UrduPoint:
2025-11-08@05:02:17 GMT

فرانس نے بھی فلسطینی ریاست کو باضابطہ تسلیم کر لیا

اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT

فرانس نے بھی فلسطینی ریاست کو باضابطہ تسلیم کر لیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 ستمبر 2025ء) صدر ایمانوئل ماکروں نے فرانس کی طرف سے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’اسرائیلی اور فلسطینی عوام کے درمیان امن‘‘ کی حمایت کرتے ہیں۔

ماکروں پیر کے روز نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے، ’’امن کا وقت آن پہنچا اور ہم اب اس سے چند لمحے ہی دور ہیں۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’حماس کے زیر حراست 48 یرغمالیوں کو آزاد کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ جنگ، غزہ پر بمباری، قتل عام اور نقل مکانی روکنے کا وقت بھی آن پہنچا ہے۔‘‘

ماکروں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست میں فرانسیسی سفارت خانہ کھولنے کے لیے حماس کی جانب سے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے دوران یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی پیشگی شرط ہو گی۔

(جاری ہے)

ان کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور دیرپا امن قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ماکروں نے کہا، ’’ہمیں دو ریاستی حل کے امکان کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی طاقت میں ہر وہ ممکنہ کوشش کرنی چاہیے، جس سے اسرائیل اور فلسطین امن اور سلامتی کے ساتھ شانہ بشانہ نظر آئیں۔‘‘

فرانس کی طرف سے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال کی جانب سے اسی طرح کے اقدام کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔

اسرائیل کو غزہ کی جنگ پر بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔

اطلاعات کے مطابق فرانس کے اس اعلان کے بعد بیلجیئم، لکسمبرگ، مالٹا، انڈورا اور سان مارینو بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ہیں۔

پیر کے روز ہی سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان آل سعود نے بھی اقوام متحدہ سے خطاب کیا۔

انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ خطے میں پائیدار امن کے حصول کا واحد راستہ دو ریاستی حل ہے۔

یورپی کمیشن کی سربراہ ارزولا فان ڈیئر لائن نے کہا ہے کہ یورپی یونین غزہ کی تعمیر نو پر کام کرنے کے لیے ایک نیا مالیاتی منصوبہ ترتیب دے گی۔ انہوں نے اقوام متحدہ سے مخاطب ہو کر کہا، ’’ہم سب کو مزید کچھ کرنا چاہیے۔‘‘

فلسطینی میں جشن کا سماں

فلسطینی اتھارٹی فرانس کی طرف سے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے پر جشن منا رہی ہے۔

رملہ میں فلسطینی اتھارٹی کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا، ’’وزارت خارجہ اپنے دوست جمہوریہ فرانس کی طرف سے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا خیرمقدم کرتی ہے اور اسے ایک ایسا تاریخی اور دلیرانہ فیصلہ سمجھتی ہے، جو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہے۔ یہ فیصلہ امن کے حصول اور دو ریاستی حل پر عمل درآمد کے لیے جاری کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔

‘‘

فلسطینی اتھارٹی نے کینیڈا، برطانیہ، پرتگال اور ان دیگر مغربی ممالک کا بھی شکریہ ادا کیا، جنہوں نے حالیہ دنوں میں اسی طرح سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے ایک پیغام میں کہا، ’’ہم ان لوگوں سے جنہوں نے ابھی تک ایسا نہیں کیا ہے، اس کی پیروی کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

‘‘

ٹرمپ انتظامیہ نے محمود عباس کو امریکی ویزا دینے سے انکار کر دیا، جس کے سبب وہ ان اہم تقریبات میں شرکت کرنے اور اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کرنے سے قاصر ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے میں رملہ میں قائم ہے۔ یہ اتھارٹی علاقے کے کچھ حصوں میں ایک خودمختار انتظامیہ کی ذمہ داری سنبھالتی ہے اور فلسطینی ریاست کے بین الاقوامی طور پر تسلیم کرنے کی سفارتی کوششوں میں بھی شامل رہی ہے۔

فلسطینی وزیر خارجہ وارسین آغابیکیان کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے مغربی ممالک کی بڑھتی ہوئی تعداد سے زمینی حالات میں فوری تبدیلی نہیں آئے گی۔ تاہم اس سے اسرائیل کو واضح پیغام جاتا ہے کہ فلسطینی علاقوں پر قبضہ ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتا۔

’حماس کے لیے انعام‘ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ مغربی ممالک کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا عسکریت پسند گروپ حماس کو اسرائیل پر حملے کے لیے انعام دینے کے مترادف ہے۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولین لیویٹ نے پریس بریفنگ کے دوران کہا: ’’سچ کہوں تو، وہ (ٹرمپ) سمجھتے ہیں کہ یہ حماس کے لیے ایک انعام ہے۔ اس لیے ان کا خیال ہے کہ یہ فیصلے ہمارے کچھ دوستوں اور اتحادیوں کی طرف سے صرف باتیں ہیں اور یہ کافی نہیں ہیں۔‘‘

