اگر حور ہو یا پری گلے کا ہار بن جائے تو…
اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انورمسعود نے کہا ہے:
چھوڑا نہیں کسی کو بھی یلغار وقت نے
آخر کھجور کو بھی چھوارا بنا دیا
فیلڈ مارشل عاصم منیر اگر اس انجام سے بچنا چاہتے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی حسینہ کو کئی بار دیکھنا نہ پڑے تو پھر وہ ایک بار بھی دیکھے جانے کے قابل نہیں۔ 27 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد کئی بار نہیں ہر بار ہر طرف فیلڈ مارشل عاصم منیر مرکز نگاہ ہوں گے۔ اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ غالب نے کہا تھا:
چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے
اچھوںکو دنیا کی ہر نعمت ملے یہ فطری بات ہے لیکن اگر اچھے خود ہمیں چاہیں، خود ہمیں مل جائیں، تو اس سے بڑی نعمت کیا ہوگی۔ 27 ویں ترمیم سے کچھ ایسا ہی بندوبست ہوگیا ہے۔ جنگ مئی کے بعد پاکستانیوں کے لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر سے بڑھ کر اچھا کون ہوگا۔ دنیا بھر میں جو عزت، مرتبہ اور مقام انہوں نے پاکستان کو دلوایا ہے ایسا کس کے تصور میں تھا تو اگر یہ ’’اچھے‘‘ 27 ویں ترمیم کے ذریعے آئین بدل کر اقتدار کی مدت بڑھاکر تا حیات ہمارے ساتھ رہیں تو پھر اور کیا چاہیے؟ اسی غزل میں آگے غالب نے کہا ہے
چاہتے ہیں خوبرویوں کو اسد
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے
اس شعر کی 27 ویں ترمیم کے بعد تشریح یہ ہوگی کہ خوبصورت لوگ سبھی کو اچھے لگتے ہیں مگر اگر کوئی واقعی حسن دیکھناچاہے تو فیلڈ مارشل عاصم منیر کو دیکھے۔ غالب کے خوبرو کے پاس صرف ظاہری حسن ہے مگر ہمارے خوبرو کے پاس اقتدار کی، طاقت کی، دلکشی بھی ہے۔ حسن اقتدار، حسن ترمیم اور حسن قیادت کسی ایک خوبرو میں جمع ہیں تو وہ فیلڈ مارشل عاصم منیر ہیں۔ جس طرح طب میں ہر بیماری کی دوا میں منقا اور آج کل ہر شادی میں بریانی لازم ہے اب پاکستان میں ہر معاملے میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کی رضا اور آشیر باد لازمی ہے۔ جس طرح غالب کو سمجھنے کے لیے اس سے عشق کرنا ہی پڑتا ہے اسی طرح اب پاکستان کے سمندر میں غوطہ زن ہونے کے لیے فیلڈ مارشل کی نظر عنایت ضروری نہیں لازمی ہے۔ حاسدین حسد کرتے ہیں تو کرتے رہیں۔
آکے لے جائے میری آنکھ کا پانی مجھ سے
کیوں حسد کرتی ہے دریا کی روانی مجھ سے
یہ انداز بھی صرف غالب ہی کو سوٹ کرتا ہے کہ وہ یہ چاہیں کہ کوئی آئے اور مجھ سے محبت کرے۔ یہ محبت عبادت کی طرح نہیں ہوتی تھی، بڑی پابندی، بڑی بے دلی اور بڑی بے رغبتی کے ساتھ اور نہ ہی بھڑک کی طرح ہوتی تھی کہ تھوڑی دیر میں فراغت ہو جائے بلکہ تا حیات ہوتی تھی۔ اب پاکستان اور فیلڈ مارشل کی محبت کا بھی یہی عالم ہے۔ نہ یہ محبت عارضی ہے، نہ وقتی اور نہ موسمی یہ محبت دائمی ہے جس میں محبوب کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔
تیرے پہلو سے جو اٹھوں گا تو مشکل یہ ہے
صرف ایک شخص کو پائوں گا جدھر جائوں گا
صاحبو وہ جو اقبال نے کہا ہے کہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔۔ تو اگر 75 برس کی ریاضت کے بعد یہ چمن ہمیں ایک دیدہ ور دے ہی بیٹھا ہے تو کیا یہ اچھا نہیں کہ اسے 27 ویں ترمیم کی پیکنگ میں سنبھال کررکھا جائے تاکہ جمہوریت کی گرد اس پر نہ پڑے۔ ہمیں احساس نہیں کسی چیز کی کمی یا رہنما یا لیڈر کی غیر موجودگی سے ادارے یا لوگوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور پھر جب کہ ہم بھارت اور افغانستان کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اور یہ حالت جنگ تاحیات ہے تو پھر فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی تاحیات ہونے چاہیں۔۔ کیوں۔۔ اس لیے کہ بھارت اور افغانستان کے لیے ان کا نام ہی کافی ہے۔
ہمیں ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ معترضین کو فیلڈ مارشل عاصم منیر کے تاحیات فیلڈ مارشل رہنے سے تکلیف کیا ہے۔ جنرل (ر) راحیل شریف نے پا کستان کو کوئی جنگ جیت کر نہیں دی لیکن ریٹائر منٹ کے بعد حکومت پاکستان نے ازراہ جنرل نوازی انہیں لاہور کے نزدیک 90 ایکڑ یعنی 4 لاکھ 35 ہزار 600 مربع گز زمین مراعات کے طور پر دے دی۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے تو ہمیں پاکستان کی سب سے عظیم جنگی کامیابی سے ہمکنار کیا ہے اگر انہیں پورا پاکستان دے دیا گیا تو کسی کے کلیجے میں کیوں درد ہورہا ہے؟
