Islam Times:
2025-11-12@20:03:05 GMT

انقلابی فکر، امریکی دھمکیوں کا بہترین جواب

اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT

انقلابی فکر، امریکی دھمکیوں کا بہترین جواب

اسلام ٹائمز: امریکہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈال رہا تھا اور 12 روزہ جنگ میں صہیونی حکومت کے حملے کی حمایت کر رہا تھا۔ ٹرمپ اور زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی پالیسی کے بہت سے منصوبہ سازوں کو یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ایران کی "انقلابی سوچ" مزاحمت کی منطق، دشمن کو قیمت ادا کرنے کی بنیاد پر کام کرتی ہے، نہ کہ خطرے کے سامنے پیچھے ہٹنے کے طور پر۔ اس کے نتیجے میں کسی بھی قسم کا انتہائی اور نام نہاد زیادہ سے زیادہ دباؤ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے ردعمل کی سطح میں اضافہ اور ڈیٹرنس کو فروغ دینے کا باعث بنے گا۔ تحریر: علی رضا مشوری 
  کئی سالوں، خاص طور پر ٹرمپ کی صدارت کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں امریکی خارجہ پالیسی کا نقطہ نظر غلط اندازوں اور تخفیف پسندانہ تصورات کے سلسلے کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا ہے، جس کے تزویراتی اور عملیاتی دونوں سطحوں پر امریکہ کے لیے سنگین نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ٹرمپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے سیاسی نظام کو ایک ایسا نظام تصور کیا جو دباؤ اور طاقت کے سامنے پیچھے ہٹ جائے گا، ایک ایسا ملک جو بڑھتی ہوئی پابندیوں، جنگ کی دھمکیوں، نفسیاتی کارروائیوں اور اندرونی تقسیم پیدا کرنے کی کوششوں کے ذریعے اپنا طرز عمل تبدیل کرنے یا کمزور پوزیشن میں رہ کر بات چیت کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔

تاہم، یہ تصور بنیادی طور پر اسلامی جمہوریہ ایران میں طاقت کے ڈھانچے سے متصادم تھا، اور خاص طور پر انقلابی فکر کی اپنی مخصوص نوعیت کے ساتھ۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ان سالوں میں ہونے والے تجربے اور اس کو درپیش بحرانوں کے سلسلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران ایسی طاقت نہیں ہے جو دباؤ اور طاقت کے سامنے جھک کر کمزور پڑ جائے۔ اپنے عقیدے، شناخت کی ہم آہنگی، عوامی صلاحیتوں اور علاقائی تزویراتی گہرائی پر انحصار کرتے ہوئے، ایران ایک فعال ڈیٹرنس صلاحیت کو برقرار رکھنے اور بیرونی دباؤ کے خلاف دشمن کیخلاف طاقت استعمال کرنیکی صلاحیت رکھتا ہے۔
  ٹرمپ نے بار بار یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ ایران کے ردعمل کو پیش گوئی کے قابل تصور کرتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ جے سی پی او اے سے دستبرداری اور زیادہ سے زیادہ پابندیاں عائد کرنے سے ایران کو ایسی نازک معاشی اور سیاسی صورتحال میں ڈال دیا جائے گا کہ ملک کا فیصلہ ساز ڈھانچہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جائے گا۔ تاہم یہ سطحی نظریہ ان کی سب سے اہم غلطیوں میں سے ایک ثابت ہوا، کیونکہ وہ ایران میں انقلابی فکر کی نوعیت کو نہیں سمجھتے تھے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی انقلابی فکر میں طاقت صرف سخت ہتھیاروں کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ یہ نظریاتی جواز، عوامی تحریک، سلامتی کے تجربے اور ایک موثر علاقائی موجودگی کا مجموعہ ہے جو دباؤ یا دھمکی کی کسی بھی کوشش پر بھاری قیمت ادا کرتا ہے۔
  اس کے علاوہ ٹرمپ کو ایران کی علاقائی طاقت ہونے کے بارے میں بھی درست تاثر نہیں تھا۔ ان کا خیال تھا کہ مغربی ایشیا میں ایران کی موجودگی صرف امریکی مداخلت کے بعد طاقت کے خلا یا عدم استحکام کی بنیاد پر تشکیل دی گئی ہے جبکہ یہ موجودگی درحقیقت شناخت، سیاسی اور سلامتی پر مبنی مشترکات پر مبنی اسٹریٹجک تعلقات کا ایک نیٹ ورک ہے جسے باہمی روک تھام کی منطق کے فریم ورک کے اندر بیان کیا گیا ہے۔ یہ وہ ڈھانچہ تھا جو بیرونی حملوں اور دباؤ کا سامنا کرنے سمیت مختلف اوقات میں مربوط اور موثر ردعمل پیدا کرنے میں کامیاب رہا۔

