لاہور ہائیکورٹ: سرکاری خزانے سے ذاتی تشہیر کا معاملہ، چیف سیکریٹری پنجاب طلب
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کی جانب سے سرکاری خزانے سے ذاتی تشہیر کے خلاف عالیہ حمزہ کی درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے چیف سیکرٹری پنجاب کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
جسٹس فاروق حیدر نے ریمارکس دیے کہ اگر چیف سیکرٹری پیش نہ ہوئے تو عدالت درخواستوں پر فیصلہ سنا دے گی۔ عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 3 سماعتوں سے حکومت کی جانب سے کوئی جواب جمع نہیں کرایا گیا، اور آج بھی یہی روش اپنائی جا رہی ہے۔
سرکاری وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سپریم کورٹ میں مصروفیت کے باعث پیش نہیں ہوسکے۔ عدالت نے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں: ایکس کی بندش، چیئرمین پی ٹی اے لاہور ہائیکورٹ کو جواب سے مطمئن نہ کرسکے
جسٹس فاروق حیدر نے درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اسے 5 جون تک ملتوی کردیا اور وفاقی و صوبائی لا افسروں کو جواب جمع کرانے کی ہدایت دی۔ عدالت نے واضح کیا کہ اگر آئندہ سماعت پر بھی جواب جمع نہ کرایا گیا تو سرکاری وکلا کا جواب جمع کرانے کا حق ختم کر دیا جائے گا اور درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔
لاہور ہائیکورٹ: ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست، ایف آئی اے سے جواب طلبلاہور ہائیکورٹ میں شہری صارم جاوید اور محمد رضوان کی ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست پر سماعت ہوئی، عدالت نے ایف آئی اے سے تحریری جواب طلب کرلیا۔
درخواست گزاروں نے مؤقف اپنایا کہ وہ پاکستانی شہری ہیں، ان پر ملک بھر میں کوئی مقدمہ درج نہیں اور نہ ہی وہ کسی غیر قانونی یا ریاست مخالف سرگرمی میں ملوث رہے ہیں۔ وہ دبئی میں ایک سال تک ملازمت کرتے رہے، جہاں قیام کی مدت زیادہ ہونے پر انہیں ملک بدر کیا گیا۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی حلف برداری تقریب، مریم نواز کی شرکت
درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ وہ دوبارہ روزگار کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں لیکن ایف آئی اے نے ان کے نام ای سی ایل میں شامل کر دیے ہیں۔ اس فیصلے کے خلاف انہوں نے ڈی جی امیگریشن کو بھی درخواست دی ہے۔
عدالت سے استدعا کی گئی کہ ڈی جی امیگریشن کو درخواست پر فیصلہ کرنے اور نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پنجاب حکومت سرکاری خزانے سے ذاتی تشہیر لاہور ہائیکورٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پنجاب حکومت سرکاری خزانے سے ذاتی تشہیر لاہور ہائیکورٹ لاہور ہائیکورٹ درخواست پر سی ایل عدالت نے جواب جمع
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بنچ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جوڈیشل ورک سے روکتے ہوئے سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کے فیصلہ تک بطور جج کام کرنے سے روکنے کا حکم دیدیا اور سینئر قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ اور اشتر علی اوصاف کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر معاونت طلب کرلی۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری کی بطور جج تعیناتی کے خلاف میاں داؤد کی درخواست پر سماعت کے دوران درخواست گزار عدالت پیش نہ ہوئے اور معاون وکیل کی جانب سے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی۔ اسلام آباد بار کونسل کے ممبر راجہ علیم عباسی نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ جوڈیشل کمیشن کا اختیار ہے، ایسی درخواستوں سے خطرناک ٹرینڈ قائم ہوگا، سپریم کورٹ کے دو فیصلے اس حوالے سے موجود ہیں، لہٰذا اس درخواست پر اعتراضات برقرار رہنے چاہئیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس کیس میں فریق ہیں؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حق سماعت کسی کا بھی حق ہے لیکن ہمیں آفس کے اعتراضات کو دیکھنا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ آنے تک کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا رہے گا، عدالت کے سامنے ایک اہم سوال ہے جس کو دیکھنا ہے، اگر معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہو تو کیا ہائی کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے؟، عدالت نے معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہونے کے باعث سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک سماعت ملتوی کر دی۔ اسلام آباد بار کونسل نے ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کے معاملے پر آج بدھ کو ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے جنرل باڈی اجلاس بھی طلب کرلیا۔ حکمنامہ کے بعد ججز کا نیا ڈیوٹی روسٹر جاری کردیا گیا۔ نئے ڈیوٹی روسٹر میں جسٹس طارق محمود جہانگیری شامل نہیں ہیں، جسٹس طارق محمود جہانگیری کا ڈویژن بینچ اور سنگل بنچ بھی ختم کردیا گیا۔ ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس اعظم خان کو عہدے سے ہٹانے کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی ہے، جسٹس اعظم خان کی اسلام آباد جوڈیشل سروس میں مستقلی اور بعد ازاں ترقی غیرقانونی ہے۔ جبکہ رولز کے تحت صرف وہی ججز مستقل کیے جا سکتے تھے جو پہلے سے اسلام آباد جوڈیشل سروس میں کام کر رہے تھے۔ بعد میں ڈیپوٹیشن پر آنے والے ججز کو مستقل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔سینئر قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر علی اوصاف عدالتی معاون مقرر کر دیا گیا جبکہ اٹارنی جنرل سے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر معاونت طلب کر لی گئی ہے۔واضح رہے مذکورہ کیس میں فاضل جج کی تعلیمی اسناد کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