سابق چیئرمین ،ڈیپارٹمنٹ آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز اسلامیہ یونیورسٹی ،بہاولپور

اٹھارہ (18)جون کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان چیف آف دی آرمی سٹاف فیلڈ مارشل سید آصف منیر کی وائٹ ہاوس میں ظہرانہ پر ہونی والی ملاقات کو پاکستان میں ایک بڑی سفارتی کامیابی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

صدر ٹرمپ نے اس ملاقات کے بعد کی جانے والی پریس کانفرنس میں ایک بار پھر پاک بھارت جنگ رکوانے کا کریڈٹ لیا،اور کہا کہ فیلڈ مارشل آصف منیر نے میرے کہنے پرجنگ کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا اور میں نے اس بات کا شکریہ ادا کرنے کیلئے انہیں امریکہ مدعو کیا ہے۔ پاکستانی اچھے لوگ ہیں میں بھارت اور پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدے کرنا چاہتا ہوں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ پاکستان ایران کو ہم سے بہتر جانتا ہے اور پاکستان کو اس صورتحال پر تشویش ہے اور وہ اس میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔انہوں نے اس موقع پر ایران کے بارے میں اپنے گزشتہ  unconditional surrender جیسے بیانات کے برعکس ایران سے ڈائیلاگ کو ایک اور موقع دینے کی بات کی۔

یہ امر اہم ہے کہ اس ملاقات میں فیلڈ مارشل آصف منیر کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ سیکرٹری خارجہ مشرق وسطی کے نیشنل سیکیوریٹی ایڈوائزر بھی شریک تھے۔ فیلڈ مارشل آصف مینر نے ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دی۔ یقیناً یہ دورہ خوش آئند ہے تاہم اس کے سفارتی، دفاعی اور معاشی اثرات آنے والے وقت میں امریکہ کی طرف سے کئے جانے والے اقدامات سے ہی سامنے آسکیں گے۔

دوسری طرف اسرائیل ایران جنگ کئی روز سے جاری ہے اور اسرائیلی فضائیہ کی طرف سے جمعہ 13جون سے ایران پر شروع کئے جانے والے حملوں میں ایران کی کئی پٹرولیم و ایٹمی تنصیبات،ائیر پورٹس،فوجی ہیڈکوارٹرز اور شہری علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان حملوں میں ایرانی کمانڈر انچیف سمیت کئی جرنیلوں اور نیوکلیئر سائنسدانوں کی شہادتوں کی تصدیق ہوچکی ہے۔جبکہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی IEA نے NATANZ اور FORDOW نیوکلئیر پلانٹس کو نقصان پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔ جبکہ ساؤتھ ایران میں دنیا کے سب سے بڑے گیس فیلڈ پرس کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

اسرئیلی حملوں میں تبریز اور نوجہ ائیرپورٹ کو نقصان پہنچنے کی بھی اطلاعات ہیں۔جواب میں ایران نے بیلیسٹک میزائل فائر کرکے اسرائیل کے مختلف شہروں میں اسرائیل کے دفاعی نوعیت کے مقامات ائیر پورٹس موساد اور ملٹری ہیڈکوارٹرز کو نشانہ بنانے اور کئی طیارے اور ڈرونز گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔جنگ کی 6 روزہ کاروائی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کامیاب انٹیلیجنس ،جدید ٹیکنالوجی اور امریکی امداد کی وجہ سے پہلے دن کے حملے میں ہی ایران کو بہت سی قیمتی جانوں اور اثاثوں کا ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکا ہے اور ایرانی فضا پر مکمل کنٹرول کے باعث اسرائیل ایران کے اہم انفراسٹرکچر و تنصیبات کو نقصان پہنچا کر اسکی دفاعی صلاحیت کو کمزور کر چکا ہے۔تاہم ایران تاحال اپنے میزائلوں کے ذریعے جواب دے رہا ہے جس کے بیشتر حصے کو اسرائیلی ائیر ڈیفنس سسٹم آئرن ڈوم گرا لیتا ہے جبکہ کچھ اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