اسرائیل اور وزیر اعظم بینجیمن نیتن یاہو بھی یہی کہتے رہے ہیں اور انہوں نے اتوار کو برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے اعلانات کی شدید مذمت کی تھی۔

ٹرمپ منگل کے روز ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنی دوسری میعاد کے دوران پہلی تقریر کرنے والے ہیں، جہاں وہ اس متنازعہ موضوع پر بھی بات چیت کریں گے۔

لیویٹ نے بریفنگ میں بتایا کہ ٹرمپ اقوام متحدہ کی اسمبلی میں اہم مسلم ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ ’’کثیرالجہتی ملاقات‘‘ کریں گے، جن میں قطر، سعودی عرب، انڈونیشیا، ترکی، پاکستان، مصر، متحدہ عرب امارات اور اردن شامل ہیں۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فلسطینی ریاست کو تسلیم سے فلسطینی ریاست کو ریاست کو تسلیم کرنے ریاست کو تسلیم کر فلسطینی اتھارٹی فرانس کی طرف سے اقوام متحدہ کی تسلیم کرنے کا بین الاقوامی انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک پر اسرائیلی افسرہ گھر میں نظر بند

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

تل ابیب کی ایک عدالت نے اسرائیلی فوج کی سابق پراسیکیوٹر جنرل یفات ٹومر یروشلمی کو گھر پر نظر بند کرنے کا حکم دیتے ہوئے ان کی رہائی منظور کرلی ہے ۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق عدالت نے فیصلہ دیا کہ یروشلمی آئندہ 10 روز تک گھر پر نظر بند رہیں گی اور وہ صرف تحقیقاتی ادارے کو اطلاع دے کر اپنے وکیل سے ملاقات کے لیے گھر سے باہر جا سکیں گی،  عدالت نے انہیں 55 دن تک کیس میں شامل دیگر افراد سے رابطہ کرنے سے بھی منع کردیا ہے۔

یہ معاملہ اسرائیل کے بدنامِ زمانہ صدی تائمان جیل سے شروع ہوا، جہاں بنائی گئی ایک ویڈیو جولائی 2024 میں منظرعام پر آئی تھی،  فوٹیج میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی کو بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھا گیا، جس کے نتیجے میں قیدی کو شدید چوٹیں آئیں۔

رپورٹس کے مطابق یروشلمی نے اکتوبر 2025 میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ویڈیو انہی کی ہدایت پر جاری کی گئی تھی تاکہ  فوجی عدالتی نظام کے خلاف پھیلنے والے جھوٹے پروپیگنڈے کا جواب دیا جا سکے۔

اس واقعے کے بعد اسرائیلی وزارت دفاع کے ذرائع کے مطابق پولیس نے ایک موبائل فون برآمد کیا ہے جو ممکنہ طور پر یروشلمی کا ہے، یہ فون ہرزیلیا کے ساحل پر شہریوں کو ملا تھا،  پولیس نے تصدیق کی ہے کہ موبائل قبضے میں لے لیا گیا ہے اور اس کی فرانزک جانچ جاری ہے۔

واضح رہےکہ ،  یروشلمی کو گزشتہ دنوں  ایک ویڈیو لیک کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر تشدد کرتے دیکھا گیا تھا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اسرائیلی جیلوں میں اس وقت 10 ہزار سے زائد فلسطینی قیدی موجود ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، اور وہ تشدد، بھوک اور علاج کی عدم فراہمی جیسے سنگین حالات کا سامنا کر رہے ہیں، جن کے باعث متعدد قیدی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • ٹورزم، ماحولیات بہتری کیلئے خاطر خواہ کام کئے، سموگ میں کمی کے اقدامات دنیا تسلیم کر رہی ہے: مریم نواز
  • حزب‌ الله کو غیر مسلح کرنا دشوار ہے، فرانس
  • فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک پر اسرائیلی افسرہ گھر میں نظر بند
  • ڈی پورٹ کے باوجود برطانیہ آنے والا ایرانی دوسری مرتبہ ملک بدر
  • فرانس میں گھر کے مالک کو باغیچے میں دبایا گیا 8 لاکھ ڈالر مالیت کا سونا مل گیا
  • پنجاب کابینہ نے تحریک لبیک پر پابندی کی باضابطہ توثیق کردی
  • فرانس: ایک  شخص نے راہگیروں پر گاڑی چڑھا دی، 5 زخمی، 2 کی حالت نازک
  • جموں و کشمیر میں ریاست کا درجہ بحال کرنے کیلئے حالات کو معمول پر لانا ہوگا، عارف محمد خان
  • پنجاب کابینہ نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کی باضابطہ توثیق کر دی
  • ٹی ایل پی پر پابندی کی باضابطہ توثیق ، ایئر پنجاب پرائیویٹ کمپنی کے قیام کی منظوری