نوجوان ہمارا قیمتی اثاثہ ؛ ترقی میں شمولیت کیلئے نیشنل ایڈولسنٹ اینڈ یوتھ پالیسی مثبت اقدام !!
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
وفاقی حکومت کی جناب سے وزیراعظم یوتھ پروگرام کا آغازکیا گیا جس کے تحت ملک بھر کے نوجوانوں کیلئے لیپ ٹاپ سکیم، سکالر شپ، جدید کورسز سمیت مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اس پروگرام کے تحت نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور ملکی ترقی میں ان کی شمولیت کیلئے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نیشنل ایڈولسنٹ اینڈ یوتھ پالیسی لائی جا رہی ہے جس میں 10 برس کی عمر کے بچوں سے لے کر نوجوانوں تک، سب کو شامل کیا جائے گا۔ اس پالیسی پر نوجوانوں سے مشاورت کا کام جاری ہے اور حکومت کی جانب سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ آئندہ دو ماہ میں مشاورتی عمل مکمل کرکے اس پالیسی کا اعلان کر دیا جائے۔
اس پالیسی کے خدوخال کیا ہیں؟ اس سے بچوں اور نوجوانوں کو کیا فائدہ ہوگا؟ ملکی تعمیر و ترقی میں یہ پالیسی کیسے معاون ثابت ہوگی؟ اس پر عملدرآمد کا میکنزم کیا ہوگا؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ’’نیشنل ایڈولسنٹ اینڈ یوتھ پالیسی‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
صبیحہ شاہین
(فوکل پرسن ، نیشنل ایڈولسنٹ اینڈ یوتھ پالیسی، وزیراعظم یوتھ پروگرام)
نوجوانوں کو ترقی کے مواقع فراہم کرکے انہیں بااختیار بنانے کیلئے وزیراعظم یوتھ پروگرام کے تحت ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ نیشنل ایڈولسنٹ اینڈ یوتھ پالیسی لائی جا رہی ہے جو 4Es یعنی ایجوکیشن، ایمپلائمنٹ، انگیجمنٹ اور انوائرمنٹ پرمشتمل ہے۔
یہ بھی پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ نوجوانوں کیلئے بنائی جانے والی پالیسی میں ملک بھر کے نوجوانوں سے ہر سطح پر مشاورت کی جا رہی ہے۔ ڈپٹی سیکرٹری، فوکل پرسنز اور ماہرین پر مشتمل 25 رکنی وفد چترال کی پہاڑیوں، سوات کی وادیوں، مردان سمیت ملک کے طول و عرض میں گیا اور وہاں کے مقامی نوجوانوں سے مشاورت کی۔ہر یونیورسٹی میں 4 فوکس گروپ بنائے جاتے ہیں اور اس طرح ان کی آراء لی جاتی ہیں۔
اس وقت تک صوبہ پنجاب کے علاوہ ملک بھر میں مشاورتی عمل مکمل ہوچکا ہے۔ پاک بھارت جنگ کی وجہ سے یہ عمل رک گیا جس دن بھارت نے بہاولپور میں مذموم حرکت کی اس وقت ہم اسی سلسلے میں بہاولپور موجود تھے۔اس پالیسی پر کافی کام ہوچکا، پنجاب کے 25 شہروں میں مشاورت کے بعد آئندہ دو ماہ میں اس پالیسی کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اس فورم کے توسط سے میری تمام نوجوانوں سے اپیل ہے کہ پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس لازمی فالو کریں ،ا ن کیلئے بہترین پروگرامز چل رہے ہیں اور ابھی مزید لائے جا رہے ہیں۔
حکومت چاہتی ہے کہ کوئی بھی نوجوان پیچھے نہ رہے، ان پیجز پر نوجوان ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ ملکی آبادی کا 65 فیصد نوجوان ہیں، حکومت اکیلے انہیں روزگار نہیں دے سکتی لہٰذا ہمیں انٹرپرینورز پیدا کرنا ہوں گے۔ ہم مدارس اور سکولز کے طلبہ کو بھی ساتھ لے کر چل رہے ہیں، کسی بھی شہری سے کوئی امتیازی سلوک نہیں برتا جا رہا، پرائم منسٹر یوتھ پروگرام سب کیلئے ہے۔نیشنل ایڈولسٹ اینڈ یوتھ پالیسی میں ماحول پر خصوصی توجہ ہے، ہم گرین انٹرپرینور شپ کو فروغ دے رہے ہیں تاکہ ماحول کو بھی محفوظ بنایا جائے۔