ایران کے پاس جنگ میں اہم کردار ادا کرنے والی جدید ائیر فورس نہیں ہے کیونکہ ایران نے اپنی ساری توجہ میزائل ٹیکنالوجی پر مرکوز رکھی اور ایران اسرائیل سے کئی گنا بڑا اور وسائل سے مالا مال ملک ہونے کے باوجود بوجوہ محدود جنگی صلاحیت کا حامل ہے اور مطلوبہ جنگی تیاری، انٹیلیجنس کا مناسب نیٹ ورک نہ ہونے اور اندرونی سیاسی و معاشی عدم استحکام کی وجہ سے طویل عرصے سے مسلسل اسرائیلی کاروائیوں کا نشانہ بنتا چلا آرہا ہے۔

اس جنگ سے قبل اسرائیل نے ایک منصوبہ بندی کے تحت غزہ،فلسطین، شام ،عراق اور یمن میں ایران کے حمایت یافتہ گروپوں کی طاقت کو کمزور کر کے ایران کو تنہا کردیا اور پھر ایران پر حملے کی دھمکیاں دینا شروع کردیں اور دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے اٹامک پروگرام پر پابندیاں لگانے کی بات کرتے ہوئے اس سلسلے میں ایران کو مذاکرات کی ٹیبل پر آنے پر اصرار کرتے رہے اور یہ بیانات بھی دیتے آرہے ہیں کہ اگر ایران نے پابندیاں قبول نہ کیں تو پھر اسے جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس سلسلے میں عمان کی کوششوں سے مذاکرات کی تاریخ مقرر ہوئی لیکن مذاکرات کی ٹیبل پر آنے سے کچھ دن پہلے سے ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر کہ اسرائیل ایران پر حملہ کر سکتا ہے، دنیا کو اس جنگ کیلئے ذہنی طور پر تیار کرنا شروع کردیا تھا اورحملے سے چند گھنٹے پہلے منعقد ہونے والے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجینسی کے اجلاس میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف قرار داد پاس کروا کے امریکہ نے اسرائیل کو حملے کی بنیاد فراہم کردی۔

حالانکہ یہی IEA ایران کے ایٹمی پروگرام پر حملے کے خلاف قرار داد پاس کر چکی تھی اور ایران کو ایٹمی طاقت بننے کے حوالے سے لگائے جانے والے اسرائیلی الزام سے کلین چٹ دے چکی تھی۔ اسکے علاوہ امریکی انٹیلیجنس کی نمائندہ ’گروسی‘ بھی اس سلسے میں ایران کو کلئیر کر چکی تھیں۔ لیکن اسرائیل نے اس کلیئرنس کو نظر انداز کر کے ایک بار پھر ایران پر جلد جوہری طاقت بننے کا الزام لگاتے ہوئے ایران پر حملہ کردیا اور مذاکرات کو شروع ہونے سے صرف دو دن پہلے سبوتاڑ کردیا۔اور اب وہ مسلسل امریکہ کو اس جنگ میں براہ راست شامل ہونے کا دباؤ ڈال رہا ہے۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کے یہ حملہ امریکہ کی آشیرباد سے کیا گیا ہے اور امریکہ فی الحال پس پردہ رہ کر اسرائیل کو حملے میں مدد فراہم کر رہا ہے اور اس جنگ میں باقاعدہ کودنے کیلئے اور ایران پر حملوں کے لئے جواز کا انتظار کررہا ہے اور یہ موقف بھی اختیار کر رہا ہے کہ ہم صورتحال کو دیکھ رہے ہیں اور ضرورت پڑی تو اسرائیل کی مدد کو میدان میں آجائیں گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ جنگ میں براہ راست شامل ہونے کیلئے دنیا کو ذہنی طور پر تیار کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف روس، چین اور مسلم ممالک کو بلواسطہ طور پر یہ پیغام بھی دینا چاہتاہے کہ اس جنگ میں کسی قوت کی طرف سے اسرائیل کے خلاف کوئی جنگی اقدام امریکہ کے خلاف اقدام تصور ہوگا۔ تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب سمیت بیشتر اسلامی ممالک نے اسرائیلی حملے کی سخت مٓذمت کی اور ایران کے جوابی حملوں کے حق کو جائز قرار دیتے ہوئے جنگ کو فوری روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔لیکن اس مذمت سے تو اسرائیل اور امریکہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔سوائے اس کے روس، چین اور مسلم دنیا کی مدد سے جنگ روکنے کیلئے بھرپور سفارتی دباؤبنا دیں یا پھر اسرائیل کو ایسی ضرب لگا دیں کہ وہ بھارت کی طرح جنگ بندی کیلئے مجبور ہو جائے۔

