90 فیصد مطالبات منظوری کے باوجود بھی احتجاج، کیا ایکشن کمیٹی کو صرف لاشیں چاہیے تھیں؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
آزاد کشمیر میں جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی ہڑتال کا آج تیسرا روز ہے، جس کے باعث ریاست بھر میں نظام زندگی مفلوج ہے۔
حکومت پاکستان نے عوامی ایکشن کمیٹی کے 90 فیصد سے بھی زیادہ مطالبات مان لیے تھے لیکن اس کے باوجود احتجاج کرنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے لاشیں چاہیے تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: آزاد کشمیر: عوامی ایکشن کمیٹی کے مسلح شرپسندوں کا پولیس پر حملہ، 3 اہلکار شہید
عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے جگہ جگہ اپنے فرائض انجام دینے والی فورسز پر حملے کیے جارہے ہیں، اور اب تک ایک اے ایس آئی سمیت 3 اہلکار شہید ہو چکے ہیں، جبکہ 100 سے زیادہ زخمی ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معصوم کشمیریوں کی جانوں کا خون کس کے ہاتھ پر ہے؟ ایکشن کمیٹی کے شرپسندوں نے کھلے عام اسلحہ کا استعمال کیا، بے گناہ شہری شہید کیے۔ اس قتل و غارت گری کی براہِ راست ذمہ دار عوامی ایکشن کمیٹی کی وہ قیادت ہے جو ضد پر اڑی، یہ احتجاج نہیں، فساد ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق جو احتجاج معصوم خون بہائے اور کاروبار تباہ کرے، وہ عوامی نمائندگی نہیں بلکہ عوام دشمنی ہے۔ عوام لاشوں کی سیاست کرنے والے ایکشن کمیٹی کے نمائندوں کو اچھی طرح پہچان لیں، اس انتشار کا فائدہ صرف اور صرف بھارت کو ہو رہا ہے۔
دشمن کو خوش کرنے والے عوام کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے، عوامی ایکشن کمیٹی کی ہڑتال سے کشمیر کاز عالمی سطح پر کمزور ہوا ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی بھارتی ایجنڈے کو تقویت دے رہی ہے، امن و استحکام ہی ہماری اصل قوت ہے۔
عوام کو سوچنا ہوگا کہ کیا یہ ہڑتال کشمیری عوام کی بہتری کے لیے ہے یا ان کی زندگیوں کو اجیرن بنانے اور دشمن کو مضبوط کرنے کے لیے؟ کاروبار، تعلیم اور صحت کو روکنا عوامی سلامتی پر براہِ راست حملہ ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عوامی املاک کو جلانے والے دراصل اپنی ہی قوم کے دشمن ہیں، معصوم جانوں کا ضیاع، کاروبار کی تباہی اور امن و امان کا بگاڑ عوامی ایکشن کمیٹی کی سیاست کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ اس وقت فی الفور مذاکرات کی میز پر آنے کی ضرورت ہے۔
حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر نے جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو مسائل کے حل کے لیے ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دے دی ہے۔
وفاقی وزیر پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری اور وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایکشن کمیٹی کے ممبران کو مذاکرات کی دعوت دی۔
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہاکہ وزیراعظم پاکستان نے ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کے لیے میری اور امیر مقام کی ڈیوٹی لگائی تھی، جس کے بعد ہم نے مظفرآباد جاکر مذاکرات کیے۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے ایکشن کمیٹی کے 90 فیصد مطالبات کو تسلیم کیا، صرف دو مطالبات ایسے تھے جن کو پورا کرنے کے لیے آزاد کشمیر کے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ اور یہیں پر مذاکرات میں تعطل آیا۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی اور آزاد کشمیر حکومت کی عوامی ایکشن کمیٹی کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت
وفاقی وزیر نے کہاکہ ہم آزاد کشمیر میں افراتفری نہیں دیکھنا چاہتے، ہم نہیں چاہتے کہ یہاں کسی احتجاج کی وجہ سے بھارت کو پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملے، اس لیے آئیں بات چیت سے مسائل کا حل نکالیں۔
اس موقع پر وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق نے کہاکہ ایکشن کمیٹی کی صفوں میں کچھ ایسے عناصر شامل ہیں جو انتشار پھیلانا چاہتے ہیں، ہم پہلے بھی بات چیت کے لیے تیار تھے اور اب بھی تیار ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آزاد کشمیر احتجاج آزاد کشمیر ہڑتال جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی شرپسند عناصر لاشیں نظام زندگی مفلوج وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا زاد کشمیر ہڑتال جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی لاشیں نظام زندگی مفلوج وی نیوز عوامی ایکشن کمیٹی کی ایکشن کمیٹی کے مذاکرات کی نے کہاکہ کے لیے
پڑھیں:
پنجاب بھر میں دفعہ 144 میں 7 روز کی توسیع، احتجاج اور عوامی اجتماعات پر پابندی
محکمہ داخلہ پنجاب نے صوبے بھر میں دفعہ 144 کے نفاذ میں مزید سات روز کی توسیع کر دی ہے۔ نئے حکم نامے کے مطابق پنجابی صوبے میں ہر قسم کے احتجاج، جلسے، جلوس، ریلیاں، دھرنے اور عوامی اجتماعات پر پابندی برقرار رہے گی۔
نوٹیفکیشن کے تحت 4 یا زائد افراد کے عوامی مقامات پر جمع ہونے پر مکمل پابندی عائد ہوگی، جبکہ اسلحے کی نمائش اور لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر بھی مکمل قدغن برقرار رہے گی۔ لاؤڈ اسپیکر صرف اذان اور جمعے کے خطبے تک محدود رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیے: احتجاج، جلسے اور ریلیاں ایک ماہ کے لیے ممنوع، سندھ میں دفعہ 144 نافذ
محکمہ داخلہ کے مطابق صوبے بھر میں اشتعال انگیز، نفرت آمیز اور فرقہ وارانہ مواد کی اشاعت و تقسیم پر سخت پابندی عائد رہے گی۔ حکام نے واضح کیا کہ یہ اقدامات امن و امان کے قیام، عوام کی جان و مال کے تحفظ اور بڑھتے ہوئے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر کیے گئے ہیں۔
سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ عوامی احتجاج یا دھرنے دہشت گردوں کے لیے سافٹ ٹارگٹ بن سکتے ہیں، جبکہ شرپسند عناصر ایسے اجتماعات کا فائدہ اٹھا کر ریاست مخالف سرگرمیوں کو فروغ دے سکتے ہیں۔
پابندی کا اطلاق شادی کی تقریبات، جنازوں اور تدفین پر نہیں ہوگا، جبکہ سرکاری افسران و اہلکار اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اس فیصلے سے مستثنیٰ ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان میں دفعہ 144 نافذ، جلسے جلوس نہیں ہوسکیں گے
محکمہ داخلہ نے 22 نومبر تک دفعہ 144 کے نفاذ کے حوالے سے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی ہے کہ اس فیصلے کی عوامی آگاہی کے لیے بھرپور تشہیر کی جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اجتماعات پنجاب دفعہ 144