Jasarat News:
2025-12-02@19:42:21 GMT

سندھ میں دھان کے کاشت کاروں کا احتجاج!

اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان کی 75 فی صد آبادی کا انحصار زرعی شعبہ سے وابستہ ہے جبکہ صوبہ سندھ ایک زرعی صوبہ ہے، بدقسمتی سے دیگر شعبوں کی طرح زراعت کا شعبہ بھی حکومتی عدم توجہ، بے حسی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ ہمارا کسان ہمارے لیے اناج پیدا کرنے اور ملکی معیشت کو فائدہ پہنچانے کے لیے سردی ہو یا گرمی پورا سال اپنے بال بچوں کے ساتھ محنت کرتا ہے مگر جب ان کو صلہ ملنے کا موقعہ آتا ہے یعنی فصل اُترتی ہے تو ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا اور انہیں محنت کا پھل نہیں ملتا۔ سندھ کی خوشحالی بھی کاشت کاروں کی خوشحالی سے وابستہ ہے۔ زراعت اور اس سے وابستہ لوگوں سے ناانصافی کے سندھ کی معیشت پر بھی برے اثرات پڑ رہے ہیں۔ کیوں کہ جب فصل اچھی اور اس کے ریٹ اچھے ہوں گے تو نہ صرف اس کی سال بھر کی تھکاوٹ اترے گی بلکہ وہ ضروریات زندگی کی چیزیں خریدے گا۔ اگر ریٹ مناسب نہیں ملیں گے تو مایوس اور ان کے گھر پر غربت و افلاس کے ڈیرے ہوں گے۔ سندھ کے زراعت کو تو پہلے ہی پانی کی کمی اور پھر سیلاب کی صورتحال نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ زراعت سے مایوسی پراپرٹی میں اچھا منافع ملنے کی وجہ سے زرعی زمینوں پر رہائشی سوسائٹیاں قائم کرنے کا رجحان بھی تیزی کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ مگر ان تمام ترمشکلات کے باجود ہمارے لیے اناج اُگانے والے کاشت کاروں کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے تو پانی کا بحران، نقلی و مہنگے بیج وکھاد و اسپرے والی دوائیوں سے پریشان پھر موسمی تبدیلی کی وجہ سے رسک بھی اٹھاتے ہیں مگر جب فصل مارکیٹ میں پہنچتی ہے تو ان کو فی ایکڑ لاگت کے ریٹ بھی نہیں مل پاتے۔ اس وقت ساری یعنی (دھان) کے کاشت کار بھی اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ دھان کی فصل اُترتے ہی بیوپاریوں کی جانب سے گیارہ سوروپے فی من قیمت گرادی گئی ہے۔ اس ناانصافی کے خلاف بدین، ٹھٹھہ، ٹنڈو محمد خان اور کندھکوٹ سمیت پورے صوبہ میں دھان کے کاشت کار احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں مگر حکومت خاموش تماشائی بن کر زراعت کو تباہ کر رہی ہے جو مستقبل میں خوراک و معاشی بحران کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

دھان کے کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے سرمایہ دار طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لیے سندھ کے کاشت کاروں کو کاروباری مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ کچھ دنوں پہلے تک فی من 32 سوروپے بکنے والی دھان کی قیمت ایک ہزار روپے کم کرکے 21 سو سے 22 سو روپے کردی گئی ہے جس سے فی من لاگت تو اپنی جگہ الٹا ہمارا نقصان ہو رہا ہے۔ ایک ہزار سے گیارہ سوروپے ریٹ کم ہوجانے کی وجہ کاشت کاروں کا معاشی قتل ہے اس سے قبل یہی حال گنے، گندم کے آبادکاروں کے ساتھ کیا گیا ہے، گندم کاشت کاروں سے 22 روپے خریدی گئی اور اب آٹا پانچ ہزار روپے من بیچا جارہا ہے۔ یہ نہ صرف کاشت کاروں کے ساتھ ناانصافی بلکہ سراسر زراعت دشمنی ہے۔ اس صورتحال سے زراعت پیشہ لوگوں کو سخت مایوسی ہوئی ہے۔ رائس مل مالک اور چاول کے تاجر کہتے ہیں کہ دھان کی فصل جب تازہ اُترتی ہے تو اس میں نمی ہوتی ہے ایک من دھان خریدنے کے بعد جب پروسس کرتے ہیں تو اس میں کم از کم پانچ سے سات کلو نمی کی وجہ سے کم ہوجاتی جس کی وجہ کاشت کاروں سے کٹوتی کی جاتی۔ یہ نمی ایک خاص مشین سے چیک کی جاتی اسی حساب سے کٹوتی ہوتی ہے۔ ظاہر بات ہے بیوپاری خود تو نقصان نہیں اٹھائے گا۔ جب تازہ فصل پانی سے کاٹ کر لائے جاتی ہے تو گیلی ہوتی ہے جس کی وجہ سے کٹوتی ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ جب ایکسپورٹ کم ہوگی یا بالکل نہیں ہوگی تو پھر لامحال ریٹ بھی کم ہوں گے یہ مقامی تاجر نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ریٹ کم ہوجاتے ہیں تو اس کا اثر یہاں بھی پڑتا ہے۔ پھر مقامی تاجر بھی اسی ریٹ کے حساب سے خریداری کرتے ہیں۔ اگر حکومت چاول کی ایکسپورٹ کی خصوصی منصوبہ بندی کرے تو ریٹ مناسب ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں کٹائی کے بعد کافی دن کھیت پررکھی جاتی تھی پھر بیل گاڑیوں کا استعمال ہوتا تھا تب تک دھان سوکھ جاتی تھی مگر اب جدید دور ہے ادھر سے فصل کاٹی اور مشین میں ڈال کر نکال لی جاتی ہے جہاں اس کے فائدے ہیں تو نقصان بھی ہیں۔