اس صورتحال کے پس منظر میں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے دئیے جانے والے مختلف بیانات کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل نے یہ جنگ امریکہ کی پشت پناہی اور ملی بھگت سے شروع کی ہے اور ان کی کوشش ہو گی کہ یہ جنگ ان کے طے کردہ اہداف تک جاری رہے گی۔اور وہ اہداف یہ ہو سکتے ہیں کے ایران کو کمزور کرکے اپنی شرائط پر مذاکرات کی ٹیبل پر لایا جائے اور دوسرا یہ کے ایران کے اسٹریٹجک اثاثوں کو شدید نقصان پہنچا کر مذاکرات کے بغیر ہی مقاصد حاصل کر لئے جائیں ان اہداف میں ایک موجودہ ایرانی رجیم کو تبدیل کر کے وہاں عراق اور شام کی طرح اپنی Puppet رجیم لے آئیں اور  مقاصد حاصل ہونے کے بعد ایک بار پھر ڈونلڈ ٹرمپ جنگ بندی کے کریڈٹ کا ایک اور تاج اپنے سر رکھنا چاہیں گے۔

پاکستان کے لئے اپنے پڑوسی برادر ملک پر مسلط کی جانے والی یہ جنگ اس لحاظ سے انتہائی تشویشناک ہے کہ اس کے اثرات براہ راست پاکستان پر مرتب ہوں گے۔پاکستان جو کہ طویل عرصے کے بعد امریکہ سے تعلقات کی بہتری کی طرف بڑھ رہا ہے۔اس صورتحال میں جہاں امریکہ اور ایران سے تعلقات کے توازن کے حوالے سے سخت امتحان کا شکار ہو گا۔ وہیں دوسری طرف انڈیا اور اسرائیل گٹھ جوڑ کے باعث ہماری افواج کو کسی بھی ایڈونچر سے بچاؤ اور نبٹنے کیلئے مشرقی اور مغربی سرحد کے ساتھ ساتھ ایرانی سرحد کی جانب بھی انتہائی الرٹ اور مسلسل جنگی حالت میں رہنا ہوگا جو کہ یقیناً کسی بھی ملک کی معیشت اور امن عامہ کی صورتحال کیلئے مثبت اثرات کا حامل نہیں ہوتا۔

اس صورتحال میں کہا جاسکتا ہے کہ پاک انڈیا تنازع کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کو مختلف لالی پاپ دینا دراصل چین اور روس سے دور کر کے اپنے قریب کرنے اور ایران کے معاملے میں مسلم دنیا اور چین و روس کے ساتھ مل کرکوئی بڑا سفارتی و جنگی قدم اٹھانے سے باز رکھنے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔

ہمیں اپنے مفادات کے پیش نظر امریکہ سے تعلقات کو ضرور بہتر کرنے کی کوشش کرنا چاہئے لیکن اس پاک امریکہ تعلقات کے تاریخی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ امریکہ نے پاکستان کو ہمیشہ اپنے مفادات کیلئے استعمال کرکے بیچ منجھدار میں چھوڑ دیا ہے اور اسرائیل امریکہ انڈیا گٹھ جوڑ اور گرینڈ گیم کا آئندہ ٹارگٹ پاکستان ہوسکتا ہے۔

