ایشیاکپ کی تاریخ میں پہلی بار بھارت اور پاکستان کل 28 ستمبر کو فائنل میں آمنے سامنے ہوں گے۔یو اے ای میں ہونے والے ایشیاکپ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں دونوں ٹیموں کا سامنا 2 بار ہوا ہے اور دونوں بار ہی بھارت فاتح رہا۔ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں مجموعی طور پر بھارت کو پاکستان پر برتری حاصل ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان 2007 سے لےکر اب تک صرف 15 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلےگئے ہیں جن میں سے 12 بار بھارت فاتح رہا ہے جب کہ 3 میں پاکستان نے بھارت کو شکست دی۔اتوار کو ہونے والے ایشیا کپ ٹی ٹوئنٹی کے فائنل سے قبل مذکورہ بالا ریکارڈ کو ہی دیکھتے ہوئے کرکٹ تجزیہ کار بھارت کو فیورٹ قرار دے رہے ہیں تاہم یہ بات ذہن نشین رہےکہ دونوں ٹیموں کے درمیان کثیرملکی ایونٹس کے فائنلز میں پاکستان کو برتری حاصل ہے۔روایتی حریف 2017 کے بعد پہلی مرتبہ کسی فائنل میں آمنے سامنے ہوں گے۔بھارت اور پاکستان نے 1985 کے بعد سے اب تک مختلف فارمیٹس کے 5 کثیر ملکی ٹورنامنٹ فائنلز میں ایک دوسرے کا سامنا کیا ہے، جن میں سے 3 فائنل پاکستان نے جیتے ہیں جب کہ 2 میں بھارت فاتح رہا ہے۔دونوں ٹیموں کا فائنل میں سامنا پہلی بار 1985 میں آسٹریلیا میں ہونے والی ورلڈ چیمپئن شپ میں ہوا تھا جس میں بھارت کو 8 وکٹوں سے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔اگلے سال 1986 میں شارجہ میں کھیلےگئے آسٹریلیشیا کپ کے فائنل میں آخری گیند پر جاوید میانداد کے مشہور چھکےکی بدولت پاکستان نے بھارت کو ایک وکٹ سے شکست دی تھی۔اس کے بعد دونوں ٹیموں کا سامنا 1994 میں ایک بار پھر شارجہ میں آسٹریلیشیا کپ کے فائنل میں ہوا تھا، اس بار بھی فتح پاکستان کے حصے میں آئی اور بھارت کو 39 رنز سے شکست ہوئی۔2007 میں جوہانسبرگ میں ہونے والے پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے فائنل میں بھارت نے دلچسپ مقابلےکے بعد پاکستان کو 5 رنز سے شکست دی تھی۔دونوں روایتی حریفوں کا آخری ٹاکرا کسی کثیر ملکی فائنل میں2017 کی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں ہوا تھا، لندن کے دی اوول گراؤنڈ میں کھیلے گئے اس میچ میں پاکستان نے بھارت کو 180 رنز کے بڑے فرق سے شکست دی تھی۔تو 5 کثیر ملکی ٹورنامنٹ فائنلز میں سے 3 فائنل پاکستان نے جیتے ہیں جب کہ 2 میں بھارت فاتح رہا ہے۔اس کے علاوہ بھی دونوں ٹیموں کے درمیان مزید 3 سہ ملکی سیریز کے فائنل ہوئے ہیں جن میں سے 2 میں پاکستان کو فتح ملی او

ر ایک میں بھارت فاتح رہا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: میں پاکستان دونوں ٹیموں پاکستان نے فائنلز میں میں بھارت فائنل میں ٹی ٹوئنٹی کے فائنل بھارت کو کے بعد

پڑھیں:

آر ایس ایس پر پابندی کتنی ضروری ؟

ڈاکٹر سلیم خان