ٹرمپ کو یہ حقیقت نظر نہیں آئی اور اس کے نتیجے میں انہوں نے خطے میں امریکی طاقت کی حدود کو تسلیم کرنے کے بجائے ایران پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی جس سے فطری طور پر ایرانی ردعمل سامنے آیا۔ ٹرمپ نے حال ہی میں اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے 12 روزہ جنگ کے آغاز میں ایران پر صہیونی حکومت کے پہلے حملے کی کمان ذاتی طور پر کی تھی۔ یہاں جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ ٹرمپ کی ذہنی پیشی، مبالغہ آرائی اور سیاسی فوائد کے حصول کے لئے فوجی کارروائیوں میں مبالغہ آرائی کے معمول کے نمونے کی عکاسی ہے۔ اگر ہم ان بیانات کو میڈیا بیانیے کی سطح پر بھی دیکھیں تو وہی بنیادی غلطی دہرائی گی۔

دوسرے لفظوں میں، ٹرمپ کے اس تاثر کے برعکس کہ ایران کے ساتھ فوجی محاذ آرائی ایک فوری اور کم لاگت والا اقدام ہوگا، 12 روزہ جنگ نے ظاہر کیا کہ یہ فوجی محاذ آرائی سخت اور بے قابو رد عمل کا سلسلہ جاری کرسکتی ہے اور یہاں تک کہ مغربی ایشیا میں امریکہ کی خواہش کے برعکس سیکیورٹی آرڈر کو بھی تباہ کرسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے خلاف ایران کی روک تھام کسی مخصوص کارروائی کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ تاریخی تجربات، مقامی دفاعی صلاحیت، علاقائی تزویراتی گہرائی اور سماجی طور پر ملت کو متحرک کرنے کی صلاحیت کے امتزاج کا نتیجہ ہے۔

پچھلی چار دہائیوں کے دوران ایران نے متعدد دھمکیوں، پابندیوں، جنگوں اور کثیر الجہتی کارروائیوں کا مقابلہ کیا ہے اور دشمن کو اپنے مقاصد کے حصول سے روکا ہے۔ اپنے حساب کتاب میں، ٹرمپ نے ایران کے "فعال ڈیٹرنس" کی اہمیت کو کم سمجھا۔ فعال روک تھام کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کے پاس رد عمل ظاہر کرنے کی طاقت ہے اور دوسرے فریق میں یہ یقین پیدا کر سکتے ہیں کہ کسی بھی معاندانہ کارروائی کو ان کے ابتدائی اندازے سے ہٹ کے جوابات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ وہی عنصر ہے جس نے امریکہ یا اس کے اتحادیوں کو ایران کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کرنے سے روکا ہے، یہاں تک کہ اعلیٰ ترین سطح کی کشیدگی کے حالات میں بھی۔

ایران کا فعال ڈیٹرنس، ایک دفاعی طاقت، میزائل ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس صلاحیت، علاقائی نیٹ ورکس اور عوامی یکجہتی کے امتزاج پر مبنی ہے اور یہ ڈھانچہ حملہ آور کے لیے خطرے کو اور مہنگا بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے غلط اندازے کے تجزیے کا ایک اہم پہلو اسلامی جمہوریہ ایران میں معاشرے اور سیاسی ڈھانچے کے درمیان تعلقات کے بارے میں ان کی غلط فہمی تھی۔ ٹرمپ کا خیال تھا کہ معاشی دباؤ معاشرتی تقسیم پیدا کر سکتا ہے اور قومی طاقت کو کم کر سکتا ہے، لیکن حقیقت یہ تھی کہ بہت سے معاملات میں بیرونی خطرے نے داخلی ہم آہنگی میں اضافہ کیا اور مزاحمت کے بیانیہ کو مضبوط کیا۔

یہ رجحان خاص طور پر اس وقت ظاہر ہوا جب امریکہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈال رہا تھا اور 12 روزہ جنگ میں صہیونی حکومت کے حملے کی حمایت کر رہا تھا۔ ٹرمپ اور زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی پالیسی کے بہت سے منصوبہ سازوں کو یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ایران کی "انقلابی سوچ" مزاحمت کی منطق، دشمن کو قیمت ادا کرنے کی بنیاد پر کام کرتی ہے، نہ کہ خطرے کے سامنے پیچھے ہٹنے کے طور پر۔ اس کے نتیجے میں کسی بھی قسم کا انتہائی اور نام نہاد زیادہ سے زیادہ دباؤ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے ردعمل کی سطح میں اضافہ اور ڈیٹرنس کو فروغ دینے کا باعث بنے گا۔ یہ بات علاقائی پیش رفت میں کئی بار واضح ہو چکی ہے اور اس نے امریکی پالیسی سازوں کو واضح پیغام دیا ہے۔