اسرائیل اس سے قبل بھی ضیا دور میں انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کی کی منصوبہ بندی کر چکا ہے جسے پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے بروقت کاروائی کرکے ناکام بنا دیا تھا۔ پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہونے کے حوالے سے امریکہ اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کی نظر میں ہمیشہ سے کھٹکتا ہے۔

لہذا پاکستان سمیت اسلامی ممالک کو اسرائیلی حملے کی مذمت تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بغیر کسی تاخیر کے یک زباں ہوکر امریکہ پر ہر طرح کا سفارتی معاشی و اخلاقی دباؤ ڈال کر فوری طور پر ایران اور غزہ پر اسرائیلی حملے رکوانا چاہئے اور ایران پر اسرائیلی حملے کو اپنی ریڈ لائن قرار دیتے ہوئے ایران کے ساتھ کھڑا ہو جانا چاہئے۔کیونکہ یہ حملہ اسلامی ممالک کی قوت کا شیرازہ بکھیرنے کے اس گرینڈ ایجنڈے کا حصہ ہے جس کے تحت حماس، عراق،لیبیا ،شام، مصر، یمن کی فوجی اور معاشی طاقتوں کو ختم کیا گیا اور اب ایران کی باری ہے اور اگر امریکہ اور اسرائیل ایران کو معاشی اور دفاعی طور پر تباہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اسکے بعد خدانخواستہ کسی اور اسلامی ملک کی باری آسکتی ہے لہذا اس وقت خاموشی یا مصلحت پسندی مستقبل میں مسلم امہ کو مکمل فوجی معاشی اور اقتصادی تباہی کی طرف لے جاسکتی ہے۔

دوسری طرف اسرائیل ایران اور روس یوکرین جنگ نے دنیا کے سامنے ایک نیا حیران کن منظر نامہ پیدا کردیا ہے کہ آئندہ جنگیں جدید ٹیکنالوجی اور انٹیلیجنس کے گٹھ جوڑ سے ہی لڑی جائیں گیں۔ ویسے تو جنگ اور امن میں بلخصوص دشمن ممالک اور بالعموم دوست ممالک کی دفاعی صلاحیت،سٹریٹیجیز اور دیگر ضروری اہم معلومات اکھٹی کرنے اور ان ممالک میں مخصوص ٹارگٹس حاصل کرنے کیلئے کاروائیاں کرنے میں خفیہ ایجنسیوں کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم اور سرد جنگ میں امریکی، روسی اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں کا کردار کاؤنٹر انٹیلیجنس، جاسوسی، پراپیگینڈہ اور دنیا بھر میں سبوتاژ کی کاروائیوں میں اہم رہا ہے اور آج بھی اندرون ملک اور بیرون ملک جاری ہے۔

پاک، بھارت پس منظر میں دیکھا جائے تو سقوط ڈھاکہ، فوجی تنصیبات، شخصیات اور دیگر اہم مقامات پر دہشت گرد کاروائیاں، چینی شہریوں پر حملے APS Peshawar سے لیکر جعفر ایکسپریس کے اغوا تک کے واقعات میں غیر ملکی ایجنسیوں کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کے واضح شواہد موجود ہیں۔ اسی طرح بھارتی حکومت انڈین مقبوضہ کشمیر،انڈین پنجاب، ناگا لینڈ ،میزورم کی علیحدگی پسند تحریکوں اور بھارت میں دہشت گردی کے مختلف واقعات کا الزام پاکستان پر لگاتی آرہی ہے اور اسی وجہ سے پہلگام واقعے کے بعد مئی 2025 میں چار روزہ پاک بھارت جنگ بھی ہو چکی ہے۔

 جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے بعد جنگوں میں خفیہ ایجنسیوں کا کردار اور بھی اہم اور موثر ہوگیا ہے اور عالمی جنگی اسٹیج پر نئی ٹیکنالوجی،خفیہ ایجنسیوں کے گٹھ جوڑ اور غیر روایتی حملوں کی شکل میں چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے ہیں۔

یوکرین نے روس کے ایئر بیسز اور جنگی بیڑوں کو نشانہ بنانے کے لیے جس طریقے سے کارگو کنٹینرز، تجارتی ٹرکوں اور بغیر پائلٹ ڈرونز کو استعمال کیا اس نے عالمی دفاعی نظاموں کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ حملے نہ صرف روایتی ہتھیاروں کے دائرہ کار سے باہر تھے بلکہ ان میں جدید طریقہ تخریب کاری اور سائبر انٹیلیجنس کی مہارت بھی شامل تھی۔ یوکرینی ڈرونز نے روس کے اندر سے ہی پرواز کرکے روسی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا اور انتہائی بیش قیمت جنگی جہازوں کو زمین پر اپنے ہینگرز میں ہی تباہ کر دیا۔

اسرائیلی ایجنسی موساد نے بھی ایران،غزہ،شام،لبنان اور فلسطین میں بھی یہی کام کیا۔حزب اللہ کے راہنماوں کے زیر استعمال پیجرز کے ذریعے انہیں شہید و زخمی کیا گیا۔ انٹیلیجنس اور ٹیکنالوجی کے کامیاب گٹھ جوڑ سے اسماعیل ہانیہ سمیت حماس کے متعدد راہنما اور ایرانی فوج کے کمانڈرز اور اہم سائینسدانوں کو شہید کیا گیا۔امریکی اور اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق موساد نے ایران کے اندر کئی مہینوں تک خاموشی سے بارودی مواد سے بھرے ہوئے ڈرون کے پرزے، چھوٹے کوارڈ کاپٹرز اور خودکار ہتھیار تجارتی کنٹینرز، سامان بردار ٹرکوں اور سوٹ کیسوں کے ذریعے پہنچائے۔ ان اشیاء کو اندر موجود نیٹ ورک نے مختلف ٹیموں کو تقسیم کیا۔

جو ایران کے ایئر ڈیفنس سسٹمز، میزائل لانچرز، اور کمانڈ مراکز کے قریب خفیہ طور پر تعینات کی گئی تھیں۔ جیسے ہی اسرائیلی F-35 جیٹس نے ایرانی تنصیبات پر حملہ کیا ان اندرونی ٹیموں نے زمینی سطح پر ایران کی دفاعی قوت کو مفلوج کر دیا۔ یوکرین میں روس اور اسرائیل کا ایران پر یہ حملے اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ جنگی حکمت عملی بدل چکی ہے۔ اب سرحدوں، دفاعی نظاموں یا روایتی ہتھیاروں پر انحصار کافی نہیں رہا۔ دشمن نہ صرف آپ کے دروازے پر بلکہ آپ کے گھر کے اندر بیٹھ کر خاموشی سے خفیہ اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کاری وار کرسکتا ہے۔

ان دونوں واقعات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ان کارروائیوں میں تجارتی ذرائع یعنی کنٹینرز، ٹرانسپورٹ ٹرک، اور کارگو چینلز کو استعمال کیا گیا۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جس کی ایران اور افغانستان کے ساتھ طویل اور غیر محفوظ سرحدیں ہیں اور جہاں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں کنٹینرز، آئل ٹینکرز، اور سامان بردار گاڑیاں آمد و رفت میں مصروف رہتی ہیں۔ان راستوں پر نہ اسکیننگ کا مؤثر نظام موجود ہے نہ مکمل ڈیجیٹل مانیٹرنگ اور نہ ہی مکمل طور پر پاکستان دوست افراد کی نگرانی۔ یہ خلاء کسی بھی وقت ایک ایسے خطرناک حادثے کا ذریعہ بن کر پاکستان کی سلامتی کو ایران یا روس جیسا دھچکہ دے سکتا ہے۔

