امریکا بھی ایران کے خلاف جنگ میں شامل، تہران کے جوہری تنصیبات پر حملہ کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
امریکا بھی ایران کے خلاف جنگ میں شامل، تہران کے جوہری تنصیبات پر حملہ کر دیا WhatsAppFacebookTwitter 0 22 June, 2025 سب نیوز
واشنگٹن: امریکا بھی ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں شامل ہوگیا اور امریکی طیاروں نے تہران کے 3 جوہری تنصیبات پر حملے کردیے، امریکی طیاروں نے ایران کے فوردو، نطانز اور اصفہان میں بمباری کی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’ٹروتھ سوشل‘ پر اپنی پوسٹ میں اعلان کیا کہ امریکا نے ایران میں فردو، نطنز اور اصفہان جوہری تنصیبات پر ’انتہائی کامیاب حملہ‘ مکمل کر لیا ہے۔
اپنی پوسٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ تمام امریکی طیارے اب ایران کی فضائی حدود سے باہر نکل چکے ہیں۔
امریکی صدر نے لکھا کہ فردو نیوکلیئر سائٹ ہمارا مرکزی ہدف تھا اور اس پر مکمل بمباری کی گئی ہے اور یہ پلانٹ ختم کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام طیارے بحفاظت واپس آ رہے ہیں، ہماری عظیم امریکی فوج کو مبارک ہو، دنیا کی کوئی اور فوج یہ کارنامہ انجام نہیں دے سکتی تھی، اب امن کا وقت آگیا ہے، اس معاملے پر توجہ دینے کا شکریہ۔
ایک اور پوسٹ میں امریکی صدر نے کہا کہ وہ رات 10 بجے وائٹ ہاؤس میں قوم سے خطاب کریں گے، جس میں وہ ایران میں امریکی فوج کی کامیاب کارروائی پر بات کریں گے۔
ٹرمپ نے اپنے پیغام میں کہا ’ایران میں ہماری بہت کامیاب فوجی کارروائی کے حوالے سے قوم سے بات کروں گا، یہ امریکا، اسرائیل اور پوری دنیا کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے، ایران کو اب اس جنگ کے خاتمے پر رضامند ہونا ہوگا۔
امریکی حکام کے مطابق امریکا کے بی ٹو بمبار طیارےا یران کے جوہری مراکز پر حملوں میں استعمال ہوئے۔
ایرانی سرکاری خبر رساں ادارے فارس نیوز کے مطابق، تہران سے تقریباً 87 میل جنوب میں واقع شہر قم کے رہائشیوں نے شہر کے باہر متعدد دھماکوں کی آوازیں سنیں، فردو نیوکلیئر پلانٹ قم کے قریب ایک پہاڑ کے اندر واقع ہے۔
فارس نیوز نے رپورٹ کیا کہ یہ دھماکے اس وقت سنائی دیے جب فردو میں فضائی دفاعی نظام کو فعال کر دیا گیا۔
’یہ حملے امریکا کو خطرناک جنگ میں جھونک سکتے ہیں‘
دوسری جانب، امریکی کانگریس کی ڈیموکریٹ رکن سارا جیکبز نے ایران پر صدر ٹرمپ کے فضائی حملوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کے ایران پر حملے نہ صرف غیر آئینی ہیں، بلکہ یہ ایک خطرناک اشتعال انگیزی ہے جو امریکا کو ایک اور خطرناک جنگ میں دھکیل سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ایران اور اسرائیل کے درمیان شدید کشیدگی جاری ہے اور ایران کی جانب سے اس حملے پر ردعمل کا شدت سے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
’یہ درست اقدام تھا‘، امریکی سینیٹر کی ٹرمپ کی حمایت
امریکی سینیٹر لنڈسی گراہم نے سوشل میڈیا پر صدر ٹرمپ کے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے فیصلے کو سراہا۔
ان کا کہنا تھا کہ اچھا ہوا، یہ بالکل درست فیصلہ تھا، اس حکومت کو اسی کا سامنا کرنا چاہیے، میرے ہم وطنو، ہمارے پاس دنیا کی بہترین فضائیہ ہے۔ مجھے اس پر فخر ہے۔
سابق اسرائیلی وزیر دفاع کی ٹرمپ کی تعریف
اسرائیل کے سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کو ڈونلڈ ٹرمپ کا جراتمندانہ فیصلہ’ قرار دیا ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں کہا کہ اب دنیا ایک زیادہ محفوظ جگہ ہے۔
خیال رہے کہ یوآو گیلنٹ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خود غزہ میں مبینہ جنگی جرائم کے الزام میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کو مطلوب ہیں.
