پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات نے جھوٹے پروپیگنڈا کا پردہ چاک کر دیا، بھارت اور افغان طالبان سے جڑے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پاکستان کیخلاف گمراہ کن پروپیگنڈا میں مصروف ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان کے خلاف افغان طالبان رجیم کا مذموم پروپیگنڈا بے نقاب ہو گیا۔ پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات نے جھوٹے پروپیگنڈا کا پردہ چاک کر دیا، بھارت اور افغان طالبان سے جڑے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پاکستان کیخلاف گمراہ کن پروپیگنڈا میں مصروف ہے۔ ان سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے چمن اجتماع کی پرانی ویڈیوز کو پھیلانا شروع کر دیا، سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی ویڈیوز دسمبر 2022ء میں چمن اجتماع کی ہیں۔

جھوٹا بیانیہ، من گھڑت خبریں اور جعلی تصاویر طالبان رجیم کے منظم پروپیگنڈا مہم کا حصہ ہے، پرانی ویڈیوز کو نیا دکھا کر حقیقت کو مسخ کرنا افغان طالبان کے مذموم عزائم کی عکاسی کرتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت، پاکستان دشمن سازشوں میں افغان پروپیگنڈا مشین کا سب سے بڑا سہولت کار ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: افغان طالبان سوشل میڈیا پاکستان کی

پڑھیں:

پاک افغان جنگ بندی، مضمرات

برادر اسلامی ملک قطر نے اپنی ثالثی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے میں اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا جو قابل تعریف ہے، دوحہ مذاکرات کے پہلے مرحلے میں فوری جنگ بندی کا معاہدہ کیا گیا، پاکستانی وفد کے سربراہ وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان کے مطابق افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا سلسلہ فوری طور پر بند ہوگا، دونوں پڑوسی ملک ایک دوسرے کی سرزمین کا مکمل احترام کریں گے، دونوں ممالک کے درمیان ترکیہ کے شہر استنبول میں 25 اکتوبر کو دوبارہ مذاکرات ہوں گے جس میں تفصیلی معاملات طے کیے جائیں گے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ جھڑپوں سے جہاں خطے میں کشیدگی پیدا ہوگئی ہے اور تنازع سے خطے کے امن کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں، وہیں عالمی سطح پر اس کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے چین، روس، ترکیہ، قطر، سعودی عرب، ایران اور دیگر ممالک نے سخت تشویش کا اظہار کیا اور بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

ترکیہ اور قطر کی کوششوں سے دوحہ میں مذاکرات کا پہلا مرحلہ جو 13 گھنٹے طویل رہا مکمل ہونے پر یہ اعلان سامنے آیا کہ افغانستان کی طالبان حکومت نے جنگ بندی پر رضامندی ظاہرکرتے ہوئے پاکستان کے اس دیرینہ مطالبے کو تسلیم کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر پناہ گزین دہشت گرد گروپوں کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں سے روکے گا۔ دوحہ معاہدے کی جملہ تفصیلات تو میڈیا کے سامنے نہیں آئیں، تاہم پاکستان میں حکومتی سطح پر اسے بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے اور توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ 25 اکتوبر کو استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں تمام تفصیلات باقاعدہ طے کر لی جائیں گی جیساکہ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ دوحہ معاہدہ صحیح سمت میں پہلا قدم ہے اور ترکیہ کی میزبانی میں استنبول میں ہونے والے آیندہ اجلاس میں ایک ٹھوس اور قابل تصدیق نگرانی کا نظام قائم کیا جائے گا۔

دوحہ جنگ معاہدے سے عالمی برادری کو واضح طور پر یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور جنوبی ایشیا کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے پوری طرح سنجیدہ اور مخلص ہے، خطے میں کسی بھی پڑوسی ملک سے کشیدگی، تنازع اور جنگی اقدام کا خواہاں نہیں ہے، لیکن اگر کسی ملک نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا تو ملک کی مسلح افواج مادر وطن کا دفاع کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھے گی اور دشمن کے ہر وار کا پہلے سے زیادہ سخت اور منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

 فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے واضح کر دیا ہے کہ پڑوسی ملک کی ہر ریاستی پراکسی کو خاک میں ملا دیا جائے گا۔ انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں پیغام دیا کہ طالبان رجیم پراکسیوں کو لگام ڈالے جن کی افغانستان میں پناہ گاہیں ہیں۔ یہ پراکسیاں پاکستان کے اندر گھناؤنے حملے کرنے کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کرتی ہیں مٹھی بھر دہشت گردوں کے آگے کبھی نہیں جھکیں گے۔

دوحہ جنگ بندی معاہدے پر ایک جانب اطمینان کا اظہار اور مستقبل میں پاک افغان تعلقات میں بہتری اور کشیدگی کے خاتمے کی امید کی جا رہی ہے، تو دوسری جانب تحفظات اور خدشات کا بھی برملا اظہار کیا جا رہا ہے جو ناقابل فہم نہیں۔ ماضی میں بھی پاکستان ایک سے زائد مرتبہ طالبان حکومت کو دو ٹوک پیغام دیتے ہوئے خبردار کرچکے ہیں کہ وہ افغان سرزمین پر موجود دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کو ختم کرے جو پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہیں اور انھیں بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے، لیکن افغان طالبان نے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا نتیجہ جنگ کی صورت میں نکلا۔

یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ طالبان حکومت پاکستان سے زیادہ بھارت کی مودی حکومت کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔ اس کا بین ثبوت افغانستان کے وزیر خارجہ امیر متقی کا حالیہ بھارت کا دورہ ہے جس میں انھوں نے بھارتی موقف کی تائید کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت کا علاقہ قرار دیا تھا جو پاکستان دشمنی کا کھلا اظہار ہے، اس بات کے بھی ثبوت موجود ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ مودی حکومت کی سرپرستی میں افغانستان میں موجود دہشت گردوں کو مالی و عسکری تعاون فراہم کرتی ہے۔

پاکستان سے شکست کے بعد مودی حکومت بری طرح بوکھلاہٹ کا شکار ہے، اسی لیے افغان طالبان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرکے خطے کے امن کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ افغان طالبان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ماضی میں ہر موقع پر پاکستان نے افغانستان کا ساتھ دیا ہے۔

روسی مداخلت سے امریکی جارحیت تک اور افغان مہاجرین کی میزبانی سے کابل میں طالبان حکومت کے قیام تک پاکستان نے سفارتی محاذ پر افغانستان کے ساتھ ہر طرح مخلصانہ تعاون فراہم کیا جب کہ بھارت کبھی افغانستان کا ہمدرد نہیں رہا۔ طالبان حکومت پر لازم ہے کہ وہ دوحہ جنگ بندی معاہدے پر اخلاص نیت کے ساتھ عمل کرے، بھارت سے تعلقات پر نظر ثانی کرے اور دہشت گردوں کی پشت پناہی سے باز رہے بصورت دیگر خطے کا امن اور سلامتی کو گزند پہنچی تو بھارت اور افغانستان ذمے دار ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان جنگ بندی کا مستقبل؟
  • بھارت افغان پروپیگنڈا، چمن کے پرانے اجتماع کی ویڈیو کو موجودہ حالات سے جوڑنے کی کوشش ناکام
  • پاکستان، افغانستان اور مستقبل کے امکانات
  • پاک افغان جنگ بندی، مضمرات
  • مصافحہ کرنے کے بعد پاکستانی کا’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ، بھارتی کپتان شبمن گل حیران، ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ٍ
  • سوشل میڈیا اور پاکستانی معاشرہ
  • بھارت اور افغان طالبان کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوگئے
  • افغان وزیر خارجہ کے دورے کے بعد بھارت کا کابل میں سفارت خانہ بحال
  • طالبان کیساتھ تعلقات میں نئی پیشرفت،کابل میں بھارتی سفارتحانہ بحال