آر ایس ایس کے حوالے سے کانگریس کے رویہ میں واضح تبدیلی نظر آرہی ہے ۔ پہلے کانگریسی آر ایس ایس سنگھ کا اس طرح نام لے کر مخالفت کرنے سے گریز کرتے تھے مگر اب وہ احتیاط دریا بردہو گیا ہے ۔ راہل گاندھی نے ساورکر کے معافی نامہ پر تنقید کا آغاز کیا اوراب صدر ملک ارجن کھرگے کھلے عام راشٹریہ سویم سیوک سنگھ پر پابندی عائدکرنے کا مطالبہ کردیا۔ اس معاملے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ اپنی بات کے حق گاندھی یا نہرو کے بجائے سنگھ کے چہیتے سردار ولبھ بھائی پٹیل کا حوالہ دیتے ہیں۔ وزیر اعظم کو عار دلاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر واقعی وہ سردار پٹیل کے نظریات کا احترام کرتے ہیں تو ان پر عمل کریں۔وہ مودی کے توسط سے سنگھ پریوار کو یاد دلاتے ہیں سردار پٹیل جی نے ایک خط میں لکھا تھا، کہ گاندھی جی کے قتل پر آر ایس ایس کے اراکین نے خوشی کا اظہار کیا تھا اور مٹھائی تقسیم کی تھی۔ ا س نے مزید مخالفت کو ہوا دی اور اسی ان کی حکومت کے پاس آر ایس ایس کے خلاف اقدامات اٹھانے یعنی پابندی لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ کھرگے کے مطابق ”سردار پٹیل کہا کرتے تھے کہ آر ایس ایس کی تقریروں میں فرقہ واریت کا زہر بھرا ہوا ہے ۔ آر ایس ایس کی وجہ سے ہی گاندھی جی کا قتل ہوا”۔انہوں نے الزام لگایا کہ گاندھی جی کو قتل کرنے والے وہی لوگ ہیں جو آج کانگریس پر سوال اٹھاتے ہیں۔
آر ایس ایس کو ایک دو نہیں بلکہ جملہ تین الگ الگ مواقع پر مختصر طور پر ایک غیر قانونی گروپ قرار دیا جا چکا ہے ۔ پہلی بار تو اس وقت جب ناتھو رام گوڈسے نامی سابق سنگھی نے ہندوستان کی آزادی کے ہیرو گاندھی کو قتل کر دیا تھا۔ دوسری مرتبہ پابندی سن 1975میں ایمرجنسی کے دوران پابندی لگائی گئی اور تیسری مرتبہ سن 1993میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد بھی یہی ہوا۔امسال گجرات کے ایکتا نگر میں اسٹیچو آف یونٹی کے قریب قومی یوم اتحاد پریڈ کے بعد اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ بھی کہاکہ ”سردار پٹیل کا ماننا تھا کہ تاریخ لکھنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ تاریخ بنانے کے لیے محنت کرنی چاہیے ”۔بات درا صل یہ کہ سنگھ کی تاریخ اس قدر شرمسار کرنے والی ہے کہ وہ اپنے ماضی کی پردہ داری کرکے دوسروں کی خاص طور پر مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرنے میں جٹے رہتے ہیں ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سن 1925میں قائم ہونے والی تنظیم آر ایس ایس نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں نہ تو حصہ لیا تھا اور نہ ہی سن 1942میں برطانوی حکومت کے خلاف بھارت چھوڑو” جیسی اہم تحریک میں اس کا کوئی کردار نظر آتا ہے ۔ یہ لوگ مخبری اور معافی مانگ کر ہمیشہ کے لیے وفاداری کا عہد کرتے رہے ۔
کیرالہ کے ضلع کوٹائم میں جس26 سالہ آئی ٹی پروفیشنل کی خودکشی کا اوپر ذکر کیا گیا اس کی تفصیلات چونکانے والی ہیں ۔ وہ 9 اکتوبر کو ترواننت پورم میں مردہ حالت میں پایا گیا تھا۔ اس نے انسٹاگرام پر جونوٹ چھوڑا اس میں الزام لگایا گیا تھا کہ اسے آر ایس ایس کی ایک شاکھا میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ کوٹائم میں آر ایس ایس کے دکشن کیرلَم سہ پرانتھ کاریواہ (جنوبی کیرالہ کے ناظم) کے بی سری کمار نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہمارے ایک سویم سیوک کی موت افسوسناک اور بدقسمتی کی بات ہے ۔” اسی کے ساتھ خودکشی کے نوٹ میں سنگھ کے خلاف کچھ مشکوک اور بے بنیاد الزامات کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کوٹائم پولیس کو دی گئی درخواست میں آر ایس ایس کو پھنسانے کی ایک دانستہ اور بدنیتی پر مبنی کوشش کی کرکے سنگھ کی شبیہ کو عوام کے سامنے خراب کرنے کی ایک بڑی سازش کا الزام لگایا تھا مگر اس طرح یہ اعتراف تو ہوگیا متوفی انندو سنگھ کا پروردہ تھا۔ مرنے سے قبل جھوٹ بولنے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور سازش کی آڑ میں سنگھ اس الزام سے بچ نہیں سکتا۔