 ایران میں ہونے والی موساد کی کارروائی میں جس مہارت سے انٹیلیجنس نیٹ ورک بچھایا گیا اس میں را (بھارتی خفیہ ایجنسی) کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایرانی و پاکستانی بلوچستان میں را کی پراکسیز کام کررہی ہیں اور موساد اور را کی مشترکہ کارروائیاں نئی نہیں ان دونوں ایجنسیوں کی خفیہ انٹیلیجنس شیئرنگ، تربیتی تعاون اور ٹیکنالوجی ایکسچینج پہلے سے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔

ایران میں ڈرون، بارودی پرزے، اندرونی نیٹ ورک اور ہدف بنائے گئے مقامات کی تفصیلات خود بخود موساد کو حاصل نہیں ہو سکتی تھیں یہ کسی اندرونی اشتراک( را کی مدد) کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ایران اور روس جیسے ملوکیت نظام والے سخت گیر سیکیورٹی کے حامل ممالک میں یہ سب ہو سکتا ہے تو پاکستان جیسے سیاسی طور پر غیر مستحکم، سماجی طور پر تقسیم اور سرحدی لحاظ سے غیر محفوظ ملک میں اس کے امکانات کہیں زیادہ ہیں۔

مزید خطرناک بات یہ ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم مودی اس وقت سیاسی دباؤ اور عسکری ناکامی کی شرمندگی میں مبتلا ہے۔ گزشتہ چار روزہ جنگ میں ناکامی کے بعد بھارت کے دنیا بھر میں بیانیے کو ماضی کی طرح پزیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔ اس لئے بی جے پی حکومت اپنی ساکھ بچانے کے لیے کوئی بھی فالس فلیگ آپریشن کر سکتی ہے۔امریکہ مودی اور نیتن یاہو کی نظریاتی ہم آہنگی، را اور موساد کا تعاون، بھارت کا پاکستان مخالف اور اسرائیلی حمائت کا تاریخی رویہ اور پاکستان کا غزہ اور ایران جنگ میں اسرائیل مخالف بیانیہ اور امریکہ کا کھل کر اسرائیل کی حمایت میں آجانا سب خطرے کی گھنٹیاں ہیں۔اب ان کی نظریں ایران کے بعد پاکستان پر ہوں یہ صرف امکان نہیں بلکہ ایک قوی اندیشہ ہے۔

یہ حالات متقاضی ہیں کہ پاکستانی قیادت دانشمندانہ فیصلے کرتے ہوئے جنگی بنیادوں پر موثر سفارت کاری کرے۔ملک میں یکجہتی ،سیاسی استحکام پیدا کرنے اور فوری طور پر جدید ترین ٹیکنالوجی کے حصول اور اسکے ماہرانہ استعمال کیلئے ضروری اقدامات کرے۔  پاکستان اپنی سرحدوں کی مؤثر نگرانی کرے، تجارتی آمد و رفت کو جدید اسکیننگ سسٹمز سے گزاریاور ہر اس خلا کو پر کرے جس سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

جنگیں اب میدانِ جنگ سے زیادہ کارگو کنٹینرز، خفیہ کوارٹرز اور جعلی تجارتی نیٹ ورکس میں لڑی جا رہی ہے۔ یہ وقت قومی یکجہتی، بیداری، بلا امتیاز ظالمانہ ادارہ جاتی تطہیر،اپنے اندر چھپے دشمن نیٹ ورکس کو انجام تک پہنچانے اور دشمن کی سوچ سے پہلے اور آگے سوچنے کا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسرائیلی حملے خفیہ ایجنسیوں اسرائیل ایران اور پاکستان نقصان پہنچا اور اسرائیل ڈونلڈ ٹرمپ اس صورتحال کہ اسرائیل فیلڈ مارشل مذاکرات کی جانے والے پاکستان ا اور ایران ایران اور میں ایران ہے اور اس کی طرف سے کو نشانہ ایران پر کا کردار ایران کو ایران کے ہے اور ا ہے کہ اس پر حملہ نے والے حملے کی نیٹ ورک ہونے کے کے ساتھ کیا گیا کے خلاف سکتا ہے میں اہم سکتی ہے گٹھ جوڑ ہے کہ ا رہا ہے کے بعد کہ پاک اور ان