ایک ایسا پیغام جو طاقتور ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں ٹرمپ کی غلط فہمی تین اہم عوامل کا نتیجہ تھی:
1) انقلابی فکر کی نوعیت کو نظر انداز کرنا۔
2) خطے میں ایران کے تزویراتی نیٹ ورک کو نظر انداز کرنا۔
 3) عوام اور سیاسی ڈھانچے کے درمیان تعلقات کو غلط سمجھنا۔

ان غلطیوں کی وجہ سے ٹرمپ نے ایسی حکمت عملی اختیار کی جو امریکہ کے لیے کام نہیں کرتی تھیں اور اس کے برعکس ایران کی پوزیشن مضبوط ہوئی اور دشمن کو دھمکیاں دینے کے بھاری بھرکم بجٹ میں اضافہ کا باعث بنا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی انقلابی فکر جب تک وہ اپنی داخلی ہم آہنگی، دفاعی صلاحیت اور علاقائی تزویراتی گہرائی کو برقرار رکھے گی اور مضبوط کرے گی، بیرونی خطرات کے خلاف سب سے زیادہ مزاحم عنصر رہے گی۔ _______________________________ * بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ڈی    

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران کی اسلامی جمہوریہ ایران کے زیادہ سے زیادہ دباؤ انقلابی فکر کی بنیاد پر کے بارے میں اور سیاسی میں اضافہ ایران پر کہ ایران کے سامنے رہا تھا دشمن کو طاقت کے کرنے کی کے خلاف کسی بھی پیدا کر ہے اور اور اس تھا کہ

پڑھیں:

ایران کیخلاف پابندیاں ناکام، دشمن حیران و سرگرداں

اسلام ٹائمز: ایران نہ صرف پابندیوں کے مرحلے سے گزر چکا ہے بلکہ اب ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں عالمی توانائی منڈی کے بڑے کھلاڑی بھی تہران کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ تل ابیب کے ٹی وی اور سوشل میڈیا چینلوں سے لے کر لندن کے سرکاری نیٹ ورکس تک ایک ہی لہجہ سنائی دیتا ہے، ایران کی مزاحمت پر حیرت اور مغرب کی ناکامی پر خفگی کا اظہار۔ ان کے اپنے مبصرین کا اعتراف ہے کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کی شکست دراصل اسلامی جمہوریہ ایران کی فعال مزاحمتی حکمتِ عملی کی کامیابی کا ثبوت ہے، ایسی حکمتِ عملی جس نے پیچیدہ ترین پابندیوں کے جال کو غیر مؤثر زنجیر میں بدل دیا۔ خصوصی رپورٹ: 

مغربی ذرائع ابلاغ اب بھی پابندیوں کی دوبارہ واپسی کی خبریں نشر کر رہے ہیں، لیکن انہی نیٹ ورکس کے ماہرین اب اس منصوبے کی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ بی بی سی اور ایران انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹس کے مطابق ایران کے تیل فروخت کرنے کے نیٹ ورک نے پابندیوں کے اثرات کو تقریباً غیر مؤثر بنا دیا ہے، اور ٹرمپ دور کی پابندیوں کی پالیسی مکمل طور پر ناکامی سے دوچار ہو چکی ہے۔ ایران انٹرنیشنل اور بی بی سی جیسے ادارے، جو برسوں سے امریکہ کی ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے موافق بیانیے کو آگے بڑھاتے رہے، اب مغرب کے لیے ایک تلخ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ پابندیاں اور دھمکیاں نہ صرف ایران کو نہیں روک سکیں، بلکہ عملاً ایران کی مقامی صلاحیتوں کی تقویت اور تیل برآمدات میں اضافہ کا باعث بنی ہیں۔

لندن اور تل ابیب کے اسٹوڈیوز میں نمایاں اضطراب:
گزشتہ دنوں ایران انٹرنیشنل اور حتیٰ کہ بی بی سی کے ماہرین و مبصرین نے اپنے تجزیوں میں حیرت اور برہمی کے ملے جلے لہجے میں اسنپ بیک (Snapback) پابندیوں کے بے اثر ہونے پر گفتگو کی ہے۔ ان کا سوال ہے کہ آخر یہ کیسے ممکن ہوا کہ سلامتی کونسل کی پابندیوں کی واپسی اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کے تسلسل کے باوجود ایران نہ صرف تیل کی برآمد جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ اپنی آمدنی میں بھی اضافہ کر چکا ہے؟۔ مغربی تجزیہ کار یہ سمجھتے تھے کہ اقتصادی دباؤ سے ایران کے سیاسی نظام کو کمزور کیا جا سکتا ہے، اب ایران کی طرف سے زیادہ طاقت کیساتھ مزاحمت اور پابندیوں کو ناکام بنانے کے عملی طریقۂ کار کے سامنے ششدر ہیں۔ 