عظمیٰ یعقوب
(ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ایف ڈی آئی)
ملکی تاریخ کی پہلی نیشنل ایڈولسنٹ اینڈ یوتھ پالیسی کا کریڈٹ چیئرمین پرائم منسٹر یوتھ پروگرام رانا مشہوداحمد خان، فوکل پرسن ، نیشنل ایڈولسنٹ اینڈ یوتھ پالیسی، وزیراعظم یوتھ پروگرام صبیحہ شاہین اور ان کی پوری ٹیم کو جاتا ہے۔
یہ پالیسی یقینا ملکی ترقی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ نوجوان ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں، ان سے ملکی معیشت مستحکم ہوسکتی ہے لیکن اگر ان پر توجہ نہ دی گئی تو یہ معیشت پر بوجھ بن سکتے ہیں جس کا اثر ملکی ترقی پر پڑے گا لہٰذا ان کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ میرے نزدیک اس وقت سب سے اہم نوجوانوں کو امید دینا ہے اور مایوسی کے اندھیروں سے نکالنا ہے۔ انہیں یقین دلوانا ہے کہ ریاست ان کے ساتھ، ان کی بہتری کیلئے اقدامات کرنے میں سنجیدہ ہے اور اس حوالے سے کام بھی کر رہی ہے۔
میرے نزدیک پالیسی سازی سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ نوجوانوں کا ریاست پر اعتماد بحال کیا جائے۔ ریاست کو چاہیے کہ نوجوانوں کو انتہائی سنجیدگی، ذمہ داری اور بغیر کسی تاخیر کے آگے بڑھنے کے مواقع دے۔ یہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور جدید یت کا دور ہے لہٰذا ایسے منصوبے لانے کی ضرورت ہے جو ہمارے مقامی حالات اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم، روزگار، ایکسچینج پروگرام و دیگر حوالے سے پیشگی تربیت دینی ہے، انہیں ہر چیز کے لیے پہلے سے تیار کرنا ہے تاکہ ان کیلئے چیلنجز سے نمٹنا آسان ہو۔ نوجوانوں کیلئے کیے جانے والے اقدامات، پہلے سے کھڑی عمارت کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کریں گے، ہمیں تمام طبقات کو بلاتفریق قومی دھارے میں لانا ہے۔
نوجوان، خواتین، خواجہ سراء، اقلیتیں، خصوصی افراد سمیت سب کو یکساں مواقع فراہم کرنا ہونگے۔ ہمیںا ٓزاد و جموں کشمیر، گلگت بلتستان، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا یعنی ملک بھر کے نوجوانوں کو قومی دھارے میں لانا ہوگا اور سب کو آگے بڑنے کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔
ہمارے تعلیمی نظام کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ اس میں سب نے اپنے اپنے مضامین شامل کروا لیے لیکن ان میں ہم آہنگی نہیں ہے ۔ 18 ویں ترمیم کے بعد نصاب کے زیادہ مسائل پیدا ہوئے۔ اب طلبہ کنفیوژن کا شکار ہیں۔ میرے نزدیک ہمارے تعلیمی نصاب کی سرجری کی ضرورت ہے، اس کے بغیر معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ عصر حاضر میں ایک بڑا مسئلہ مینٹل ہیلتھ ہے لہٰذا اگر ہمیں نوجوان نسل کا حال اور مستقبل بہتر بنانا ہے تو قومی سطح پر مینٹل ہیلتھ اور ویل بیئنگ کو پالیسی کا حصہ بنانا ہوگا کیونکہ جب تک باقاعدہ پالیسی نہیں ہوگی تب تک اس کام کیلئے وسائل دستیاب نہیں ہوں گے۔
رامین مشہود
(ممبر نیشنل یوتھ کونسل آف پاکستان)