پھر ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دوام اقتدار کی لازمی فینٹسی اور وہم دوام ہے۔ رومی بادشاہ آگسٹس اور کا لیگولا نے خود کو خدائوں کا اوتار قرار دیا تھا۔ اکبر نے دین الٰہی کے ذریعے مذہب، سلطنت اور اپنی اطاعت کو یکجا کردیا تھا۔ نپولین بونا پارٹ نے فرانس کا نیا آئین لکھوا کر اپنے لیے غیر معینہ مدت اقتدار کا راستہ بنایا تھا۔ ہٹلر نے 1933 میں Enabling Act منظور کروا کر پارلیمان کو بے اختیار کردیا تھا۔ صدر ضیاالحق اور جنرل مشرف نے آئینی ترامیم کے ذریعے اپنی بغاوت اور اقتدار کو قانونی شکل دی تھی۔ صدر ایوب نے 1960میں بنیادی جمہوریت کے نظام کے ذریعے اپنی صدارت کی منظوری عوام سے لی تھی۔ مسولینی، پنوشے اور قذافی سب نے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے جعلی ریفرنڈم کروائے تھے۔ ولادی میر پیوٹن نے روس کے آئین میں ترمیم کروا کر اپنی مدت اقتدار کو 2036 تک طول دینے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔ اردشیر بابکان نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اسے ایران کی قدیم سلطنتوں سے جوڑتے ہوئے کیلنڈر سے تین صدیاں غائب کردی تھیں۔ محمد رضاشاہ پہلوی نے 1976 میں شاہنشاہی کیلنڈر نافذ کرکے 1355 کو 2535 کردیا تھا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی اگر دوام کا خواب دیکھ رہے ہیں تو کون سا نیا کررہے ہیں کون سا جرم کررہے ہیں۔ جب بادشاہ محسوس کرتے ہیں کہ سورج ان کے محل کے گنبد پر اپنی کرنیں نہیں بکھیر رہا ہے تو وہ آسمانوں پر مدار تبدیل کرنے نکل پڑتے ہیں۔
عوام کی فلاح اور بہبود کا جہاں تک تعلق ہے 27 ویں آئینی ترمیم کا حال غالب کی عبادت جیسا ہے۔۔ ایک دن بھی مسجد گیا ہوں تو کافر۔۔ عوام کے بنیادی حقوق، تعلیم، صحت، روزگار، معاشرتی تحفظ، عدل وانصاف کی فراہمی کو ہاتھ لگانے سے اس ترمیم میں ایسے ہی اجتناب کیا گیا ہے جیسے غالب مسجد جانے سے کرتے تھے۔ ترمیم میں بس ایک ہی کوشش ہے۔ اقتدار کا دوام اور طوالت۔ حالانکہ اس باب میں بھی غالب کہہ گئے ہیں۔۔۔ اگر حور ہو یا پری گلے کا ہار بن جائے تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فیلڈ مارشل عاصم منیر ویں ترمیم اقتدار کو کے ذریعے ہیں کہ نے کہا کے بعد کے لیے تو پھر ہیں تو
پڑھیں:
27 ویں ترمیم، فیلڈ مارشل کو آرٹیکل 248 کے تحت قانونی استثنیٰ دے دیا گیا
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) حکومت نے 27 ویں آئینی ترمیم سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کرلی۔ آئین کے آرٹیکل 243 کی شق 4 اور 7 میں ترمیم کے تحت چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے کا نام تبدیل کر کے کمانڈر آف ڈیفنس فورسزکردیا گیا ہے۔
ترمیم کے مطابق صدر مملکت وزیراعظم کی تجویز پر ایئرچیف اور نیول چیف کی طرح کمانڈرآف ڈیفنس فورسز کا تقرر کریں گے جبکہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ 27نومبر 2025 سے ختم تصور کیا جائیگا۔اس کے علاوہ وزیر اعظم، آرمی چیف کی سفارش پر کمانڈر نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کا تقرر کرینگے اور یہ پاکستان آرمی کے ارکان میں سے ہوگا جس کی تنخواہ اور الاؤنسز مقرر کیے جائیں گے۔
27 ویں آئینی ترمیم سے جمہوریت مضبوط ہو گی، حکومتی سینیٹرز
ترمیم کے تحت وفاقی حکومت فوجی افسر کو فیلڈ مارشل، ایئر مارشل یا ایڈمرل چیف کو رینک پرترقی دے گی جس کے بعد وردی، اور مراعات تاحیات رہیں گی جبکہ فیلڈ مارشل، ایئر مارشل اور ایڈمرل چیف کو بطور قومی ہیروز تصورکیا جائے گا اور تینوں کو آرٹیکل 47 کے بغیر عہدوں سے نہیں ہٹایا جا سکے گا۔ترمیم کے مطابق وفاقی حکومت فیلڈ مارشل، ایئر مارشل اور ایڈمرل چیف کی ذمہ داریوں اور امور کا تعین کرے گی جبکہ فیلڈ مارشل کو آرٹیکل 248 کے تحت قانونی استثنیٰ حاصل ہو گا۔
مزید :