پی ٹی آئی نے محمود اچکزئی کو قومی اسمبلی، ناصر عباس کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنانے کی منظوری دیدی
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
فائل فوٹو۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے محمود خان اچکزئی کو قومی اسمبلی اور علامہ ناصر عباس کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنانے کی منظوری دے دی۔
پاکستان تحریک انصاف کی سینٹ و قومی اسمبلی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا، ذرائع کا کہنا ہے کہ محمود خان اچکزئی کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنانے کی منظوری دے دی۔
ذرائع کے مطابق سینیٹ میں علامہ ناصر عباس کو اپوزیشن لیڈر بنانے کی منظوری دی گئی۔
ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کے ارکان نے محمود خان اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کے لیے دستخط کر دیے۔ اسی طرح سینیٹ میں علامہ ناصر عباس کو اپوزیشن لیڈر بنانے کے لیے بھی سینیٹرز نے دستخط کر دیے ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: اپوزیشن لیڈر بنانے کی منظوری ناصر عباس کو قومی اسمبلی سینیٹ میں اچکزئی کو
پڑھیں:
نگران حکومت کے لیے ناموں کا فیصلہ متحدہ اپوزیشن کا مشترکہ فیصلہ تھا، کاظم میثم
اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ نگران وزیر اعلیٰ کے لیے نام دینا اپوزیشن لیڈر کا صوابدیدی اختیار تھا، تاہم میں نے تمام اپوزیشن اراکین سے مکمل مشاورت کی اور ہر ممبر سے پینل کے لیے نام بھی طلب کیے۔ اسلام ٹائمز۔ اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی کا ظم میثم نے کہا ہے کہ نگران حکومت کے لیے نام دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کسی فرد واحد کا نہیں تھا بلکہ یہ متحدہ اپوزیشن کے تمام اراکین کا مشترکہ فیصلہ تھا۔ ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ متحدہ اپوزیشن کے اہم اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کے اراکین وزیر محمد سلیم، کلثوم فرمان، سید سہیل عباس اور کرنل عبید اللہ نے بھی بھرپور شرکت کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ نگران وزیر اعلیٰ کے لیے نام دینا اپوزیشن لیڈر کا صوابدیدی اختیار تھا، تاہم میں نے تمام اپوزیشن اراکین سے مکمل مشاورت کی اور ہر ممبر سے پینل کے لیے نام بھی طلب کیے۔ تحریک انصاف کے مؤقف کا مکمل احترام کرتا ہوں، مگر ضروری ہے کہ ایوان کی کارروائی شائستگی اور نظم کے ساتھ چلائی جائے تاکہ باہمی اعتماد مجروح نہ ہو۔
اپوزیشن لیڈر نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ماضی میں مختلف اور اہم تعیناتیوں میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے افراد تعینات ہوئے، لیکن ہم نے کبھی ان فیصلوں کو بدنیتی یا خیانت سے تعبیر نہیں کیا، کیونکہ وہ متعلقہ ذمہ داران کا صوابدیدی اختیار تھا اور ان معاملات میں ہم سے کوئی مشاورت بھی نہیں کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ نگران حکومت کے معاملے پر پی ٹی آئی اراکین اسمبلی بائیکاٹ کے حق میں نہیں تھے، لہٰذا ان کی رائے کا احترام کیا گیا۔ ہم نے کبھی اپوزیشن کے معزز اراکین کی رائے کو خیانت نہیں سمجھا، بلکہ ہمیشہ اتفاقِ رائے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے۔