ملکی آبادی کا 60 فیصد کے قریب نوجوان ہیں، یہ اثاثہ بھی ہیں اور رسک بھی۔ ان کیلئے حکومت کو بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ 2024ء کی رپورٹ کا جائزہ لیں تو گزشتہ برس 11 فیصد نوجوان بے روزگار رہے جو ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ شرح ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس سافٹ سکلز، وویکیشنل ٹریننگ اور پریکٹیکل سکلز نہیں ہیں۔
ہمارے ہاں انٹرپرینیور شپ کی بات ہوتی ہے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے سٹارٹ اپ کلچر میں 90 فیصد ناکام ہو جاتے ہیں، اس کے فروغ کیلئے ہمیں کاروبار دوست پالیسیاں بنانا ہوں گی۔سٹارٹ اپ کی گروتھ کیلئے ضروری ہے کہ صنعت و تجارت میں استحکام آئے۔
ایڈولسنٹ کی عمر 10 سے 19 برس ہوتی ہے، یہ بچے نفسیاتی اور جسمانی مسائل سمیت دیگر چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، یہ کمزور ہوتے ہیں لہٰذا ان کی رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا مستقبل اور زندگی بہتر بنائی جاسکے۔ سکولوں میں بچوں کو رہنمائی ملتی ہے لیکن دوسری طرف ہمارے کروڑوں بچے سکول نہیں جاتے ، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، ان کی تربیت، شمولیت اور ترقی کے بغیر ملکی ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ ان بچوں کو ووکیشنل اور ٹیکنیکل ٹریننگ کی ضرورت ہے، اس کیلئے حکومتی ادارے موجود ہیں، انہیں سسٹم میں لانا ہوگا۔
نیشنل یوتھ کونسل کے کل 113 ممبرز ہیں جن میں سے 13 اوورسیز پاکستانی ہیں۔ یہ تمام اراکین ایک طویل طریقہ کار کے تحت منتخب ہوتے ہیں، اس میں ملک بھر سے تمام طبقات کی نمائندگی ہے اور یہاں کوئی امتیاز نہیں برتا جاسکتا۔ نیشنل یوتھ کونسل کے اراکین وزیراعظم منسٹر یوتھ پروگرام کے حوالے سے نوجوانوں کی رہنمائی کر رہے ہیں تاکہ کوئی بھی نوجوان حکومتی پالیسیوں سے محروم نہ رہے۔ پالیسی سازی میں علماء کونسل سے بھی رہنمائی لی جا رہی ہے تاکہ مدارس کے طلبہ کو بھی شامل کیا جاسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سب کو ساتھ لے کر ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب پرانا ہوچکا، اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔
حسین ہاشمی
(نائب صدر، نیشنل یوتھ والنٹیئر نیٹ ورک)
ایڈولسنٹ اور یوتھ، ملکی آبادی کا 67 فیصد ہیں۔ ملک میں پہلی مرتبہ ان کے لیے پالیسی بنائی جارہی ہے جو خوش آئند اور حوصلہ افزاء ہے، اس سے ہر سطح پر ان کا استحصال ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ باعث افسوس ہے کہ فری انٹرن شپ کے نام پر ڈگری ہولڈر نوجوانوں کا استحصال ہو رہا ہے، ان سے بلامعاوضہ کام لیا جاتا ہے جس کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ ہمارا ادارہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں گلوبل والنٹیئرسٹینڈرڈز کے بارے میں آگاہی دے رہا ہے۔ ہم نے نوجوانوں سے ان کی رائے بھی لیتے ہیں جنہیں پارلیمنٹیرینز تک پہنچایا جاتا ہے تاکہ پالیسی سازی میں بہتری لائی جاسکے۔
یہ بھی ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ نوجوانوں کے بنائی جانے والی پالیسی میں ان سے مشاورت کی جا رہی ہے جو یقینا احسن اقدام ہے، اس کے دیرپا اثرات مرتب ہوں گے اور اس پر عملدرآمد میں بھی آسانی ہوگی۔ اس پالیسی میں نوجوانوں کی دماغی صحت پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے جو انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ اس پالیسی میں نوجوانوں کی ’سٹرکچرڈ ایمپلائمنٹ‘ کی بات کی جا رہی ہے۔