تیرہ اکتوبر کو جماعت اسلامی کسان بورڈ کے تحت ضلع کشمور کے صدر مقام کندھکوٹ میں صوبائی امیر کاشف سعید شیخ کی قیادت میں دھان کے کسانوں کے ساتھ ناانصافی کے خلاف گھنٹہ گھر سے حقوق کسان ریلی نکالی گئی۔ جس میں کسانوں اور سیاسی و سماجی رہنماؤں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ریلی کے شرکاء تپتی دھوپ شدید گرمی کے باوجود ڈی سی آفس کے سامنے دھرنا دیکر بیٹھ گئے اور ’’کسانوں کو ان کا حق دو، دھان کی قیمت دو کسانوں کا معاشی استیصال بند کرو‘‘ کے نعرے لگائے۔ امیر جماعت اسلامی سندھ کاشف سعید شیخ کا کہنا تھا کہ کسانوں کو کسان کارڈ نہیں بلکہ ان کو دھان سمیت اپنی فصلوں کی مناسب قیمت دی جائے۔ صوبائی امیر نے اعلان کیا آئندہ اتوار19 اکتوبر کو دھان کی مناسب قیمت کسانوں کے ساتھ ہونے والی نانصافیوں کے خلاف سندھ بھر میں پریس کلب اورڈی سی آفس کے سامنے دھرنے دیے جائیں گے۔ کسانوں کے ساتھ ناانصافی ختم کی جائے اور دھان کی قیمت کم از کم 4 ہزار روپے فی من امدادی قیمت مقرر کرکے حکومت عملدرآمد یقینی اور سرکاری خریداری کے مراکز قائم کیے جائیں۔ سندھ بھر کے کسان اور زمیندار پانی کی قلت، کھاد کی بلیک مارکیٹ میں فروخت، مہنگے بیج اور ادویات کی قلت کے خلاف گزشتہ کئی روز سے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں لیکن گونگے بہرے حکمران کوئی دھیان نہیں دے رہے۔ گزشتہ 15 سال سے سندھ کے کسانوں کو گنے، گندم اور دھان کی مناسب قیمت نہیں مل رہی۔ سندھ کے کسانوں کے خلاف مل مالکان، سرمایہ داروں اور حکومت کی ملی بھگت سے زراعت تباہ ہو چکی ہے۔ اس سے قبل کسان بورڈ پاکستان کے تحت 24، 25، 26 اکتوبرکو پنجاب میں کسان بچائو پاکستان بچائو روڈ کاروان کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔

ایسے محسوس ہورہا ہے کہ حکومت من پسند وڈیروں اور جاگیرداروں کو نواز رہی ہیں جب کہ چھوٹے کسانوں کو برباد کیا جارہا ہے۔ ڈی اے پی کھاد کی قیمت بھارت کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ ہے، بیج اور زرعی ادویات مہنگی اور جعلی ہیں۔ اس صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والوں کو دیوار سے لگانے کے بجائے ان کی سرپرستی و حوصلہ افزائی کرے۔ نہ صرف ان کو بیج کھاد ودیگر زرعی آلات میں خصوصی سبسڈی دی جائے۔ بلکہ موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے آگاہی دے بلکہ بروقت فصلوں کی کاشت کے حوالے سے بھی رہنمائی کرے۔ حکومت بروقت دھان کی سرکاری امدادی قیمت مقرر کرنے کے عملدرآمد یقینی اور سرکاری خریداری کے مرکز بھی قائم کرے۔ مناسب ریٹ اور ناجائز کٹوتی کا بھی نوٹس لے۔ وفاقی حکومت چاول کی ایکسپورٹ کے لیے خصوصی منصوبہ بندی اور بیرونی ممالک میں مارکیٹنگ کرے۔ زراعت کے فروغ اور کاشت کاروں کی خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کاشت کاروں کے احتجاج کے احتجاج پر سنجیدگی کا مظاہر اور ان کے دکھوں کا مداوا کرے۔

مجاہد چنا.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہے کہ حکومت کاشت کاروں کسانوں کے کسانوں کو کی وجہ سے جارہا ہے ہوتی ہے کی قیمت دھان کی دھان کے کے کسان نہیں مل کے ساتھ کے کاشت کے خلاف سندھ کے کے لیے

پڑھیں:

صوبے بھر میں گداگروں اور ان کے سہولت کاروں کی شامت آگئی

  علی ساہی :صوبے بھر میں بھکاریوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، جبکہ سیف سٹی اتھارٹی نے جدید مصنوعی ذہانت (اے آئی) ٹیکنالوجی کی مدد سے ان کی نشاندہی کا خودکار نظام تیار کر لیا ہے۔

سیف سٹی حکام کے مطابق   اے آئی جدید موشن انیلیکٹس رویے پر مبنی نیاسسٹم متعارف کروا دیا  ہے،سسٹم سڑکوں پر افراد کی حرکات و سکنات کو دیکھ کر بھکاریوں کی موجودگی کو ظاہر کرے گا، سسٹم افراد کی حرکات و سکنات کودیکھ کر اندازہ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہےکہ یہ بھکاری ہے یا نہیں۔

لکی مروت: پولیس موبائل پر خودکش حملہ، ایک اہلکار شہید، 6 زخمی 

  سیف سٹی حکام کے مطابق یہ نظام بغیر مشکوک سرگرمیوں کی نشاندہی کرنے کے لیے ایڈوانس موشن اینالیٹکس کا استعمال کرتا ہے،زیادہ دیر سڑک پر کھڑے رہنا ، گاڑیوں کے قریب جانا، سڑک پر آہستہ چلنا ، بے مقصد سڑک پر کھڑے رہنا شامل  ہے۔

حکام نے بتایا کہ یہ جدید نظام بھیک مانگنے کی سرگرمیوں اور بھکاریوں کے منظم گروہوں کی سرکوبی کیلئے تیار کیا گیا ہے، تاکہ شہروں میں سڑکوں پر پیش آنے والی مشکلات اور گداگری کے نیٹ ورک کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔

لکی مروت: پولیس موبائل پر خودکش حملہ، ایک اہلکار شہید

متعلقہ مضامین

  • بدقسمتی سے عددی اکثریت پر جو لوگ بیٹھے ہیں ان کو شہر کی فکر نہیں، علی خورشیدی
  • کراچی اسٹرٹیجک ڈویلپمنٹ پلان 2020 پر ابتک عمل درآمد کیوں نہیں ہوا، حکومت سے جواب طلب
  • بدقسمتی سے عددی اکثریت پر جو لوگ بیٹھے ہیں ان کو شہر کی فکر نہیں: علی خورشیدی
  • صوبے بھر میں گداگروں اور ان کے سہولت کاروں کی شامت آگئی
  • اپوزیشن کا 3 سالہ ابراہیم کی تصویر اٹھا کر سندھ اسمبلی میں احتجاج
  • گٹروں کے ڈھکن لگاتے ہی نشہ کرنے والے افراد چوری کرلیتے ہیں، ترجمان سندھ حکومت
  • مین ہول میں گر کر بچے کی ہلاکت‘ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کا احتجاج
  • سندھ حکومت کرپشن کا گڑھ بن چکی، 15 سال میں 3360 ارب روپے کھا لیے، حافظ نعیم الرحمن
  • کراچی؛ مین ہول میں گرنے والا بچہ تاحال نہیں مل سکا، تلاش جاری، شہریوں کا احتجاج
  • حکومت کے پاس دکھانے کو کچھ نہیں صرف کہتے ہیں کریں گے، محمد زبیر