خود مغربی ماہرین تسلیم کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کی پالیسی ایران کے رویّے میں تبدیلی نہیں لا سکی، بلکہ نتیجتاً واشنگٹن کی عالمی تنہائی میں اضافہ ہوا۔ تازہ اعدادوشمار کے مطابق 2025 میں ایران کی تیل برآمدات مسلسل بڑھ رہی ہیں اور بعض اندازوں کے مطابق پابندیوں سے قبل کی سطح کو بھی عبور کر چکی ہیں۔ مغربی میڈیا نے تیل بردار جہازوں کی نگرانی کرنے والی کمپنیوں کے ڈیٹا کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران نے مشرقی ممالک کی منڈیوں میں تیل فروخت کا ایک مضبوط نیٹ ورک قائم کر لیا ہے، یہ ایک ایسا نیٹ ورک ہے جو ان ہی کے الفاظ میں پابندیوں کو بے اثر کر چکا ہے۔

مغربی ماہرین کا اسنپ‌بیک کی ناکامی پر اعتراف:
واشنگٹن اور بعض یورپی حکومتیں اسنپ‌ بیک (Snapback) پابندیوں کو دھمکی کے طور پر پیش کر رہی تھیں، اب وہ خود مغربی تجزیاتی حلقوں میں بھی غیر سنجیدہ اور غیر مؤثر سمجھی جا رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کے نفاذ کے لیے کوئی عالمی اتفاقِ رائے موجود نہیں، اور چین، روس سمیت کئی علاقائی ممالک اس منصوبے کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں۔ جبکہ ایران مخالف میڈیا بے بسی  اور پریشانی کے ساتھ "زیادہ سے زیادہ دباؤ" کی پالیسی کی ناکامی پر گفتگو کر رہا ہے، دوسری جانب مغربی سفارت کار بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ تہران سے نمٹنے کی حکمتِ عملی پر ازسرِ نو غور ضروری ہے۔ یہاں تک کہ بعض امریکی تھنک ٹینکس نے سفارش کی ہے کہ واشنگٹن کو پابندیوں کی بجائے تدریجی اور تعلقات کی حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہیے۔

ایران، ایک فعال اور پراعتماد کھلاڑی:
ایران کی چین اور روس کے ساتھ اقتصادی شراکت داریوں میں توسیع، نئی برآمدی راہداریوں کی ترقی، اور توانائی کے شعبے میں نجی و سرکاری کمپنیوں کی مؤثر فعالیت اس حقیقت کو آشکار کرتی ہے کہ ایران نہ صرف پابندیوں کے مرحلے سے گزر چکا ہے بلکہ اب ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں عالمی توانائی منڈی کے بڑے کھلاڑی بھی تہران کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ تل ابیب کے ٹی وی اور سوشل میڈیا چینلوں سے لے کر لندن کے سرکاری نیٹ ورکس تک ایک ہی لہجہ سنائی دیتا ہے، ایران کی مزاحمت پر حیرت اور مغرب کی ناکامی پر خفگی کا اظہار۔ ان کے اپنے مبصرین کا اعتراف ہے کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کی شکست دراصل اسلامی جمہوریہ ایران کی فعال مزاحمتی حکمتِ عملی کی کامیابی کا ثبوت ہے، ایسی حکمتِ عملی جس نے پیچیدہ ترین پابندیوں کے جال کو غیر مؤثر زنجیر میں بدل دیا۔


 

متعلقہ مضامین

  • امریکی ایوانِ نمائندگان میں تاریخی شٹ ڈاؤن ختم کرنے کے معاہدے پر آج ووٹنگ ہوگی
  • امریکی اور اسرائیلی انٹیلیجنس نیٹ ورکز کا اپنے ملک سے صفایا کردیا ہے، ایرانی انقلابی گارڈز
  • تقریر کی ‘گمراہ کن ایڈٹنگ’ کا الزام، ٹرمپ کی بی بی سی کو ایک ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کرنے کی دھمکی
  • ظہران ممدانی کی فتح ٹرمپ کی شکست
  • ٹرمپ ٹیرف سے کھربوں کی آمدنی: امریکی شہریوں میں فی کس 2 ہزار ڈالر تقسیم کرنے کا اعلان
  • قاتل کا اعتراف
  • ایران کیخلاف پابندیاں ناکام، دشمن حیران و سرگرداں
  • ٹیرف سے کھربوں کی کمائی، ٹرمپ کا امریکیوں میں فی کس 2 ہزار تقسیم کرنے کا اعلان
  • ٹیرف سے اضافی آمدن‘ امریکیوں کو فی کس 2 ہزار ڈالر دینے کا اعلان