جب اس کا ڈھانچہ بن جائے گا اور نوجوانوں کی ملازمتوں کو پالیسی کے تحت دیکھا جائے تو ان کے روزگار کے مسائل حل کرنے میں بہت مدد ملے گی۔نوجوانوں کیلئے پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں ایسے میں ہمارا مطالبہ ہے کہ گلوبل والنٹیئر سٹینڈرڈز کو نہ صرف پنجاب یوتھ پالیسی بلکہ نیشنل یوتھ اینڈ ایڈولسنٹ پالیسی کا بھی حصہ بنایا جائے۔ گزشتہ تین برسوں سے ہمارا نیٹ ورک بارہا پنجاب حکومت تک اپنا مطالبہ پہنچا چکا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ گلوبل والنٹیئر سٹینڈرڈز کی پالیسیوں میں شمولیت سے نہ صرف پاکستان میں والنٹیئرازم میں جدت آئے گی بلکہ نوجوانوں کے رضاکارانہ کاموں کو پہچان کے ساتھ بھی فروغ ملے گا۔ ہمارے حکومتی ادارے جو عوام کو مختلف سہولیات مہیا کر رہے ہیں، ان میں شکایات کے طریقہ کارکو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ان اداروں تک ہر شہری کی رسائی ہو اور شکایت کے لیے آنے والے سائلین کو عزت دی جائے گی تو معاملات بہتر ہوسکتے ہیں۔
ہر ادارے میں ایسا میکنزم ہونا چاہیے جو ہر قسم کی شکایت کے فوری حل کیلئے وقت متعین کرے اور درخواستوں کو سالہا سال نہ لٹکایا جائے۔ مزید یہ کہ شکایات اور ان کے ازالے کے حوالے سے ہر ادارے کی ماہانہ یا سہ ماہی رپورٹ شائع ہونی چاہیے، اس سے اداروں کی کارکردگی بہتر ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وزیراعظم یوتھ پروگرام منسٹر یوتھ پروگرام نوجوانوں کیلئے نوجوانوں سے نوجوانوں کی کہ نوجوانوں نوجوانوں کو کی ضرورت ہے پالیسی میں نیشنل یوتھ پروگرام کے پہلی مرتبہ ملکی تاریخ ملک بھر کے اس پالیسی پالیسی کا ملکی ترقی رہی ہے جو جا رہی ہے حوالے سے رہے ہیں ہے تاکہ کے لیے ہوں گے ہے اور رہا ہے کے تحت
پڑھیں:
پاکستان کا صنعتی شعبہ بہتر ہو رہا ہے، آئی ٹی اور سروسز میں ترقی ہو رہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کررہے ہیں ، جام کمال خان
تہران (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 ستمبر2025ء) وفاقی وزیرِ تجارت جام کمال خان نے پاکستان اور ایران کے درمیان ’’مشترکہ خوشحالی کے نئے باب‘‘ کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا صنعتی شعبہ بہتر ہو رہا ہے، آئی ٹی اور سروسز میں ترقی ہو رہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کررہے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاک ایران بزنس فورم 2025 سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ یہ فورم تہران میں پاکستان۔ایران مشترکہ اقتصادی کمیشن (JEC) کے 22ویں اجلاس کے موقع پر منعقد ہوا جس میں بڑی تعداد میں ایرانی اور پاکستانی کاروباری رہنماؤں، حکام اور سفارت کاروں نے شرکت کی۔ منگل کوتہران سے جاری پریس ریلیز کے مطابق وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان نے فورم سے خطاب میں کہا کہ بزنس فورم کا اتنے بڑے پیمانے پر پہلی مرتبہ انعقاد اس امر کا مظہر ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت اور عوام دوستی کو ٹھوس معاشی نتائج میں ڈھالنے کے لیے پرعزم ہیں۔(جاری ہے)