پڑھیں:

ایران کا تازہ ترین، حملہ بین گورین ایئر پورٹ میں اہداف، فوجی مراکز تباہ کرنے کا دعویٰ

پاسدارانِ انقلاب نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ اسرائیل کے خلاف تازہ حملوں میں فوجی مراکز کو کامیابی سے تباہ کیا گیا، اسرائیلی جدید دفاعی نظام ایرانی ڈرونز کو روکنے میں ناکام رہا جس کے بعد اسرائیلی عوام پناہ گاہوں میں جانے پر مجبور ہوئی۔ اسلام ٹائمز۔ ایران کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنے دفاع میں جوابی حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پاسداران انقلاب نے تل ابیب کے بین گورین ایئر پورٹ اور صیہونی فوج کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر سمیت کئی اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ ایرانی پاسدارانِ انقلاب گارڈز نے سرکاری بیان میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے اسرائیل کی جانب میزائل داغے جن کا ہدف بین گورین ایئرپورٹ اور فوجی ہیڈکوارٹرز تھے۔ پاسدارانِ انقلاب کے مطابق وعدہ صادق 3 آپریشن کے 18ویں مرحلے میں اسرائیل کے خلاف شہید 136 نامی ڈرونز اور جدید میزائلوں کا استعمال کیا گیا۔

پاسدارانِ انقلاب نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ اسرائیل کے خلاف تازہ حملوں میں فوجی مراکز کو کامیابی سے تباہ کیا گیا، اسرائیلی جدید دفاعی نظام ایرانی ڈرونز کو روکنے میں ناکام رہا جس کے بعد اسرائیلی عوام پناہ گاہوں میں جانے پر مجبور ہوئی۔ ایران کے پاسدارانِ انقلاب کی جانب سے اسرائیل کے شہر دیمونا میں ایٹمی ری ایکٹر کو بھی کامیابی سے نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

پاسدارانِ انقلاب کا کہنا ہے اسرائیلی دفاعی اور صنعتی تنصیبات پر حملوں کا سلسلہ مزید بڑھایا جائے گا اور صیہونی حکومت کے خلاف یہ کارروائیاں تسلسل کے ساتھ جاری رہیں گی۔ یاد رہے کہ اسرائیل کی جانب سے وقفے وقفے سے ایران پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے، اسرائیل نے آج صبح بھی اصفہان میں نیوکلیئر سائٹ کو نشانہ بنایا۔

متعلقہ مضامین

  • کوئٹہ، جماعت اسلامی کا ایران سے اظہار یکجہتی
  • امریکا عالمی دہشت گرد قرار: جماعت اسلامی کے مظاہرے میں اسرائیل مردہ باد کے نعرے
  • جماعت اسلامی کے زیراہتمام ایران پر امریکی و اسرائیلی جارحیت کیخلاف احتجاجی مظاہرہ 
  • ایران پر امریکہ کا حملہ عالم اسلام پر حملہ ہے، سراج الحق
  • ایران پر امریکی حملہ، جماعت اسلامی آج ملک گیر یوم احتجاج منائے گی
  • جماعت اسلامی کا ایران پر امریکی جارحیت کے خلاف کل یوم احتجاج کا اعلان
  • ایران پر امریکی حملے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں، دنیا پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے، پاکستان
  • ایران کا تازہ ترین، حملہ بین گورین ایئر پورٹ میں اہداف، فوجی مراکز تباہ کرنے کا دعویٰ
  • آیت اللہ خامنہ ای ہماری ریڈ لائن ہیں، ایران پر اسرائیلی جارحیت کیخلاف کراچی میں خواتین کا احتجاج