حکمرانی کے نظام صوبائی حکومتوں کرنے کی پالیسی صوبائی حکومت پاکستان میں کے نظام کو صوبوں کی نظام کا ہیں اور دیا ہے ہے اور کے لیے کو نظر اور اس
پڑھیں:
حکومت یا عسکری قیادت سے کسی قسم کی بات چیت نہیں ہو رہی، پی ٹی آئی چیئرمین
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے واضح کیا ہے کہ فی الحال پارٹی اور وفاقی حکومت یا عسکری قیادت کے درمیان کسی قسم کے مذاکرات یا رابطے نہیں ہو رہے۔
میڈیا سے گفتگو میں بیرسٹر گوہر علی خان نے مذاکرات سے متعلق خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ افسوسناک امر ہے کہ ملک کے سیاسی مسائل کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کے بجائے مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مارچ 2024 میں جب پارٹی نے الیکشن مینڈیٹ چُرائے جانے کا مؤقف اپنایاتو چیئرمین عمران خان نے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، تاہم بات چیت کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی، عمران خان نے اس وقت کہا تھا کہ اگر پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کوئی تجویز لائیں تو اس پر غور کیا جائے گا۔
بیرسٹر گوہر نے مزید بتایا کہ 26 نومبر کو ایک نئی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی گئی، مگر حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث کوئی پیش رفت نہ ہو سکی، ہم نے حکومت سے ملاقات کے لیے دو ہفتے انتظار کیا لیکن انہوں نے سنجیدگی نہیں دکھائی، اس لیے ہم فوٹو سیشن کے لیے بیٹھنا نہیں چاہتے تھے۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ ان کی جماعت سیاسی مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتی تھی کیونکہ یہی جمہوریت، پارلیمنٹ اور ملکی استحکام کے لیے بہتر راستہ تھا، لیکن بدقسمتی سے حکومت نے موقع ضائع کیا۔
خیبر پختونخوا میں جاری فوجی کارروائیوں سے متعلق گفتگو میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اس معاملے پر کئی آل پارٹیز کانفرنسز بلائیں، جن میں جنوری، جولائی اور ستمبر کی کانفرنسیں شامل تھیں، انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشنز کا ذکر ہماری پریس ریلیز میں موجود ہے، انہیں سیاسی رنگ دینا یا عام شہریوں کو نقصان پہنچانا کسی صورت درست نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی کے آپریشنز کے باعث بے گھر ہونے والے افراد آج بھی اپنے گھروں کی تعمیر مکمل نہیں کر سکے، اس لیے ایسے اقدامات انتہائی احتیاط سے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام مزید مشکلات کا شکار نہ ہوں۔