Jasarat News:
2025-12-08@00:43:27 GMT

سبق یاد نہ کرنے پر استاد کا کم عمر طالبعلم پر بدترین تشدد

اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT

سبق یاد نہ کرنے پر استاد کا کم عمر طالبعلم پر بدترین تشدد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

راولپنڈی کی تحصیل کلر سیداں کے ایک نجی اسکول میں استاد نے پانچویں جماعت کے طالب علم کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔

زرایع کے مطابق واقعہ اس وقت پیش آیا جب طالب علم سبق یاد نہ کر سکا تو استاد نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں بچے کے جسم پر نیل اور زخموں کے نشان پڑ گئے۔

متاثرہ طالب علم نے بتایا کہ استاد نے سبق نہ یاد کرنے پر مارا پیٹا، جبکہ والدین نے وزیراعلیٰ پنجاب اور سی ای او ایجوکیشن سے واقعے کا فوری نوٹس لینے اور متعلقہ استاد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری جانب اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تشدد میں ملوث استاد کو فوری طور پر ملازمت سے برطرف کردیا گیا ہے، جبکہ قانونی کارروائی کرنا متاثرہ بچے کے والدین کا حق ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

چونکا دینے والا انکشافات

اسلام ٹائمز: گذشتہ چند دہائیوں کے برعکس، جب مزاحمتی مجاہدین کی آزادی کی پکار کو خوفناک صہیونی جیلوں میں دبا دیا گیا، آج ہم دنیا بھر خاص طور پر مغربی دنیا میں تل ابیب کے جبر کے خلاف ایک بین الاقوامی بغاوت کا مشاہدہ کر رہے ہیں جس کی وجہ نوجوان نسل میں فکری بیداری کی لہر ہے۔ یورپ اور امریکہ میں سول سوسائٹی کی تنظیموں نے مارچ کیے، بائیکاٹ کی اپیل کی اور صہیونی سفارت خانوں کے سامنے ریلیاں نکالیں۔ ان کارکنوں کا بنیادی مطالبہ من مانی گرفتاریوں اور تشدد کا خاتمہ اور زیر حراست افراد کو انصاف کی ضمانت دینا ہے۔ اس رجحان کے مطابق، انسانی حقوق کے کارکنوں اور فلسطینی اور بین الاقوامی سول سوسائٹی کی تنظیموں نے اپنے بیانات میں منظم تشدد، وسیع پیمانے پر گرفتاریاں اور دوران حراست شہادتوں کو بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے اور صیہونی حکام کے خلاف آزادانہ تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ کیا ہے۔ تحریر: علی احمدی

گذشتہ دو برس کے دوران غاصب صیہونی رژیم کے حراستی مراکز کی بند دیواروں کے پیچھے ایک روایت تشکیل پا چکی ہے جسے اقوام متحدہ نے "منظم تشدد کی باقاعدہ پالیسی" کا نام دیا ہے۔ ایک ایسا نام جس نے نہ صرف رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ ایک بار پھر صہیونی جرائم کے مختلف پہلووں کو انسانی حقوق کے عالمی ٹھیکہ داروں کے سامنے سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ٹارچر کی روک تھام کمیٹی کی تازہ ترین رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسطینیوں پر جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ محض اتفاقی خلاف ورزیاں نہیں ہیں بلکہ شدید مار پیٹ اور کتوں سے حملے لے کر بجلی کے جھٹکوں، مصنوعی ڈبونے اور جنسی تشدد تک بار بار کی جانے والی اذیتوں کا ایک سلسلہ ہے جسے کمیٹی کے مطابق فلسطینی قیدیوں کے حقوق سے انکار کے ایک گہرے اور پریشان کن نمونے کا اشارہ سمجھا جاتا ہے۔
 
چونکا دینے والے واقعات
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، دس آزاد ماہرین کی ایک کمیٹی نے غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے اس "جنگجووں کے قانون" کے وسیع استعمال کے بارے میں خبردار کیا ہے جس کے تحت ہزاروں فلسطینیوں کو طویل عرصے تک بغیر مقدمہ چلائے حراست میں رکھا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ستمبر کے آخر تک 3 ہزار 474 فلسطینیوں کو بغیر کسی الزام یا فرد جرم کے اور محض سیکورٹی مفروضوں کی بنیاد پر پولیس کی حراست میں رکھا گیا تھا۔ یہ مبہم قانونی ڈھانچہ معمول کا ایسا حصہ بن چکا ہے جس نے عملی طور پر نامحدود حد تک حراستوں کی راہ ہموار کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کی دو سالہ رپورٹ میں بڑی تعداد میں ایسے بچوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جنہیں صیہونی سیکورٹی فورسز نے بغیر کسی الزام کے گرفتار کر رکھا ہے۔
 
اس رپورٹ میں یہ حقیقت بھی فاش کی گئی ہے کہ جن بچوں کو حراست میں رکھا گیا ہے انہیں نہ صرف اہلخانہ سے رابطے پر سخت پابندیوں کا سامنا ہے بلکہ انہیں قید تنہائی میں بھی رکھا جاتا ہے اور بین الاقوامی معیار کے تحت تعلیم کے حق سے بھی محروم کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی کمیٹی نے واضح طور پر مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل بچوں کی تنہائی کو ختم کرنے کے لیے اپنے ملکی قوانین میں ترمیم کرے۔ تشدد کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ کی یہ کمیٹی، جو تشدد کی روک تھام کے لیے 1984ء کے کنونشن پر عملدرآمد کی نگرانی بھی کرتی ہے، نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں غاصب صیہونی رژیم کی روزمرہ کی سرگرمیاں اجتماعی طور پر تشدد کا باعث بن سکتی ہیں۔ یہ محض قانونی وارننگ ہی نہیں بلکہ اس حقیقت کی علامت بھی ہے کہ اب دنیا غاصب صیہونی رژیم کے غیر انسانی رویوں کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔
 