سنگھ کے برعکس بائیں بازو کی جماعت سی پی آئی(ایم) کی یوتھ وِنگ، ڈیموکریٹک یوتھ فیڈریشن آف انڈیا کے ریاستی جنرل سکریٹری وی کے سَنوج نے دعویٰ کیا کہ مذکورہ شخص مبینہ جنسی استحصال کے باعث ذہنی اذیت میں مبتلا تھا۔ انہوں نے کہا، ”ہم بار بار بتا رہے ہیں کہ آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں کیا ہو رہا ہے ۔ اس نوجوان کی موت آر ایس ایس میں شامل ہونے والے تمام لوگوں کے لیے ایک انتباہ ہے” ۔ کیرالہ کی وایاناد سے رکن پارلیمان پرینکا گاندھی واڈرا نے ایکس پر لکھا:اس(متوفی) نے واضح طور پر کہا کہ وہ واحد متاثرہ نہیں تھا، بلکہ آر ایس ایس کیمپوں میں بڑے پیمانے پر جنسی استحصال ہو رہا ہے ۔ اگر یہ سچ ہے تو نہایت ہولناک ہے کیونکہ ملک بھر میں لاکھوں بچے اور نوجوان ان کیمپوں میں شریک ہوتے ہیں”۔انندو آجی نے اپنی پوسٹ میں لکھا :”میں کسی لڑکی، عشق، قرض یا ایسی کسی بات کی وجہ سے خودکشی نہیں کر رہا۔ میں ایسا اپنی بے چینی (anxiety) اور ڈپریشن کے دوروں کی وجہ سے کر رہا ہوں۔ اپنی دواؤں کی وجہ سے میں اپنے کام پر توجہ نہیں دے پاتا ہوں ۔ میں کسی سے ناراض نہیں ہوں، سوائے ایک شخص اور ایک تنظیم کے ۔ وہ تنظیم آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) ہے ، جس میں میرے والد (جو بہت اچھے انسان ہیں) نے مجھے شامل ہونے کو کہا تھا۔ اس تنظیم اور اس شخص دونوں کی وجہ سے سے میری زندگی بھر کی اذیت شروع ہوئی ”۔
انندو نے اپنی موت سے قبل خودکشی کے نوٹ میں لکھاکہ :”بچپن میں مجھے ایک شخص نے مسلسل جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ مجھے آر ایس ایس کے کئی اراکین نے بھی جنسی طور پر ہراساں کیا۔ مجھے نہیں معلوم وہ کون تھے ۔ لیکن میں اس شخص کو ضرور بے نقاب کروں گا جس نے میرے ساتھ تب زیادتی کی جب میں صرف 3 یا 4 سال کا تھا۔اس نے بار بار میرے ساتھ زیادتی کی، میرے جسم کے ساتھ بہت کچھ کیا۔ میں اس کے لیے جیسے ایک ‘جنسی کھلونا’ تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مجھے یہ احساس بہت بعد میں ہوا کہ میری ذہنی بیماری کی جڑ یہی زیادتی تھی، جب میری تشخیص OCD (وسواسی اختلال) کے طور پر ہوئی۔ اس سے پہلے تک مجھے لگتا تھا کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ میرے لیے بھائی جیسا تھا، اور میرے گھر والے بھی اسے رشتہ دار سمجھتے تھے ۔”ان انکشافات کے باوجود بی جے پی کے قومی ترجمان سدھا نشو تریویدی کا یہ بیان مضحکہ خیز ہے کہ ،”یہ واقعہ انتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ ہے ، لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ وہ گھناؤنی سیاست ہے جو کانگریس راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی شبیہ کو داغدار کرنے کے لیے کھیل رہی ہے ”۔