انہوں نے دوطرفہ تجارت کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے لیے متعدد اقدامات کا خاکہ پیش کیا، جن میں بینکنگ، لاجسٹکس، شپنگ، ایوی ایشن، فری زونز، ہائی اینڈ مینوفیکچرنگ، زراعت اور سرمایہ کاری کے فروغ پر 17 نئے پروٹوکولز پر مذاکرات، بارڈر مارکیٹس اور خصوصی اقتصادی زونز کو فعال بنانا ہے تاکہ سرحدی علاقوں میں روزگار اور کاروبار کے مواقع بڑھیں، حکومتِ پاکستان کے پانچ سالہ معاشی منصوبہ ’’اُڑان پاکستان‘‘ کے تحت توانائی، معدنیات، زراعت اور مینوفیکچرنگ میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا فروغ، کسٹمز، ٹیرف اور ریگولیٹری رکاوٹوں کے خاتمے کے لیے پاکستانی اور ایرانی ٹیموں کے درمیان قریبی تکنیکی تعاون شامل ہے ۔ جام کمال خان نے کہا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومتِ پاکستان نے ایران کے ساتھ تجارت اور روابط کو اعلیٰ ترین اسٹریٹجک ترجیح دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا صنعتی شعبہ بہتر ہو رہا ہے، آئی ٹی اور سروسز میں ترقی ہو رہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری پاکستان کا رخ کر رہی ہے۔ وفاقی وزیر نے ایرانی کمپنیوں کو نومبر 2025 میں پاکستان میں ہونے والے ایگریکلچر ایکسپو میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ یہ موقع مینوفیکچرنگ ہبز دیکھنے اور نئی منڈیوں کو دریافت کرنے کے لیے ایک گیٹ وے ثابت ہوگا۔انہوں نے اعلان کیا کہ پاکستان جلد 23ویں مشترکہ اقتصادی کمیشن کا اجلاس پاکستان میں منعقد کرے گا تاکہ تہران میں طے پانے والے معاہدوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جا سکے۔ فورم سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی وزیر فرزانہ صادق نے گزشتہ برسوں میں دوطرفہ تجارت میں قابلِ ذکر اضافے کو سراہا اور کہا کہ تجارت گزشتہ سال 3.1 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی قیادت کی رہنمائی میں تجارتی ہدف 10 ارب ڈالر تک پہنچنے کے لیے پیش رفت جاری ہے۔ فرزانہ صادق نےدواسازی، سیرامکس اور دیگر شعبوں میں مشترکہ سرمایہ کاری کے منصوبوں پر دلچسپی ظاہر کی۔ فرزانہ صادق نے کہا کہ پاکستان۔ایران بزنس فورم دونوں ممالک کے لیے عملی پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے جس سے تعاون میں تیزی اور دونوں قوموں کے لیے ٹھوس نتائج حاصل ہوں گے۔ ایرانی وزیر نے پاکستان میں آنے والے حالیہ سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے قیمتی جانی و مالی نقصان پر افسوس کا اظہار بھی کیا ۔ جام کمال نے ایران کی حکومت، ایرانی وزیر برائے سڑک و شہری ترقی فرزانہ صادق اور ایرانی ٹریڈ پروموشن آرگنائزیشن کا شاندار انتظامات اور میزبانی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہماری اقتصادی شراکت داری کو بھی اتنا ہی گہرا اور پائیدار ہونا چاہیے جتنا کہ ہمارے مذہبی، ثقافتی اور تاریخی تعلقات ہیں جو صدیوں پر محیط ہیں۔فورم کے اختتام پر دونوں وزراء نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاک۔ایران تاریخی تعلقات کو پائیدار اور جدید اقتصادی شراکت داری میں ڈھال کر علاقائی خوشحالی اور عالمی مسابقت کی راہ ہموار کریں گے۔