بھینس چوری سے سیاست کی سزا تک
اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں چودھری ظہور الٰہی پر ’’بھینس چوری‘‘ کا مقدمہ بہت مشہور ہوا۔ ظہور الٰہی متحدہ اپوزیشن میں سر گرم تھے اور بھٹو صاحب کو یہ پسند نہ تھا۔ پنجاب پولیس نے ظہور الٰہی پر 100 سے زائد مقدمات قائم کیے، جیسے آج کل تحریک انصاف کے عمران خان کے خلاف مقدمات کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ عدالتیں اس زمانے میں بھی تھیں، اور چودھری صاحب کو کہیں نہ کہیں ضمانت مل جاتی تھی۔ گجرات کے تھانے دار کے ایک تھانے دار نے تو کمال کردیا۔ چودھری صاحب کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ درج کردیا اور چودھری صاحب کے ڈیرے پر بندھی ایک بھینس کو مال مسروقہ قرار دے کر قبضہ میں لے لیا۔ اس وقت عدالت میں چودھری صاحب نے طنزاً کہا تھا ’’میں سیاست میں آیا ہوں، بھینسوں کے باڑے میں نہیں‘‘ مقدمہ خارج ہو گیا، مگر یہ واقعہ آج بھی اس پنجاب پولیس کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ 90 کی دہائی میں شیخ رشید کسی طور پر قابو نہ آئے تو پیپلز پارٹی حکومت شیخ رشید کے خلاف کلاشنکوف لہرانے کا مقدمہ کا درج کیا، شیخ رشید تو اس کو کھلونا کلاشنکوف کہتے تھے، لیکن پولیس نے ان کے گھر سے اصلی کلاشنکوف کی برآمدگی دکھا دی اور انسداد دہشت گردی کے عدالت نے انہیں سات سال قید اور جرمانے کی سزا سنا دی۔ میاں نواز شریف مشرف کے طیارے کے ہائی جیکنگ کیس میں سزائے موت پانے کے بعد مرتے مرتے بچے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے کئی مقدمات درج کیے گئے۔ جنہیں سن کر قانون بھی مسکرا اْٹھتا ہے۔ ہمارا وزیر رانا ثنا اللہ پر تو منشیات فروشی کا پرچہ کٹ گیا تھا۔ نوابزادہ نصراللہ پر سرکاری مکان پر قبضے کا الزام، بینظیر بھٹو پر جعلی کارڈ اور گاڑی کا کیس، آصف زرداری پر موٹر سائیکل اور ہار چوری کا مقدمہ، اور عمران خان پر ’’ریڑھی سے ٹکرانے‘‘ اور ’’لاوڈ اسپیکر استعمال کرنے‘‘ جیسے الزامات — یہ سب واقعات محض قانونی کارروائیاں نہیں تھے، پولیس کو وقت کے حکمرانوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا۔ عدالتیں بعد میں ان مقدمات کو جھوٹا قرار دیتی ہیں، مگر عوام کے ذہن میں پولیس کی ساکھ پر لگے سیاہ داغ باقی رہ جاتے ہیں۔ مریدکے میں ہونے والے خونیں واقعات میں زیادتی دونوں طرف سے ہوئی، پولیس انتظامیہ اور کرین پارٹی والوں کے تشدد کی ویڈیو ہولناک ہیں، لال مسجد کے خونیں واقعات، ماڈل ٹاون کا سانحہ، نو مئی کے واقعات، اسلام آباد میں تحریک انصاف کے احتجاج کو کچلنے کا واقعہ اس بات کا اظہار ہیں کہ اب سیاست میں پرامن احتجاج ایک خواب و خیال ہے۔ ہمارے نوجوانوں، اور سادہ لوح دینی حمیت و غیرت پر سیاسی جماعتوں کا آلہ کار بننے والے کارکنوں کو اس بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ پرانے رویوں کی نئی شکل حالیہ دنوں میں مریدکے کا واقعہ اسی پرانی روایت کا نیا باب لگتا ہے۔
تحریک لبیک کے مارچ کے دوران پیش آنے والے تصادم کے بعد پنجاب پولیس نے سعد رضوی پر الزام لگایا کہ انہوں نے پولیس اہلکار پر پستول سے فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ایس ایچ او فیکٹری ایریا زخمی ہوئے اور بعد ازاں جان سے گئے۔ اسی ایف آئی آر میں ان کے بھائی انس رضوی، پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے ’’رائفل سے فائرنگ‘‘ کی۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تحریک لبیک کے اجتماعات ہمیشہ کیمروں، سوشل میڈیا اور ویڈیوز کی زد میں ہوتے ہیں۔ کبھی کسی ویڈیو، تصویر یا رپورٹ میں ان رہنماؤں کے ہاتھوں میں اسلحہ دکھائی نہیں دیا۔ نہ کبھی ان پر کسی ایسے عمل کا الزام لگا جس میں ہتھیار استعمال ہوا ہو۔ اس کے لیے ان کے جان نثار کم نہیں ہیں۔