سچ تو یہ صد سالہ جشن کے رنگ میں اس سانحہ نے بھنگ ڈال کر اسے برسی کے سوگ میں تبدیل کردیا ہے ۔ آر ایس ایس پر پابندی کے مطالبے کی ابتداحال میں کرناٹک کے وزیر پرینک کھرگے نے کی ۔ انہوں نے ریاستی وزیر اعلیٰ سدارامیا پر زور دیا کہ وہ سرکاری اسکولوں، کالجوں اور مندروں میں آر ایس ایس کی سرگرمیوں پر پابندی لگائیں۔ ان کا الزام ہے کہ یہ تنظیم پر نوجوانوں کی برین واشنگ کر کے ان میں آئین مخالف خیالات کو فروغ دیتی ہے ۔ ملک ارجن کھرگے کے بعد یوگی باباکی ناک تلے سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے بھی آر ایس ایس پر پابندی کا مطالبہ کردیا۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کی یوم پیدائش کے موقع پر لکھنؤ میں پریس کانفرنس کر کے انہوں نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں پر نکتہ چینی کی۔اکھلیش یادو نے اعتراف کیا کہ ریاستوں کو متحد کرکے ہندوستان کو اتحاد میں ڈھالنے میں پٹیل کی شراکت داری ناقابلِ فراموش ہے ۔ آج ملک کو ایک بار پھر ان کے راستے پر چلنے کی ضرورت ہے ۔
اکھلیش یادو نے بھی بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کو ہندوستان میں امن و امان کی موجودہ صورتحال کے ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی سے کہا کہ اگر وہ واقعی سردار ولبھ بھائی پٹیل کے خیالات کا احترام کرتے ہیں تو انہیں آر ایس ایس پر پابندی لگانے کا فیصلہ لینا چاہیئے ۔ کانگریس کے قومی صدر کے آر ایس ایس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کو درست ٹھہراتے ہوئے اکھلیش یادو بولے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی ملک میں نفرت اور تشدد پھیلا رہے ہیں۔ اسی لیے سردار پٹیل نے اپنے دور میں آر ایس ایس پر پابندی لگا ئی تھی۔ اکھلیش یادو بولے ہمیں اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ سردار پٹیل نے آر ایس ایس پر پابندی کیوں لگائی تھی؟ ذات پات کے نام پر دلتوں کے خلاف اتنا ظلم کسی اور ملک نے نہیں ہوا ہے ۔ سردار پٹیل کے نظریات کو اپنا تے ہوے مساوات اور انصاف پر مبنی معاشرہ بنانا چاہئے مگر سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کیے بغیر اس مقصد کا حصول ناممکن ہے ۔ اس سوال کا جواب بہت بڑے نفی میں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • اسلامک سالیڈریٹی گیمز ‘ پاکستان کے 2 باکسرز کو سیمی فائنل میں شکست
  • سہ ملکی ٹی ٹوئنٹی سیریز ، زمبابوے نے اسکواڈ کا اعلان کر دیا
  • 40سال کی عمر سے زائد کھلاڑیوں کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ، پاکستانی اسکواڈ کا اعلان
  • اوور 40 ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لئے 18 رکنی پاکستانی اسکواڈ کا اعلان
  • ویمنز ون ڈے ورلڈ کپ کا 13واں ایڈیشن بھی پاکستان ٹیم کی قسمت نہیں بدل سکا
  • ‏40 سال کی عمر سے زائد کھلاڑیوں کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ، پاکستانی اسکواڈ کا اعلان
  • بھارت کے ساتھ نیا تجارتی معاہدہ دونوں ملکوں کے لیے تاریخی ہوگا، ٹرمپ کا اعلان
  • سونے کی قیمت میں7400 کا بڑا اضافہ، فی تولہ قیمت کتنی ہو گئی؟
  • ٹی 20 ورلڈ کپ؛ کون سے بھارتی شہر افتتاحی میچ اور فائنل کی میزبانی کریں گے؟
  • آر ایس ایس پر پابندی کتنی ضروری ؟