اس سے قبل، رائٹرز کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جمعرات کو اسرائیلی اور امریکی حکام کے درمیان ایک اہم فون کال ہوئی جس میں تناؤ کی صورتحال بھی پیدا ہوگئی تھی، اس فون کال میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، وزیر دفاع اسرائیل کاتز اور فوجی سربراہ ایال زمیر شامل تھے۔
فون کال کے دوران اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ فردو میں واقع ایران کی جوہری تنصیبات (جو ایک پہاڑ کے اندر گہرائی میں قائم ہیں) کو نشانہ بنانے کے لیے ان کے پاس وقت بہت کم ہے اور امریکا واحد ملک ہے جس کے پاس ایسے ’بنکر بسٹنگ‘ بم ہیں جو اس گہری تنصیب کو تباہ کر سکتے ہیں۔
اسرائیل نے امریکی انتظامیہ کو آگاہ کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے دیا گیا 2 ہفتے کا وقت بہت طویل ہے اور فوری کارروائی ضروری ہے، تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا یہ پیغام اعلیٰ سطح کی کال کے دوران دیا گیا یا نہیں۔
تاہم، اس کال کے دوران امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے اسرائیلی مؤقف کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو براہ راست مداخلت نہیں کرنی چاہیے، ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی اقدامات امریکا کو جنگ میں گھسیٹ سکتے ہیں، اس دوران فون کال پر امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ بھی شریک تھے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عوامی سطح پر کہا تھا کہ اسرائیل کے پاس فردو کو تنہا تباہ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان میں بوداپیسٹ پراسیس کا تاریخی اجلاس، 28 ممالک کے نمائندے شریک جہاد کا اعلان صرف ریاست کرسکتی ہے اس کا اختیار کسی فرد یا ٹولے کو حاصل نہیں ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر پاکستان نے سندھ طاس معاہدے پر بھارتی وزیر داخلہ کا بیان مسترد کر دیا اسرائیلی جارحیت سے خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں، اسحاق ڈار ڈیجیٹل کار پارکنگ کیس ، اے جے سی ایل کے دو ملزمان کی ضمانت قبل از گرفتاری مسترد نیب عدالت ، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری جنگ سے بچاو ممکن ، ایران جوہری ہتھیار حاصل نہیں کریگا، فرنسیسی صدر میکرون نے ایرانی صدرسے ضمانت مانگ لیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: جوہری تنصیبات پر کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر وزیر دفاع امریکا کو ایران کے نے ایران ایران کی سکتے ہیں فون کال کہا کہ ہے اور کر دیا
پڑھیں:
امریکا کی نظر التفات کوئی پہلی بار نہیں
امریکا بہادرکی ہم پر حالیہ نظر التفات کوئی انہونا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ ہم پرکئی بار محبت، شفقت، عنایت اور مہربانی کی بارشیں کرچکا ہے، اسے جب جب ہم سے کوئی کام نکلوانا ہوتا ہے وہ ہم سے اچانک یونہی محبت و شفقت کا رویہ اختیارکرنے لگتا ہے، البتہ اس بار جو بڑا فرق یہ نظر آرہا ہے وہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ اس کا معاندانہ رویہ ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔
خود انڈیا والے بھی حیران و ششدر ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرنے والی بھارتی حکومت اور اس کے وزیراعظم نریندر مودی بھی سکتے کے عالم میں اس امریکی رویے سے حیران و پریشان ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جیت پر واشنگٹن کی یاترا کرتے ہوئے انھوں نے جس مسرت و شادمانی کا اظہار کیا تھا اور ٹرمپ کے لیے بڑے تحسین آمیز الفاظ استعمال کیے تھے، اُن کا اثر یہ نکلا کہ ٹرمپ اپنی ہر تقریر میں بھارتی حکومت پر لعن و طعن کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