یہ مقدمہ ایک بار پھر سوال اٹھاتا ہے کہ کیا پنجاب پولیس نے ایک بار پھر حسب ِ روایت سیاسی دباؤ میں کام کیا ہے؟ عوام کے لیے پنجاب پولیس کے رویے کو سمجھنا مشکل نہیں۔ یہ وہ ادارہ ہے جو دہائیوں سے ’’حکم‘‘ کے تابع ہے، ’’قانون‘‘ کے نہیں۔ یہ ذہنیت اب اس قدر جڑ پکڑ چکی ہے کہ ہر واقعہ کے بعد سب سے پہلا ردعمل یہی ہوتا ہے: ’’ایف آئی آر بنا دو‘‘ چاہے وہ بھینس چوری کا الزام ہو یا پستول کی فائرنگ کا۔ ایسے مقدمات نہ صرف انصاف کے نظام کو مذاق بناتے ہیں بلکہ معاشرتی اعتماد کو بھی مجروح کرتے ہیں۔ جب عوام دیکھتے ہیں کہ قانون طاقت کے تابع ہے، تو وہ انصاف کے دروازے پر دستک دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ پولیس اصلاحات نہیں، نیت درکار ہے۔ پاکستان میں پولیس ریفارمز پر کئی کمیشن بنے، سفارشات آئیں، رپورٹس تیار ہوئیں مگر جب تک سیاسی قوتیں خود قانون کے تابع نہیں ہوتیں، پولیس کبھی غیر جانب دار نہیں بن سکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جھوٹے مقدمات کے ذمے دارافسران اور حکم دینے والے اہلکاروں کو قانونی جواب دہی کا سامنا کرنا پڑے۔ ایسے واقعات پر ’’محکمانہ کارروائی‘‘ نہیں، بلکہ عدالتی مثالیں قائم کی جائیں، تاکہ آئندہ کوئی افسر سیاسی حکم پر قانون کی توہین نہ کرے۔ چودھری ظہور الٰہی سے لے کر سعد رضوی تک پاکستان کی سیاست میں پولیس کا کردار ہمیشہ سوالیہ ہی رہے گا۔ مذاکرات کیوں ناکام ہوئے؟ یا دانستہ مذاکرات سے گریز کرکے آہنی ہاتھ سے کچلنے کا فیصلہ پہلے ہی سے طے تھا۔ ان واقعات سے پتا چلتا ہے کہ پنجاب پولیس کی ذہنیت نہیں بدلی۔ یہ اب بھی طاقت کے سامنے سر جھکاتی ہے، اور کمزور کے خلاف بہادری دکھاتی ہے۔ جب تک ریاست یہ تسلیم نہیں کرتی کہ انصاف صرف عدالتوں میں نہیں بلکہ عملی طور پر قائم ہونا چاہیے، تب تک ایسے مضحکہ خیز مقدمات ہماری تاریخ کا حصہ بنتے رہیں گے۔ اور ہر نیا واقعہ، پرانی شرمندگی کا تسلسل ثابت ہوگا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پنجاب پولیس چودھری صاحب بھینس چوری ظہور ال ہی کا مقدمہ پولیس نے انصاف کے نے والے کے خلاف
پڑھیں:
لاہور احتجاج: 20 مقدمات درج، مختلف شہروں میں 39 افراد گرفتار
لاہور میں احتجاجی مظاہرین کے خلاف پولیس نے کارروائیاں تیز کردی ہیں، پولیس ذرائع کے مطابق اب تک 20 مقدمات مختلف تھانوں میں درج کیے جا چکے ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق زیادہ تر مقدمات اسلام پورہ، نیو انارکلی، بھاٹی گیٹ، شفیق آباد، گوالمنڈی، بادامی باغ، شاہدرہ، شاہدرہ ٹاؤن، نواں کوٹ اور مریدکے سٹی تھانوں میں پولیس کی مدعیت میں درج کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’پنجاب کالج میں ریپ کا کوئی واقعہ نہیں ہوا‘، لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہونے والی رپورٹ میں مزید کیا کہا گیا؟
ان مقدمات میں دہشت گردی، قتل، اقدامِ قتل، اغوا، ہنگامہ آرائی، اور توڑ پھوڑ سمیت دیگر سنگین دفعات شامل کی گئی ہیں۔
پولیس کے مطابق مرید کے میں احتجاج کے دوران سوشل میڈیا پر انتشار پھیلانے والے عناصر کے خلاف بھی کریک ڈاؤن جاری ہے۔
مختلف شہروں میں کی گئی کارروائیوں کے دوران اب تک 39 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، یہ کارروائیاں لاہور، قصور، کامونکی، گوجرانوالہ اور شیخوپورہ میں کی گئیں۔
مزید پڑھیں: لاہور میں وکلا کا احتجاج، معاملہ کیا ہے؟
ذرائع کے مطابق 87 مبینہ شرپسندوں کے واٹس ایپ اور فیس بک اکاؤنٹس کو ٹریس کر لیا گیا ہے، جبکہ 200 سے زائد افراد کی فہرست بھی مرتب کر لی گئی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ کریک ڈاؤن کا دوسرا مرحلہ آج رات سے شروع ہوگا، جس کے بعد گرفتاریوں کا عمل مکمل کر کے قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام پورہ بادامی باغ بھاٹی گیٹ سوشل میڈیا شاہدرہ ٹاؤن شفیق آباد فیس بک قانونی کارروائی گوالمنڈی گوجرانوالہ لاہور مریدکے مظاہرین نواں کوٹ نیو انارکلی واٹس ایپ