قید میں شہادت
غزہ جنگ بندی پر عملدرآمد کے دوسرے مرحلے میں تعطل پیدا ہو جانے کے بعد اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ نے ایک اور چونکا دینے والی حقیقت کا انکشاف کیا ہے: 75 فلسطینی شہریوں کی صیہونی جیلوں میں دوران حراست شہادت۔ یہ تعداد غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے جبکہ اب تک کسی اسرائیلی عہدیدار کو ان اموات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ ان شہادتوں کے بارے میں خاموشی اور بے عملی نے اسرائیلی جیلوں میں نگرانی کے عمل، جیل حکام کی جوابدہی اور شفافیت پر بھاری سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ دوسری طرف صیہونی کابینہ نے تشدد کے استعمال کی مسلسل تردید کی ہے اور وزارت خارجہ، وزارت انصاف اور جیل انتظامیہ کے نمائندوں نے اقوام متحدہ کی کمیٹی کے اجلاسوں میں دعوی کیا ہے کہ جیلوں کے حالات مناسب ہیں اور ان کی نگرانی کی جاتی ہے، لیکن یہ دعوے خاندانوں، قیدیوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کے پیش کردہ شواہد کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
 
اقوام متحدہ کی کمیٹی نے اس بات کی نشاندہی بھی کی ہے کہ تفتیش کے عمل کے بارے میں شکایات سننے کے ذمہ دار محتسب نے بڑی تعداد میں شکایات موصول ہونے کے باوجود گذشتہ دو برس کے دوران کوئی قانونی کارروائی شروع نہیں کی۔ سرکاری دعووں اور زمینی حقائق کے درمیان یہ واضح تضاد اسرائیل کے احتسابی نظام میں گہرے خلاء کو اجاگر کرتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم نے اسی عرصے کے دوران تشدد یا ناروا سلوک کے لیے اسرائیلی فورسز کے خلاف صرف ایک سزا درج کی ہے۔ ایک فوجی کو گزشتہ فروری میں غزہ کے قیدیوں کو اپنے مکوں، لاٹھیوں اور رائفل کے بٹوں سے بار بار مارنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ تاہم، کمیٹی اس بات پر زور دیتی ہے کہ اس کی سات ماہ قید کی سزا جرم کی شدت کی عکاسی نہیں کرتی اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایسے معاملات میں بھی جہاں خلاف ورزیاں ثابت ہوں، سزائیں کافی حد تک مناسب نہیں ہیں۔
 
عالمی بیداری 
گذشتہ چند دہائیوں کے برعکس، جب مزاحمتی مجاہدین کی آزادی کی پکار کو خوفناک صہیونی جیلوں میں دبا دیا گیا، آج ہم دنیا بھر خاص طور پر مغربی دنیا میں تل ابیب کے جبر کے خلاف ایک بین الاقوامی بغاوت کا مشاہدہ کر رہے ہیں جس کی وجہ نوجوان نسل میں فکری بیداری کی لہر ہے۔ یورپ اور امریکہ میں سول سوسائٹی کی تنظیموں نے مارچ کیے، بائیکاٹ کی اپیل کی اور صہیونی سفارت خانوں کے سامنے ریلیاں نکالیں۔ ان کارکنوں کا بنیادی مطالبہ من مانی گرفتاریوں اور تشدد کا خاتمہ اور زیر حراست افراد کو انصاف کی ضمانت دینا ہے۔ اس رجحان کے مطابق، انسانی حقوق کے کارکنوں اور فلسطینی اور بین الاقوامی سول سوسائٹی کی تنظیموں نے اپنے بیانات میں منظم تشدد، وسیع پیمانے پر گرفتاریاں اور دوران حراست شہادتوں کو بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے اور صیہونی حکام کے خلاف آزادانہ تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بچوں میں مثبت رویہ کیسے اجاگر کریں
  • اسلام آباد میں غیر قانونی مقیم افغانیوں کے خلاف فوری کارروائی کا حکم
  • چیف آفیسر ایم سی آئی کا ایکشن ،شہر بھر میں کھلے مین ہولز کو کور کرنے کا ہنگامی آپریشن مکمل
  • بھارتی دہشت گردی کے اقدامات تشدد کا باعث بنتے ہیں، اعجاز قادری
  • اسلام آباد: وزیر برائے ریلوے حنیف عباسی نجی اسکول میں یوم والدین کی تقریب سے خطاب کررہے ہیں
  • دین اسلام حضرت ابوطالبؑ کی محنت اور ان کی اولاد کی قربانیوں کا نتیجہ ہے،علامہ ریاض نجفی
  • نوابشاہ ،نجی اسکولز میں مونوگرام والی کاپیاں مخصوص کردی گئیں
  • میانوالی: والدین کے ہاتھوں قتل بچی کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ آ گئی
  • چونکا دینے والے انکشافات
  • چونکا دینے والا انکشافات