نریندر مودی کو اس وقت اپنی اپوزیشن اور عوام کے سامنے انتہائی خفت و شرمندگی کا سامنا ہے، وہ جھنجھلاہٹ کے عالم میں اس وقت کوئی بیان دینے کے قابل بھی نہیں رہے۔
ہمیں اس وقت کیا کرنا چاہیے۔ کیا امریکا کی اس اچانک کی جانے والی محبت و مہربانی پر شادیانے بجانا چاہیے یا اس کے پیچھے چھپے امریکی مفادات پرگہری نظر رکھنی چاہیے۔ ہم جیسے ملک پر امریکی مہربانیاں کچھ بلاوجہ نہیں ہوتیں۔ اس کے پیچھے ہمیشہ کوئی نہ کوئی بڑا مفاد چھپا ہوتا ہے۔ ہم ماضی میں بھی ایسی امریکی نوازشات سے مستفید ہوتے رہے ہیں جن کا خمیازہ ہمیں بعد میں بھگتنا پڑا۔
ہمیں چوکنا رہنا ہوگا۔ جنرل ضیاء کے دور میں افغانستان میں روسی مداخلت روکنے کے لیے اس نے ہم پر ایسی ہی بڑی مہربانیاں کی تھیں اور جب کام نکل گیا تو اس نے جس طرح نظریں پھیر دیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ اسی دور میں اس نے ہم پر اقتصادی پابندیاں بھی لگائی تھیں۔ ہمارے چالیس F-16 طیاروں کی ترسیل روک کر ہماری پہلے سے دی ہوئی بھاری رقوم بھی اس نے کئی سالوں تک روکے رکھی اور بعد ازاں اُس رقم کے بدلے ہمیں گندم لینے پر مجبورکردیا گیا۔
یہ زیادتی دنیا میں کسی ملک کے ساتھ نہیں ہوئی۔ امریکا جسے ہم اپنا دوست سمجھ کر قناعت کرتے رہے اسی امریکا نے ہمیں کئی بار دھوکے بھی دیے ہیں۔ ہماری معاشی بدحالی میں اس امریکا کا بہت بڑا ہاتھ اور کردار بھی ہے۔ وہ جب چاہتا ہے ہمیں اپنی محبت کے چنگل میں پھنسا لیتا ہے اور جب چاہتا ہے ہم پر پابندیاں میں لگا دیتا ہے۔
کبھی دہشت گرد ملکوں کی فہرست میں شامل کرکے اور کبھی فیٹیف کی گرے لسٹ میں شامل کر کے۔ کبھی CTBT میں دستخط نہ کرنے کی پاداش میں تو کبھی کم عمر بچوں سے کام لینے کے جرم میں۔ وہ جب چاہتا کسی نے کسی بہانے سے ہم پر پابندیاں لگاتا رہا ہے۔ آج اس کی یہ مہربانیاں بھی عارضی ہوسکتی ہیں۔
کل نیا آنے والا امریکی صدر یا خود ڈونلڈ ٹرمپ کیا پینترا بدل ڈالے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کا انداز حکومت سنجیدہ اور شائستہ نہیں ہے۔ وہ جذباتی اور عاجلانہ امیچیور فیصلے کر رہے ہیں۔ کل وہ اچانک ایک نیا فیصلہ کردیں یا اپنے انھی فیصلوں پر یوٹرن لے لیں کسی کو نہیں معلوم، لٰہذا ہمیں اپنے حق میں کیے گئے اُن کے فیصلوں پر شادیانے نہیں منانا چاہیے، بلکہ کسی بھی دوسرے مخالفانہ فیصلے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہم اپنی آنکھیں بند کرکے خود کو ایک بے اعتبار ملک امریکا کے حوالے نہیں کرسکتے جس نے ہمیں ہمیشہ دھوکا ہی دیا ہے۔
وہ ہماری خود مختاری اور خود انحصاری کا بہت بڑا دشمن ہے، وہ ہرگز نہیں چاہے گا کہ ہم ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر کے ایک ترقی یافتہ ملک بن جائیں۔ ہمیں محتاج اور غلام بنا کر ہی وہ ہم پر اپنا حکم چلا سکتا ہے، وہ ہماری جغرافیائی حیثیت سے بھی پوری طرح واقف ہے۔ اس لیے وہ کبھی کبھار ہم پر اپنی مہربانیوں کے ڈورے ڈالتا رہتا ہے تاکہ ہم اس سے اپنا ناتا جوڑے رکھیں۔ ہماری مجبوری یہی ہے کہ فی الحال ہم اس سے دشمنی مول نہیں سکتے، لہٰذا ہمیں سوچ سمجھ کراس کی اس اچانک نازل ہونے والی محبت میں چھپی چالوں کونہ صرف سمجھنا ہوگا بلکہ موثر اور بصیرت آموز طریقے سے جواب بھی دینا ہوگا۔